اور اب ریحام خان کی کتاب….رئوف طاہر
پاکستان اس وقت سیاسی لحاظ سے شدید تقسیم اور سنگین تفریق سے دوچار ہے۔ Highly Polarized Society،… 1970ء اور 1977ء والی سیاسی محاذ آرائی… افراد ہی میں نہیں ، قوم میں بھی 105, 104 درجے بخار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تب کوئی کسی کی نہیں سنتا ، عقل و خرد مائوف ہو کے رہ جاتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کی طرف سے ٹھوس دلائل و شواہد کے ساتھ بڑے سے بڑا الزام بھی بے اثر اور بے وقعت ہو کے رہ جاتا ہے۔ مخالفین کی طرف سے شراب نوشی کے الزام پر بھٹو صاحب کو بھرے جلسوں میں بھی اعتراف کرنے میں کوئی عار نہ ہوتی ، ”ہاں پیتا ہوں، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے تھک جاتا ہوں، تو تھوڑی سی پی لیتا ہوں، تمہاری طرح غریبوں کا خون تو نہیں پیتا‘‘۔ جیالے جھوم اٹھتے اور لڈی ڈانس کے ساتھ الاپتے ”جی او بھٹو جی‘ دیسی چھڈ ولایتی پی‘‘ ۔
ہم بھٹو پر ملک توڑنے کا الزام لگاتے، تو ذرہ برابر ندامت یا پشیمانی کے بغیر جواب ملتا ، ملک بنا ہی غیر فطری طور پر تھا۔ دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ اور درمیان میں ازلی و ابدی دشمن… اسے ایک نہ ایک دن ٹوٹنا ہی تھا۔
1997ء عمران خان اور اس کی تحریک انصاف کا پہلا الیکشن تھا… پانچ سال قبل اس کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے پہلا ورلڈ کرکٹ کپ جیتا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح بھی نیا نیا ہوا تھا (جس کے لیے زمین نواز شریف نے دی تھی اور اس کا سنگِ بنیاد بھی خان نے ان ہی سے رکھوایا تھا)۔ ان دونوں کارہائے نمایاں کی بے پناہ Good Will کے ساتھ خان کا میدانِ سیاست میں اترنا سیاسی مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ ایسے میں سیتا وائٹ منظر عام پر آئی… ان عورتوں میں سے نہ تھی، فواد چودھری جنہیں پیسے کی خاطر استعمال ہونے والی عورتیں قرار دیتا ہے۔ جمائمہ خان کی طرح سیتا بھی برطانوی لارڈ کی صاحبزادی تھی۔ دونوں کے والد ایک دوسرے کے دوست تھے اور اس ناتے جمائمہ اور سیتا میں بھی اچھی جان پہچان تھی۔ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے سیتا کی ایک ہی خواہش تھی کہ عمران اس کی پانچ سالہ بیٹی ٹیریان کا باپ ہونا تسلیم کر لے۔ وہ یہ کیس لاس اینجلس کی عدالت میں لے گئی۔ بار بار طلبی کے باوجود خان عدالت میں پیش نہ ہوا۔ وہ ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی انکاری تھا۔ آخر کار جسٹس انتھونی جونز نے اپنے فیصلے میں ٹیریان کو خان کی صاحبزادی قرار دے دیا۔ سیتا کی وفات کے بعد ٹیریان کو جمائما نے ”گود‘‘ لے لیا۔ 1997ء کی الیکشن مہم میں یہ سیکنڈل خان کے خلاف خوب اچھالا گیا۔ ہم سمجھتے تھے، سوسائٹی اس بری طرح پولرائزڈ ہو چکی ہو تو اس طرح کے سکینڈل کسی کام نہیں آتے (ہم اب بھی اپنی اسی رائے پر قائم ہیں۔) 1997ء کے الیکشن میں خان (اور اس کی نوزائیدہ پی ٹی آئی) بدترین نتائج سے دوچار ہوئے (خان سمیت اس کے بیشتر امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئی تھیں) تو اس کا سبب سیتا وائٹ سکینڈل نہ تھا۔ وہ نواز شریف کا الیکشن تھا۔ 1993ء میں نواز شریف جس طرح پرائم منسٹر ہائوس سے نکلے (یا نکالے گئے) اور پھر (مڈ ٹرم) الیکشن میں ان کی واپسی کا راستہ جس طرح روکا گیا (اس میں کچھ حصہ قاضی صاحب مرحوم کے PIF کا بھی تھا) ووٹر نے اس کا بدلہ 1997ء میں لے لیا۔ عمران خان اس الیکشن میں IRRELEVANT تھے۔ سیتا وائٹ نہ بھی ہوتی، تب بھی خان کے ساتھ اس الیکشن میں یہی ہونا تھا۔
