منتخب کردہ کالم

اور اب ووٹ کے احترام کیلئے…رئوف طاہر

اور اب ووٹ کے احترام کیلئے…رئوف طاہر

شامی صاحب کے ہاں کھانے کی محفلوں کا مہمانوں کی تعداد کے لحاظ سے بھاری بھرکم ہونا تو معمول ہے کہ میزبان کے کھلے دل کی طرح اگرچہ اس کا ڈرائنگ روم اور ڈائننگ ہال بھی خاصا وسیع و عریض ہے۔ اس کے باوجود تنگ پڑ جاتا ہے۔ لیکن اس ہفتے کا سنڈے برنچ دورانئے کے لحاظ سے بھی طویل تر ہو گیا تھا‘ گیارہ بجے سے سہ پہر تین بجے تک۔ احساس ہی نہ ہوا اور چار گھنٹے بیت گئے۔ ہم جیسے ایک آدھ کے سوا‘ اگرچہ یہاں سبھی مہمان خاص تھے لیکن ان میں دو ”خاص الخاص‘‘ تھے‘ جناب اکرم شیخ ایڈووکیٹ اور بی بی سی لندن والے شفیع نقی جامعی۔ عرصہ ہوا اکرم شیخ اپنا ہیڈ آفس اسلام آباد منتقل کر چکے لیکن ”ویک اینڈ‘‘ پر پاکستان میں ہوں تو لاہور چلے آتے ہیں۔ ہماری بھابھی صاحبہ پونے تین سال ہوئے‘ اس جہان سے رخصت ہو گئیں لیکن لوئر مال پر خوبصورت گھر میں ان کی یادیں‘ محبت کرنے والے شوہر کو لاہور کھینچ لاتی ہیں۔
معزول وزیراعظم کی ریلی گزشتہ شب لاہور میں اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس کے لیے جی ٹی روڈکے روٹ کا اعلان ہوا تو لوگ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریلی سے موازنہ کرنے لگے۔ ڈکٹیٹر کے ہاتھوں معزولی کے بعد چیف جسٹس پانچ مئی کی صبح اسلام آباد سے روانہ ہو کر جی ٹی روڈ کے ذریعے چھ مئی کی صبح (چھبیس ستائیس گھنٹے میں) لاہور پہنچے تھے۔ معزول وزیراعظم کی ریلی کے لیے‘ ملک کے سب سے زیادہ باخبر ذرائع نے چار سے چھ دن کی پیش گوئی کر دی تھی۔ اسے پنجاب ہائوس اسلام آباد سے ہزارہا لوگوں کے ساتھ روانہ نہیں ہونا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے تو راستے میں‘ اپنے اپنے علاقوں سے‘ اس کا حصہ بننا تھا۔ اٹھارہ انیس کلومیٹر کا راستہ بارہ ساڑھے بارہ گھنٹے میں طے ہوا اور نصف شب کو مری روڈ کمیٹی چوک میں چاروں طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ اگلی شام جہلم میں یہی منظر تھا۔ معزول وزیراعظم کا قافلہ یہاں اعلان کردہ وقت سے چار گھنٹے پہلے پہنچ گیا تھا‘ شہر والوں کو شب دس بجے کی اطلاع تھی۔ اپنے قائد کی آمد کی خبر سنتے ہی وہ دیوانہ وار ”جلسہ گاہ‘‘ کی طرف لپکے۔
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
قریبی دیہات سے آنے والے ابھی راستوں میں تھے اور یہاں چارسُو‘ انسانوں کا ہجوم تھا۔ اگلے دن گجرات کے راستے پر لالہ موسی میں بھی یہی کیفیت تھی۔ یہاں دس سالہ حامد کی حادثاتی موت بلاشبہ ایک المیہ تھی لیکن اہل سیاست و صحافت کے ایک حصے نے اسے معزول وزیراعظم اور اس کی جماعت کے خلاف پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ خان اور اس کی جماعت کا رویہ اس حوالے سے زیادہ افسوسناک تھا۔ کیا وہ 10 اکتوبر 2014ء کا ملتان کا المیہ بھول گئے تھے جب جاوید ہاشمی کی نشست پر ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے جلسے میں سات افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ جلسہ گاہ میں حبس کے مارے کارکنوں کا برا حال تھا۔ وہ بے ہوش ہو کر گر رہے تھے۔ ڈی جے بٹ اُن کے لیے ایمبولینس اور پانی منگوانے کی درخواست کرتا رہا۔ تب عمران خان سٹیج پر تھے اور شاہ محمود قریشی مائیک پر۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے تقریر جاری رکھی کہ اس طرح ہوتا رہتا ہے۔ عمران خان جلسہ کر کے واپس چلے گئے۔ انہیں ملتان ایئرپورٹ پر بتایا بھی گیا کہ بہت سے کارکن زخمی اور سات کارکن اپنی زندگیاں کھو بیٹھے ہیں لیکن وہ ملتان سے کوچ کر گئے۔ اگلے روز شہداکے جنازوں میں شاہ محمود قریشی کو ”قاتل قاتل‘‘ کے نعروں کا سامنا تھا۔
