منتخب کردہ کالم

اور اب پاکستان برائے فروخت…عبدالقادر حسن

اور اب پاکستان برائے فروخت

اور اب پاکستان برائے فروخت…عبدالقادر حسن

وہ طبقہ جواس ملک کو گزشتہ ستر برس سے کھا رہا ہے وہ ان دنوں بہت پریشان ہے اس لیے نہیں کہ اس کے پاس اتنا اندوختہ نہیں کہ وہ اپنی شاہانہ زندگی کو جاری رکھ سکے بلکہ اس لیے کہ اس ملک کو مزید کھانے کے لیے اس میں کچھ بچا ہی نہیں ہے اور اسے اپنی ہوس کی بھوک مٹانے کے لیے تازہ خون میسر نہیں چنانچہ اس طبقہ کے ماہرین معاشیات طویل غور اور سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اب اس ملک ہی کو بیچا جائے یعنی اس کے جو اثاثے حکومت کے پاس ہیں ان کو فروخت کر دیا جائے۔

اگر کھانے پینے کے لیے اس ملک کے وسائل میںسے کچھ بچ جاتا اور اس کی پیداوار میں اتنی گنجائش ہوتی کہ وہ ملک کے روز مرہ کے اخراجات چلا سکتی جن میں اس طبقہ کے اخراجات بھی شامل ہیں کیونکہ یہ طبقہ اس ملک کے وسائل پر زندہ رہتا ہے تو شاید گھر کے اثاثے فروخت کرنے کی نوبت نہ آتی لیکن اب اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ اس اونچے طبقے کے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے سرکاری یعنی قومی املاک کو فروخت کر کے جو مال جمع ہو اس کو نوش جاں کیا جائے۔

اس پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے عالمی ساہوکاروں سے لامتناعی قرضے ہم پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں اور اب ان کی ادائیگیاں شروع ہو نے والی ہیں جو کہ ملک بیچ کر ادا کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
ہماری حکومت نے اس مقصد کے لیے ایک ایک نج کاری کمیشن بنا رکھا ہے جس کا ان دنوںوزیر میرا بھتیجا چوہدری انور عزیز کا بیٹا دانیال ہے جو کہ بہت عجلت میں دکھائی دیتا ہے یا شاید اس کو حکومت کی جانب سے یہ خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے کہ حکومت کے آخری دو ماہ میں ملک کے اہم ترین اداروں کی بولی لگا کرمال کھرا کر لیا جائے حالانکہ اس سے پہلے ہم ٹیلی فون جیسا منافع بخش محکمہ اور اس جیسے کئی دوسرے ادارے بیچ کر اپنا دائمی نقصان کر چکے ہیں جن کا حاصل وصول بھی کچھ نہیںہوا تھا سوائے ان اداروں کے بے روزگار ملازمین کی بددعاؤں کے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ ایوب خان اور اس سے پہلے کی حکومتوں نے صنعت کاری پر خاصی توجہ دی تھی ۔

گوہر ایوب صاحب کی گندھارا انڈسٹری بھی اسی دور کی پیداوار تھی جس کی صورت میں سرکاری سطح پر اعلیٰ کرپشن کی پہلی صورت سامنے آئی تھی۔ بھٹو صاحب جو کسی نادیدہ انقلاب کے شوقین تھے ان کے ساتھیوں میں بھی مختلف قسم کے سرخے شامل تھے جن میں کوئی روسی پیروکار تھا تو کوئی چین کا پیرو کار تھا چونکہ ان ملکوں میں صنعتوں کو قومیا لیا گیا تھا اس لیے بغیر سوچے سمجھے ہمارے نام نہاد انقلابیوں نے بھی یہاں صنعتوں کو قومیا لیا اور صنعتی ترقی کا جو سلسلہ ’’ڈیڈی‘‘ نے شروع کیا تھا وہ روک دیا گیا بلکہ پہیہ الٹا گھما دیا گیا اور آج ہماری حکومت انھی اداروں کو فروخت کرنے کی کوشش میں ہے ۔

پہلے پہل تو یہ خبریں گرم رہیں کہ پی آئی اے اور اسٹیل مل کا تیا پانچہ کر دیا جائے گا مگر اب خبر آئی ہے کہ ان سے پہلے پاکستان کے ایئر پورٹس کی نجکاری کی جائے اور عذر یہ دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کا ایئر پورٹ کا محکمہ جو کہ ملک کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ایئر پورٹس کو چلا رہا ہے‘ یہ اس قابل نہیں کہ ملکی ائر پورٹس کو چلا سکے اور اسلام آباد میں نئے تعمیر کیے جانے والے ائر پورٹ کو اس کا اصل محکمہ بالکل ہاتھ بھی نہ لگائے کہ کہیں وہ ایئر پورٹ استعمال ہونے سے قبل ناپاک نہ ہو جائے اس لیے عجلت میں کوئی ایسا گاہک ڈھونڈا جارہا ہے جو اس ائر پورٹ کا انتظام سنبھال لے۔

مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان میں بہترین افرادی قوت موجود ہے قابل اور ماہر ترین افراد بھی ہیں ایئر پورٹس پہلے سے ہی کامیابی سے چل رہے ہیں اور ملک کے لیے منافع بخش ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں مجھے حیرانگی ہے کہ حکومت کیوں ان کو ٹھیکے پر دینا چاہتی ہے اس میں یقینا کچھ لوگوں کا ذاتی مفاد وابستہ ہے اور یہ ڈرامہ جس عجلت میں کھیلا جا رہا ہے اس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے اور اس طرح کی مشکوک سوداگری پر پردہ ڈالنا مشکل ہو رہا ہے۔

مجھے اس بات کابھی اچھی طرح ادراک ہے کہ ہمارے لکھنے لکھانے سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا لیکن ہم لوگوں کا یہ فرض ہے کہ جہاں ملکی سالمیت کے اداروں کو نقصان پہنچانے کی بات ہو رہی ہو اس کی نشاندہی ضرور کریں تا کہ ان کا کام کچھ مشکل ہو جائے ورنہ ان حربوں سے یہ چوری کہاں رکی ہے یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں بیچنے والے بھی اور خریدنے والے بھی سب مل جل کر اس ملک کے اہم ترین اداروں کوکھانے کے چکر میں ہیں اور کوئی ان کا بازو پکڑنے والا نہیں سوائے ان غریب ملازمین کے جو کہ اپنی روزی کے چھن جانے کا واویلا مچاتے رہتے ہیں لیکن ان کی بھی کوئی نہیں سنتا اور ڈرا دھمکا کران کو خاموش کرادیا جاتا ہے ۔ اس ملک کے عوام کو روزی روٹی میں الجھا دیا گیا ورنہ وہ اپنے قابل حکمرانوں سے آج یہ پوچھ رہے ہوتے کہ ان کے منافع بخش ادروں کی بولی کیوں لگائی جا رہی ہے۔

اس وقت ہمارا حکمران طبقہ جس میں سیاستدانوں کے ساتھ افسر لوگ بھی شامل ہیں سخت پریشان ہے کیونکہ وہ اپنی مراعاتی زندگی سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں اور نہ ہی ان فالتو کاروائیوں کو بھول پایا ہے جو ایک نسبتاً خوشحال یا رواںدواں ملک میں اسے حاصل تھیں۔باہر کے قرضے تو سابقہ قرضوں کی ادائیگیوں پر خرچ ہو رہے ہیں ملک کے اندر نام نہاد ترقیاتی منصوبے بند ہیں جو فالتو آمدنی کا ذریعہ ہوا کرتے تھے اب اگر کوئی صورت دکھائی دیتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر جو کچھ بکتا ہے اس کوبیچو اور حلوہ کھاؤ۔

ہمارا نج کاری کمیشن دن رات اسی فکر اور کوشش میں ہے کہ اداروں کی نیلامی سے کچھ رقم جمع کر سکے لیکن نیلامی میں شرکت کرنے والے شاید اس کمیشن کے لوگوں سے زیادہ ہوشیار ہیں جو ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کی مجبوری پر نفع اندوزی کی فکر میں ہیں دیکھیں اس جنگ میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہوتی ہے۔