اور اب ایک بار پھر الیکشن سر پر ہیں اور ریحام خان کی کتاب ایک بڑا الیکشن ایشو بن رہی ہے… ووٹر کے موڈ کی بات الگ ہے اس کے سوا نام دیدہ و نادیدہ عوامل خان کے حق میں نظر آتے ہیں۔ سیاسی بوالہوسوںکا بڑا غول بنی گالہ میں اتر چکا۔ ہماری برادری کے بزرگِ جہاندیدہ نصرت جاوید ان میں سے کم از کم پندرہ کے بارے میں تو ٹھوس حوالوں سے خبر رکھتے ہیں کہ وہ کیسے اور کس کے توسط سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ نصرت کا دعویٰ ہے کہ ان کی شمولیت ہرگز اچانک اور فطری انداز میں نہیں ہوئی۔
ہمارا خیال تھا کہ ریحام خان کی کتاب کو پی ٹی آئی کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے گی‘ اور اسے سیاسی مخالفین کا الیکشن سٹنٹ قرار دے کر (کسی مزید بحث مباحثے میں الجھنے کی بجائے) ”نو کمنٹس‘‘ کہہ کر آگے بڑھ جائے گی لیکن لگتا ہے کہ ریحام خان اور اس کی کتاب پی ٹی آئی کے اعصاب کے لیے خاصا سخت امتحان بن گئی ہے۔
ریحام خان کی اس کتاب کا ذکر ہم گزشتہ اڑھائی تین سال سے سنتے آ رہے ہیں۔ خان سے طلاق کے بعد مبین رشید ، ریحام خان کے کوآرڈی نیٹر کے طور پر سامنے آیا… لاہور سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان میں کچھ کر گزرنے اور آگے بڑھتے چلے جانے کا جذبہ خاصا فراواں ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ لندن سدھار گیا… 2015ء کے اواخر میں اس نے انگلستان میں انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ریحام خان بھی اس میں مدعو تھی۔ جہاز سے اتر کر اس نے اپنا موبائل آن کیا تو اس میں خان کی طرف سے اس کے لیے طلاق کا پیغام تھا۔ ریحام واپس آ کر لاہور کے ایک میڈیا ہائوس سے وابستہ ہو گئی اور مبین اس کا رابطہ کار بن گیا۔ اسی دوران مبین نے ہم جیسے قابل اعتبار دوستوں کو بتایا کہ وہ ریحام خان پر کتاب لکھ رہا ہے۔ یہ بیل کیوں منڈھے نہ چڑھی، مبین اس بارے میں تفصیل نہیں بتاتا۔ اندازہ یہی ہے کہ رائلٹی کے مسائل دونوں میں اختلافات کا باعث بن گئے تھے۔ مبین کا تازہ ترین موقف ہے کہ ریحام اس کتاب کو خان کی کردار کشی کا ذریعہ بنانا چاہتی تھی۔
پی ٹی آئی نے اس کتاب کی ذمہ داری بھی شریف فیملی پر ڈال دی ہے۔ فواد چوہدری ایسے قصے کہانیاں گھڑنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی کہ ریحام خان کی کتاب کو خان اور پی ٹی آئی نہایت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا پی ٹی آئی اس کتاب کے حوالے سے ”اپ سیٹ‘‘ ہے، فواد کو اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ پی ٹی آئی واقعی ”اپ سیٹ‘‘ ہے اور یہ بھی کہ وہ ”اپ سیٹ‘‘ کیوں نہ ہو؟ ریحام، خان کی سابق اہلیہ ہیں اور ان کی کتاب پر پی ٹی آئی کا ”اپ سیٹ‘‘ ہونا فطری ہے۔
فالکن کے ایئر فورس آفیسرز ہائوسنگ سوسائٹی کلب میں شامی صاحب کی طرف سے کونسل آف نیشنل افیئرز کے ارکان کے لئے دعوتِ افطار کا اہتمام تھا۔ سی ای اے نامی یہ تھنک ٹینک مختلف شعبۂ حیات کے اربابِ فکر و دانش پر مشتمل ہے۔ شامی صاحب نے سابق پارلیمنٹیرینز ڈاکٹر شفیق چودھری سے پوچھا: کیا آپ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سیاست ہمارے اس دوست کو گھٹی میں ملی تھی۔ دورِ طالب علمی میں کنگ ایڈورد میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں ایم این اے بنے اور وزیر اعظم جونیجو کے مخالف آزاد پارلیمانی گروپ کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ایک دور میں صوبائی وزیر صحت و ٹیکسیشن بھی رہے اور دامن پر کسی داغ دھبے کے بغیر یہ وزارت نبھائی۔ 2013ء میں بچوں کے اصرار پر نون لیگ سے پی ٹی آئی میں چلے آئے‘ اور گزشتہ پانچ سال میں دامے درمئے قدمے سخنے اسی کے ہو رہے۔ شامی صاحب کے سوال پر ان کا جواب تھا: میرے حلقے میں ٹکٹ پی ٹی آئی کے نون گروپ کو ملے گا۔ پی ٹی آئی میں کتنے ہی گروپ بن گئے ہیں‘ اور اصل پی ٹی آئی کہاں ہے؟
نئی سیاست اور نئے چہروں والی پی ٹی آئی تو اکتوبر 2011ء کے بعد تبدیل ہو چکی۔ خان کو اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لائوں؟