چودھریوں کے گجرات میں بھی‘ معزول وزیراعظم نے میلہ لوٹ لیا۔ وقت وقت کی بات ہے اور ایک وقت تھا‘ جب نوازشریف گجرات کے چودھریوں کے بھی لیڈر تھے‘ اور انہوں نے اپنے لیڈر سے اظہار محبت کے لیے‘ اس کی گاڑی کو چناب کے پل سے کندھوں پر اٹھا کر گجرات شہر پہنچایا تھا۔ گجرات سے پہلوانوں کا شہر گوجرانوالہ‘ جہاں کے باسی تین دن سے ”معزز مہمان‘‘ کے لیے یوں سراپا انتظار تھے کہ ہر شب میلے کا گمان ہوتا اور اگلے روز گوجرانوالہ سے لاہور اور راستے میں عوام گروہ در گروہ اور انبوہ در انبوہ…اور آخر میں چوک داتا دربار…اِدھر لوئر مال‘ سامنے سرکلر روڈ اور اُدھر مینار پاکستان کو جانے والی شاہراہ…جدھر دیکھو‘ لوگ ہی لوگ۔
چار دن کا یہ سفر اس عالم میں کٹا‘ کہ یہاں گرمی کی شدید ترین لہر تھی۔ دوپہر کو جب سورج سوا نیزے پر ہوتا‘ ادھر تارکول کی سڑکیں کوئلہ بن جاتیں اور ہجوم میں بندے سے بندا جُڑا ہو…یہاں ہر شہر کا ہر علاقے کا اپنا ہجوم تھا۔ مقامی ہجوم…یوں نہیں کہ لاہور میں ‘اسلام آباد میں طاقت کے مظاہرے کے لیے سارے پنجاب سے کارکنوں کو جمع کر لیا جائے۔ اسلام آباد میں جلسے کے لیے تو خیبر پختونخوا سے بھی خاصی بڑی تعداد میں کمک پہنچ جاتی یہاں کرسیاں تو درکنار بیٹھنے کے لیے دریاں بھی دستیاب نہ تھیں۔ ایک اہم بات نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی‘ غریب اور نچلے متوسط طبقے کے نوجوان۔
آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت فیصلے میں اپیل کا حق نہیں‘حالانکہ اپیل کے کم از کم ایک حق کو تو خود سپریم کورٹ بھی تسلیم کرتی ہے) 184/3 کے تحت مقدمے میں اپیل کے حق کے لیے ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ میں موجود ہے۔
معزول وزیراعظم نے ”عوام کی عدالت میں اپیل‘‘ کا فیصلہ کیا اور اس عدالت سے سرخرو ٹھہرے…اپنی چار سالہ کارکردگی کو وہ اس مختصر سوال میں بیان کرتے۔ ”بتائو! 2017ء 2013-ء سے بہتر ہے کہ نہیں؟‘‘ اس مہم میں انہوں نے عوام کے ووٹ کے تقدس کو بنیادی نکتہ بنایا…اور حیرت کی بات یہ کہ عوام کا سب سے بھرپور رسپانس بھی اسی پر ہوتا۔
1970ء میں (متحدہ پاکستان کے) انتخابات دستور ساز اسمبلی کے لیے تھے لیکن بھٹو صاحب نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کو موضوع بنایا…وہ کہا کرتے کیا آئین کوئی چیل کباب ہے جس سے عام آدمی کا پیٹ بھر جائے گا؟ اور آج عوام کا شعور اس حد تک پہنچ چکا کہ نوازشریف ان کے ووٹ کے تقدس کو مسئلہ بنا رہے ہیں اور لوگ اس پر بھرپور ردعمل دے رہے ہیں؟
لاہور کے جلسے میں میاں صاحب نے سستے مکانات کے ساتھ سستے انصاف کی بات بھی کی۔ انہوں نے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ”یہ کیا ستم ہے کہ دادا کے دور کا مقدمہ پوتے کے دور تک چلتا ہے اور فیصلہ نہیں ہوتا‘‘ انہوں نے اس کے لیے آئین ”بدلنے‘‘ کی بات کی‘ ظاہر ہے‘ یہ آئین میں تبدیلی‘ کی بات تھی‘ آئینی ترمیم کی بات…جسے بعض اخبارات نے ”نیا آئین‘‘ بنا دیا…شامی صاحب کے برنچ میں اکرم شیخ بتا رہے تھے کہ وہ 1958ء کے ایک مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔
اکرم شیخ‘ ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے میں وکیل استغاثہ ہیں۔ اس حوالے سے انہیں جن ”تجربات‘‘ کا سامنا رہا وہی جانتے ہیں۔ اس مقدمے کی پیروی ”یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے‘‘ والی بات تھی یا یوں کہہ لیں‘ انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد…مقدمے کے دوران ہی آرٹیکل 6 کے ملزم کو بیرون ملک کس نے بھجوا دیا؟ شیخ صاحب کا جواب تھا‘ آپ نے ملزم کا انٹرویو نہیں سنا جس میں اس کا کہنا تھا‘ یہ جنرل راحیل شریف تھے جنہوں نے ان کی بیرون ملک روانگی کا اہتمام کیا؟

..
اگلا کالم