کراچی ایک بار پھر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کراچی پر ماضی میں ایک بڑا حملہ اسلام آباد کو بسانے کے لئے کیا گیا تھا۔ اب کی بار اسٹیٹ بینک کے چار اہم شعبے کراچی سے اٹھاکر لاہور بھیجے جارہے ہیں۔ لاہور میں نہ تو کوئی بندر گاہ ہے اور نہ ہی بینکوں کے ہیڈ آفسزکی اکثریت ہے، لیکن حکم ِنادر شاہی آیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی ادارہ جاتی کار کردگی بہتر بنانے، داخلی نظم و ضبط کی اثر انگیزی بڑھانے، فیصلوں میں استحکام کو یقینی بنانے اور اس کے آپریشنز میں مستعدی لانے کی غرض سے گیارہ میں سے چار شعبہ جات کو لاہور منتقل کیا جارہا ہے۔ نہ جانے کسی اور شہر میں منتقلی سے اسٹیٹ بینک کوکیا فوائد ہوسکتے ہیں؟ اورکون سی خوبیاں سمیٹی جا سکتی ہیں؟ خواہ مخواہ کے اس فیصلے سے کراچی سمیت پورے ملک میں افراتفری پھیل رہی ہے ۔ یہ کراچی کی تباہی کا ایسا بھیانک منصوبہ ہے کہ سندھ کے وزیر صنعت و تجارت منظور وسان بھی خوابوں کی دنیا سے باہر آگئے۔ انہوں نے ”سندھی گنڈاسا‘‘ اٹھا کر کہہ دیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے دفاتر لاہورمنتقل نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسٹیٹ بینک کی کراچی سے منتقلی سازش کا پہلا قدم ہے۔ کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد لے جانے کا سلسلہ بھی کچھ اسی طرح شروع کیا گیا تھا۔ منظور وسان صاحب اکثر اپنے خواب بیان کرتے ہیں لیکن اس بار حقیقت بتارہے ہیں۔ انہیں شاید اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین اور حساس نوعیت کا ہے اس لئے انہوں نے کہا کہ”اسٹیٹ بینک کے چار اہم شعبے اسلام آباد منتقل کرنے سے
کراچی کی صنعتیں اور بینکاری کا نظام تباہ ہوجائے گا‘‘۔ وزارت داخلہ کا گمان ہے کہ اسٹیٹ بینک لاہور منتقل ہوا تو اچھا کام ہوگا ۔ منظور وسان نے سوال کیا کہ کراچی میں ہوتے ہوئے اسٹیٹ بینک میں کون سا کام خراب ہو رہا ہے جبکہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال لاہور سے بہتر ہے۔
لگتا ہے کہ کراچی کے دکھوں کی دوا کرنے والا کوئی نہیں، اس مسئلے کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ کراچی اور اہلیان کراچی اب شکوہ شکایت سے آگے نکل گئے ہیں۔ اب تو افراتفری کا عالم ہے، کسی بھی لمحے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کی تباہی کی”بریکنگ نیوز ‘‘سامنے آسکتی ہے۔ کراچی کبھی روزگار کی ”جنت‘‘ تھا، آہستہ آہستہ بے روزگاری کا”جہنم‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ ایک کروڑ افراد اداسی اور مایوسی کے عالم میں رہتے ہیں کہ جانے کب ہمارا روزگار ختم ہو جائے، صنعت کا چلتا پہیہ رک جائے اور ہم بے روزگاری کا”سر ٹیفکیٹ‘‘ لے کرواپس اپنے گھر پہنچ جائیں۔ کراچی پورے پاکستان کی معیشت کو کھینچ رہا تھا، اب اسے اتنا ناتواں اور کمزور کیا جا چکا ہے کہ ملک کی” معاشی گاڑی ‘‘کو گدھے کی طرح کھینچنے والا کراچی کسی دن اسی بوجھ تلے دب کر ہی مر سکتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب حکومت شدید سیاسی بحران کا شکار ہے اور اسلام آباد پر سیاسی حملوں کی تیاری ہو رہی ہے، حکومت نے یہ نیا ”پنگا‘‘ کیوں شروع کیا؟ یہ وقت اتنی گرم باتیں کرنے کا نہیں تھا۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ لاہور میں موجود اسٹیٹ بینک میں یہ تمام سہولتیں مزید بہتر کردی جائیں۔ ایک گھر اجاڑ کر دوسرا گھر بسانا دراصل کچی آبادی والوں کی ذہنیت ہے۔ لاہور میں واپڈا کا دفتر ہے، ریلوے کا ہیڈکوارٹر موجود ہے، پی ایس ایل کا فائنل قذافی اسٹیڈیم لاہورمیں کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں، لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ آدھے فوائد لاہورسے کاٹ کر کراچی منتقل کئے جائیں۔ پیدا ہونے کے لئے بھی لاہور جانا پڑتا ہے کیونکہ کسی نے کہا ہے کہ ”جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں‘‘۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں مہاجر کراچی اور اندرون سندھ میں تھے اور متروکہ املاک کا محکمہ لاہور میں تھا۔ ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے مہاجروں کی اکثریت کراچی میں رہتی ہے لیکن وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے واہگہ بارڈرکے ذریعے جاتے ہیں، ان کے لئے مونا بائو کا راستہ طویل عرصے سے بند ہے، غرضیکہ کراچی کو طویل عرصے سے ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے ؎
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتائوں
اسٹیٹ بینک کی تبدیلی کا نقارہ شاید اس لئے بجایا گیا کہ یہ میسج دیا جائے کہ حکمرانوں کی سوچ اور پالیسی بدلی نہیں ہے۔ سارے چمن کے پھول توڑ کر اپنے دامن میں ڈال لو چاہے دامن پھٹ جائے ۔ سارے دریا کا پانی خود پی جائو چاہے پیٹ پھٹ جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئے محکمے بنائیں، نئی سہولیات عوام کو دیں اور یہی حکومت کا کام ہے۔ یہ بات ایک چھوٹا سا تاجر اور نچلے درجہ کا سرکاری افسر بھی سمجھتا ہے۔
کراچی ملک کے نقشے میں ضرور ہے لیکن قومی پالیسیوں میں نہیں۔ وفاقی حکومت بجلی سستی کرے، پانی کی فراہمی بڑھائے، گیس کا ناغہ ختم کرے یا کوئی اور اہم اعلان کرے، کراچی کو کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا۔ کراچی میں پہلے ہی بجلی مہنگی ہے، پانی کا کوٹہ اور ناغہ ایک ساتھ نافذ ہے، اب تو گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کی ”ہوا‘‘ بھرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، کراچی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنتا اور بنتا ہے تو ایسا کہ اسٹیٹ بینک جیسا اہم ادارہ بھی کراچی سے چھینا جا رہا ہے اور ایسے فیصلے سیاسی تنگ نظری کی بنیاد پر ہی کئے جاتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ حکومت چپکے چپکے تمام سرکاری اداروں کو لاہور منتقل کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔ ادھر ایم کیو ایم پاکستان بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے اور سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے قرارداد بھی پیش کر دی‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شعبوں کی لاہور منتقلی جیسے فیصلوں سے سندھ اکیلے پن کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سندھ کو سوتیلے پن کی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ سندھ اسمبلی میں قرارداد پر بحث ہو گی تو گرما گرم باتیں بھی ہوں گی۔ دکھ اور سکھ کا بھی ذکر ہو گا، جوشِ خطابت میں بہت سارے پرانے شکوے بھی سامنے آئیں گے کیونکہ سیاستدان جب بولتے ہیں تو بریک نہیںلگاتے اور منہ سے شعلے اگلنے لگتے ہیں۔ ملک کے ایک بڑے تاجر رہنما سراج قاسم تیلی نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے چار اہم دفاتر کو کراچی سے لاہور اس لئے منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ کراچی کی مالیاتی حیثیت کو کم کیا جا سکے۔ سراج قاسم تیلی نے یہ بھی کہا کہ لاہورکو دارالحکومت بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس موضوع پر ایک دل جلے نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ سمندر بھی کراچی سے واٹر ٹینکروں میں بھرکر اسلام آباد لے جائے، شاید پھر ان کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑ جائے۔