منتخب کردہ کالم

اوباما کا آخری خطاب

امریکی صدر باراک حسین اوباما اپنی مدت صدارت کے آخری دن گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیس جنوری کو امریکا کے نئے صدر کا حلف اٹھائیں گے۔ چند دن پیشتر اوباما نے اپنی مدت صدارت کا آخری خطاب کیا۔ اس شہر میں کیا جس کا نام شکاگو ہے جہاں امریکی کالے اور غیر ملکی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اوباما کا زندگی کا ابتدائی دور غربت میں گزرا۔ سر چھپانے کو جگہ نہ ملی تو فٹ پاتھ پر بسیرا کیا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ایک پاکستانی نے، جس کا تعلق پاکستانی حیدر آباد سے تھا، ان کو اپنے کمرے میں جگہ دی۔ نہ صرف پاکستانی کھانے شوق سے کھاتے بلکہ انھیں پکانا بھی سیکھ لیا۔ دوسری پاکستانی ڈشز کے علاوہ آلو گوشت پسندیدہ تھا۔

غالباً ایک دفعہ سندھ حیدر آباد بھی آئے۔ ان کی والدہ اقوام متحدہ کے ایک ادارے سے منسلک تھیں۔ کئی سال ان کا قیام گوجرانوالہ میں رہا۔ اوباما بتاتے ہیں کہ دوران صدارت انھیں وائٹ ہاؤس میں قدامت پرست گوروں کی طرف سے رنگ و نسل کے شدید تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ حسین ہونے کی وجہ سے کیونکہ ان کے والد ایک سیاہ فام افریقی تھے جنہوں نے بسلسلہ تعلیم امریکا میں دوران قیام ایک گوری عورت سے شادی کی‘ ان متعصب لوگوں کی نظر میں ان کے باپ کا مسلمان اور ان کا کالا ہونا ناقابل معافی جرم تھا۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک کالا امریکا کا صدر ہوا۔ یہ ایک ’’عجیب حادثہ‘‘ تھا جو کہ امریکا جیسے ملک میں ہی ہو سکتا تھا۔ کہیں اور نہیں۔ اوباما کو صرف کالوں‘ لاطینی اور مسلمانوں سمیت دوسرے غیر ملکیوں نے ہی ووٹ نہیں دیئے جو تیس کروڑ امریکیوں کی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں بلکہ بہت بڑی تعداد میں گورے امریکیوں مرد و خواتین نے بھی ووٹ دیئے۔ تبھی تو وہ جا کر امریکا کے صدر بنے۔ اپنے تمام تعصبات رنگ و نسل مذہب کو ایک طرف رکھتے ہوئے۔

امریکا وہ ملک ہے جہاں کالوں کو براعظم افریقہ سے لاکھوں کی تعداد میں اغوا کر کے لایا گیا۔ پھر ایک طویل مدت امریکا میں ان کی حیثیت ایک غلام کے طور پر رہی۔ جہاں ان پر بدترین تشدد کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا۔ خوراک ان کو صرف اس قدر دی جاتی کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ چوبیس گھنٹے کام رات اور دن کی کوئی تمیز نہ تھی۔ اوباما کے صدر بننے سے پہلے کالوں کے ساتھ امتیازی سلوک پچھلی چند دہائیوں تک رہا۔ گورے ان سے حقارت آمیز سلوک کرتے۔ پھر بتدریج سب کچھ بدل گیا۔ وہ بھی ہم جیسے ہی تھے ‘ہزاروں سال سے وہ رنگ نسل مذہب کے تعصبات کا شکار تھے۔ آخر یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ کہ ان کی سوچ ہی بدل گئی… سیکولر جمہوریت نے یہ معجزہ کر دکھایا۔ وہ سیکولر جمہوریت جو انسان نے ہزاروں سال میں کروڑوں انسانوں کی قربانیوں اور خون کا سمندر عبور کر کے حاصل کی جس نے اسے سکھایا کہ تمام انسان برابر ہیں۔ کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہیں سوائے اہلیت کے۔

مذہب کسی انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اس میں کسی تیسرے فرد گروہ مذہب اور ریاست کو ہر گز مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ کسی انسان گروہ کے مذہبی حقوق اور تمام مذاہب کی حفاظت کے لیے ریاست کو اپنے تمام وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنی آخری حد تک جانا چاہیے۔ چاہے اسے اپنی پوری فوجی قوت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ انسانوں نے بے شمار تجربات کیے لیکن سب ناکام رہے۔ ہزاروں سال کے تجربے نے انسان کو یہ سکھایا کہ صرف سیکولر جمہوریت کے ذریعے ہی انسانوں کے ہر طرح کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ امن دوستی بھائی چارہ رواداری اور برداشت صرف سیکولر جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے بشرطیکہ اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ کوئی بھی قانون کاغذ پر لکھے الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے… لیکن اس پر اس وقت تک اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو سکتا جب تک ریاست اور اس سے کہیں زیادہ عوام اس پر عمل درآمد کا سچی نیت سے فیصلہ نہ کر لیں… قوانین کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہی ان قوانین کو محترم بناتا ہے۔

امریکی صدر نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ میں امریکی مسلمانوں کے خلاف پالیسی کو مسترد کرتا ہوں۔ انھوں نے زور دیا کہ نسلی امتیاز کے خلاف قوانین کی بالادستی قائم کی جائے کیونکہ نسل پرستی تقسیم کرنے والی طاقت ہے۔ اسی لیے میں نے امریکی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو مسترد کیا۔ امریکی صدر کا یہ مائنڈ سیٹ سیکولر سوچ نے پیدا کیا۔ مغرب جو ایک زمانے میں مذہب زبان رنگ نسل کی غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا جب انھوں نے اس سچائی کو پا لیا تو آخر کار وہ اس غلاظت سے نکل گئے۔

امریکی صدر نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ اقتدار کی پرامن منتقلی امریکی جمہوریت کی غلاظت ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی الیکشن کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں مشعل اوباما کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے شوہر تبدیلی کے اس عمل کے حامی ہیں کیونکہ خواہ ہم کیسا بھی محسوس کریں یہ اس قوم کی صحت کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم کمانڈر ان چیف کی حمایت کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اگلے صدر کے ساتھ ہیں اور ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے جو بھی کرنا پڑا کریں گے اور آخری فقرہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ اگر کامیاب ہوں گے تو ہم سب کامیاب ہوں گے۔

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے فروری ء2017 اہم وقت ہے۔