اور الزامات کی پہلی اینٹ….رؤف طاہر
یہ بندے اور اس کے رب کا معاملہ تھا‘ لیکن وہ جو کہتے ہیں ‘سیاستدان پبلک پراپرٹی ہوتا ہے ‘تو بندے اور رب کا یہ معاملہ بھی میڈیا میں پبلک انٹرسٹ کا موضوع بن گیا۔ کہا گیا‘ عمران خان نے حرمین کا یہ سفر عام مسافر طیارے کی بجائے چارٹرڈ طیارے میں کیا۔ دس نشستوں والے اس طیارے کا فی گھنٹہ کرایہ آٹھ لاکھ روپے تھا اور تیرہ گھنٹے کے اس سفر پر ایک کروڑ سے زائد خرچ آیا۔ ابتدا میں پی ٹی آئی کے ذرائع کا دعویٰ تھا کہ یہ کسی کمپنی کا نہیں‘ بلکہ علیم خان کا طیارہ تھا‘ پھر کراچی کے فیصل واڈا نے بتایا کہ یہ طیارہ پی ٹی آئی کی پوری الیکشن کمپین کے لیے ہائر کیا گیا ہے‘ جس پر خان (اور اس کے رفقا) حرمین شریفین بھی ہو آئے۔ ایک چینل نے اسے باقاعدہ ٹاک شو کا موضوع بنا دیا کہ کیا پارٹی فنڈ سے ہائر کئے گئے طیارے کو ذاتی سفر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (اینکر پرسن کا اصرار تھا کہ یہ سفر کتنا بھی مقدس سہی‘ لیکن تھا تو ذاتی عبادت کے لیے) ادھر خواجہ آصف کہاں چوکنے والے تھے۔ ٹویٹ کرنے میں تاخیر نہ کی ”کم از کم عمرہ تو اپنے پلے سے کر لو‘ مفت بری کی بھی انتہا ہے‘‘۔ خواجہ نے کچھ ریمارکس علیم خان اور زلفی بخاری کے حوالے سے بھی دیئے۔ بلیک لسٹ میں شامل زلفی بخاری کی روانگی اپنی جگہ بحث کا موضوع بن گئی۔ اسی دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بیگم نے اپنے پاسپورٹ پر ابھی تک سابق خاوند خاور مانیکا کا نام نہیں کٹوایا۔ دس نشستوں والے اس طیارے میں جن چھ مسافروں نے سفر کیا۔ ریکارڈ کے مطابق وہ 1 :عمران خان نیازی 2: بشریٰ خاور مانیکا 3: عبدالعلیم خان 4: کزن علیم خان 5: محمد عون ثقلین اور 6: سید ذوالفقار عباس (زلفی بخاری) تھے۔
اسلام آباد سے اڑان کے بعد طیارے کی پہلی منزل مدینہ منورہ تھی۔ یہاں جہاز سے اترتے ہوئے خان کی تصویر توجہ کا مرکز بن گئی۔ خان کے پائوں میں جوتوں کی بجائے خصوصی موزے تھے۔ فواد چودھری اسے سر زمین پاک سے خان کی عقیدت کا اظہار قرار دے رہے تھے۔ عقیدت کے معاملے بہت نازک ہوتے ہیں۔ اسے بحث کا موضوع بنانے سے گریز ہی کرنا چاہئے۔ سنی فقہ کے چار ائمہ میں سے ایک کا قول ہے۔ کسی سے مدینہ کا موسم مت پوچھو۔ ہو سکتا ہے اس کے منہ سے نکلے؛ بہت گرمی تھی یا بہت سردی تھی۔ امام صاحب ان الفاظ کو بھی مدینہ النبیؐ کی شان میں گستاخی سمجھتے تھے۔
ننگے پائوں کے حوالے سے جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد (مرحوم) یاد آئے۔ ہم ان دنوں جدہ میں ہوتے تھے۔ پاکستان سے کوئی نمایاں شخصیت عمرہ (یا حج) کے لیے آتی تو ”احباب ِجدہ‘‘ اس کے ساتھ مل بیٹھنے کا اہتمام کرتے۔ پروفیسر صاحب عمرہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے حسب ِروایت انہیں جدہ آنے کی دعوت دے دی۔پروفیسر صاحب نے اس درخواست کو شرفِ قبول بخشا اور جدہ تشریف لے آئے‘ لیکن اس حالت میں کہ دونوں پائوں پٹیوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ اور سہارے کے ساتھ چل رہے تھے۔ جن لوگوں کو حرم کعبہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی‘ انہیں علم ہے کہ ہزارہا زائرین کے چپل؍ جوتے رل مل جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنے جوتے ڈھونڈھنا بہت مشکل ‘بلکہ نا ممکن ہوتا ہے۔ یہ جوتے عموماً سستے سے ہوتے ہیں اورزید کے جوتے بکر پہن کر چلا جائے‘ تو اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا‘ بلکہ یہ ایک طرح کا معمول سا ہے ۔ (بہت محتاط اور پرہیز گار لوگ اپنے جوتے شاپر میں ڈال کر اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں) پروفیسر صاحب ظہر کی نماز پڑھ کر نکلے‘ تو بہت کوشش کے باوجود اپنے جوتے تلاش نہ کر سکے۔ کسی اور کے جوتے پہن لینا انہیں گوارا نہ تھا؛ چنانچہ ننگے پائوں ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ سخت گرمیوں کے دن تھے۔ سورج نصف انہار پر تھا اور حرم سے ہوٹل تک کا سفر دہکتے انگاروں پر چلنے جیسا تھا۔ ہوٹل کے استقبالیہ پر پہنچ کر پروفیسر غفور بے ہوش ہو کر گر گئے۔ دونوں پائوں پر بڑے بڑے آبلے پڑ چکے تھے۔ عشاق کے لیے اس آبلہ پائی کا اپنا لطف ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا‘ جہاں آبلے کاٹ کر پٹیاں کر دی گئیں۔ پروفیسر صاحب کی شخصیت کے کئی عظیم پہلو ہمارے سامنے تھے۔ ہم نے لاہور میں کئی بار انہیں رپورٹ کیا تھا‘ ان سے ایک طرح کا ذاتی تعلق بھی تھا۔ کراچی جانا ہوتا تو ان سے ملاقات شیڈول کے اہم ترین نکات میں ہوتی‘ لیکن دیار ِحرم میں یہ آبلہ پائی پروفیسر صاحب کی شخصیت کا ایک اور پہلو تھا‘ جس سے ہم آشنا ہوئے ۔(اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ قحط الرجال کے اس دور میں پروفیسر صاحب یاد آتے ہیں‘ تو محرمی کا احساس شدید تر ہو جاتا ہے)
عمران خان نے شہر نبیؐ میں جوتوں کی بجائے موزے پہن کر اترنا مناسب سمجھا،‘تو ہمیں ان کی یہ ادا اچھی لگی‘ لیکن کاش! اس سفر مقدس میں وہ روایتی سیاست سے بھی گریز کرتے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ‘ان دنوں خان صاحب کی جان کو آئے ہوئے ہیں۔ خان کے مد مقابل ان کے امیدوار‘ خان کے کاغذات نامزدگی کو آرٹیکل 62 کے تحت چیلنج کر رہے ہیں (وہی سیتا وائٹ والا قضیہ)۔ مدینہ منورہ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے گفتگو میں خان نے سابق چیف جسٹس پر وہی پرانا الزام دہرایا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوں نے ”آر اوز‘‘ کے ذریعے نواز شریف کو کامیاب کروایا۔ نواز شریف نے انہیں صدر بنانے کا وعدہ کیا تھا‘ یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ ‘آر اوز‘ والی بات آصف زرداری نے خان کے کان میں ڈالی تھی۔ افتخار چودھری نے چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے بعد جس جوڈیشل پالیسی کا اعلان کیا۔ اس میں انتظامیہ سے عدلیہ کی مکمل علیحدگی بھی تھی۔ اس کے تحت انہوں نے 2013ء کے انتخابات سے عدلیہ کو مکمل طور پر علیحدہ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم (فخرو بھیا) اور خود عمران خان تھے‘ جن کے اصرار پر‘ چیف جسٹس انتخابات کے عدلیہ کی خدمات مہیا کرنے پر آمادہ ہوئے۔ انتخابی نتائج خان کی خواہشات اور توقعات کے برعکس آئے ‘تو ”افتخار چودھری اور خلیل رمدے سازش‘‘ کا فسانہ گھڑ لیا‘لیکن دھاندلی کے حوالے سے سب سے بڑے الزام تو نجم سیٹھی کے پینتیس پنکچرز کا تھا۔ اس کے علاوہ ایم آئی کے ایک بریگیڈیئر والی کہانی‘ اردو بازار میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا قصہ اور اسی طرح کی دیگر کہانیاں۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے کمیشن نے کارروائی کا آغاز کیا ‘تو خان کے پاس ان الزامات کے حق میں کوئی ایک ثبوت بھی نہ تھا۔ ایک موقع پر تو وہ بے بسی کے عالم میں یہ کہتے سنے گئے کہ ہم نے تو الزامات لگا دیئے‘ اب تحقیقات کرنا (اور ثبوت ڈھونڈنا) عدالتی کمیشن کا کام ہے۔ آخر کار سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ خود خان نے ایک ٹاک شو میں اعتراف کیا کہ 35 پنکچرز ایک سیاسی بات تھی‘سنی سنائی بات ۔
چند روز ہوئے خان نے مطالبہ کیا تھا کہ نگران حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے قوم کو حقائق سے آگاہ کرے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات (جن کے پاس قانون سمیت کچھ اور پورٹ فولیوز بھی ہیں) علی ظفر نے وزیر خزانہ شمشاد اختر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں حقائق سے آگاہ کیا۔ انہوں نے طلب اور رسد میں تقریباً 2000 میگاواٹ کے فرق‘ پانی کی کمی‘ فنی خرابی اور ٹرانسمیشن کے فرسودہ نظام کے مسائل کو اس کا سبب قرار دیا۔ جس پر جناب بابر اعوان پھٹ پڑے۔ یہ تو شہباز شریف کی زبان ہے ‘ جو نگران حکومت بول رہی ہے۔ اسد عمر کا فرمان تھا: لگتا ہے ‘نگران حکومت مسلم لیگ (ن) کے دبائو میں ہے ۔ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت قوم کو پورا سچ بتائے۔ اور ظاہر ہے‘ پورا سچ کوئی اور نہیں صرف تحریک ِانصاف بولتی ہے۔ ہمارے ایک بدگمان دوست کا کہنا ہے :پی ٹی آئی نے انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے الزامات کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے۔