منتخب کردہ کالم

……اور اندیشہ ہائے دور دراز (جمہور نامہ) رئوف طاہر

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک بار پھر صاف صاف کہا، سعودی عرب کے انیش ایٹو پر 41 مسلم ممالک کے جس ملٹری الائنس میں شرکت پر پاکستان نے آمادگی کا اظہار کیا ہے وہ کسی مسلمان ملک کے خلاف نہیں، بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے (جو سب کا مشترکہ مسئلہ ہے)۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا سے اپنے خطاب میں وزیردفاع کا کہنا تھا، اس مجوزہ اتحاد کے ڈھانچے، اس کے دائرہ کار اورطریق کار سمیت مختلف تفصیلات کا تعین نہیں ہوا۔ اس کے لیے ان 41 ملکوں کے وزرائے دفاع کا اجلاس مئی میںسعودی عرب میں منعقد ہوگا لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ کہ ہم یمن سمیت کسی مسلمان ملک کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ بننے نہیں جا رہے۔ ہم ایک ایسے اتحاد کا حصہ بنیں گے جس کا ہدف صرف اور صرف دہشت گردی ہوگی۔ وزیر موصوف نے یہاں ایک اور بات بھی کہی، بہت اہم بات کہ مسلم امہ کے واحد نیوکلیئر ممبر کی حیثیت میں پاکستان، مسلمان ملکوں میں مفاہمت اور مصالحت کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ اس اتحاد کی سربراہی کے لیے جنرل راحیل شریف کے تقرر کے حوالے سے وزیردفاع نے بتایا کہ اس کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے این او سی کی ضرورت ہوگی، جس طرح آئی ایس آئی کے سابق جنرل شجاع پاشا کو گزشتہ (زرداری اور گیلانی) حکومت نے یو اے ای گورنمنٹ کے ایڈوائزر کے طور پر تقرر کے لیے این او سی جاری کیا تھا۔ مجوزہ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے این او سی کے لیے جنرل راحیل شریف نے ابھی درخواست نہیں دی، تاہم ڈیڑھ ماہ قبل سعودی حکومت کی طرف سے حکومت پاکستان کو اس سلسلے میںخط موصول ہوا جس پر ہم نے اپنی اصولی رضامندی کا اظہار کردیا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ حکومت پاکستان نے اس اہم،حساس اور نازک مسئلے پر اپنے دو ٹوک موقف کا اظہار کیا ہے۔ دسمبر2015ء میں سعودی حکومت کی طرف سے اسلامی ملٹری الائنس کے اعلان کے بعد سے پاکستان اپنے اسی موقف کا اظہار کرتا آ رہا ہے کہ وزیردفاع کے بقول ، پاکستان محسوس کرتا ہے کہ خود سعودی عرب کا مقصد بھی کسی تیسرے ملک کے خلاف اتحاد بنانا نہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس اتحاد کے ناقدین کو بھی اعتراف ہے کہ ابھی اس اتحاد کا ڈھانچہ سامنے آیا ہے، نہ اس کے خدوخال واضح ہوئے ہیں (جو چیز واشگاف ہے وہ یہ کہ اس کا واحد ہدف دہشت گردی ہے) لیکن اس کے باوجود ان کی طرف سے خدشات کا اظہار ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا۔؎
تو اور آرائش خم کا کل
میں اور اندیشہ ہائے دوردراز
کہنے والے اسے عرب عجم کا صدیوںپرانا تنازع کہتے ہیں، لیکن اب اس میں فرقہ واریت بھی غالب ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ پل صراط کا یہ سفر بڑی احتیاط (اورکامیابی) کے ساتھ طے کرتا آیا ہے۔ ہمارے لیے اس میں ”عرب‘‘ اور ”عجم‘‘ دونوں کی اہمیت ہے اور ہم دونوں کے ساتھ تعلق کے تقاضوں کو بحسن و خوبی نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے لیے ایران کی اپنی اہمیت ہے، یہ وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ ہم علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) میں شانہ بشانہ تھے۔ اس سہ ملکی اتحاد کا تیسرا رکن ترکی تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کو ایران نے اپنی جنگ سمجھا۔ سفارتی محاذ پر پاکستان کی بھرپور حمایت کے علاوہ اس نے عسکری محاذ پر بھی مکمل تعاون کیا اور پاکستان کو سٹرٹیجک DEPTH مہیا کی۔ 1971ء کی جنگ میں بھی اس کی تائید و حمایت پاکستان کے لیے تھی۔ یہ شاہ کا ایران تھا۔ 1978-79ء میں شاہ کے خلاف تحریک میں ایران کے گلی کوچوں میں ”لاشیعہ، سنیہ، اسلامیہ اسلامیہ‘‘ اور ”لاشرقیہ لاغربیہ، اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعروں کی گونج تھی۔ ایران کے سنی بھی اس تحریک شامل تھے۔ انہی دنوں امام خمینی کے دو نوجوان نمائندے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے پاکستان کے لیے تشریف لائے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کی طرح جماعت اسلامی بھی اس انقلاب کی بھرپور حمایت کر رہی تھی۔ ہمیں یاد پڑتا ہے، ان ہی دنوں سعودی شاہ فہد کی طرف سے بھی اس تحریک کی حمایت میں بیان آ گیا تھا۔ شاہ رخصت ہوگیا اور ایران ایک نیا موڑ مڑگیا۔ ایرانی انقلاب ایکسپورٹ کرنے کے عزائم نے خطے میں نئے مسائل کو جنم دیا۔ سوویت انخلاء کے بعد افغانستان میں پاکستان اور ایران کے مفادات نے بھی مختلف رخ اختیار کرلیا، لیکن پاکستان نے ایرانی بھائیوں کے لیے اپنے خیرسگالی کے جذبات میں کمی نہ آنے دی۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دنوں میں، عراق ایران باہم برسرپیکار تھے، پاکستان نے امریکیوں کی خواہش (اور دبائو) کے علی الرغم اس میں اپنا غیرجانبدارانہ کردار برقرار رکھا اور پاک، ایران سرحد پرکسی قسم کا دبائو پیدا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ افغانستان کی مجاہد تنظیموں کے درمیان، وزیراعظم نوازشریف کی کوششوں سے مارچ1993ء میں معاہدہ اسلام آباد طے پایا تو وزیراعظم پاکستان، افغان قیادت کو سعودی عرب کے علاہ ایران بھی لے گئے۔ پاک، ایران تعلقات میں گزشتہ برسوں کے نشیب و فراز اور مدوجزر کے بعد، اب دونوں برادر ملکوں کے تعلقات نیا خوشگوار موڑ مڑ گئے ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اپنی تاریخ ہے۔ آزمائش کی کسی بھی گھڑی میںدونوں وفا کی میزان پر پورا اترے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے موقع پرامریکہ اور یورپ کی ناراضی کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تیل کی (ڈیفرڈ پے منٹ پر) فراہمی (جو دراصل مفت تھی) سعودی عرب کا پاکستان پر کوئی چھوٹا احسان نہ تھا۔
ناقدین گزشتہ سال کے آغاز میں شروع ہونے والے یمن کے بحران کے موقع پر پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن وہ بارہ نکاتی قرارداد کے دس ویں نکتے کو نظرانداز کر جاتے ہیں جس میں سعودی عرب کی علاقائی سلامتی اور حرمین شریفین کو کسی خطرے کی صورت میں سعودی حکومت اور اس کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا واشگاف اعلان تھا۔ جبکہ گیارھویں نکتے میں مختلف ٹیررسٹ گروپس اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی طرف سے خطے کی سلامتی اوراستحکام کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹیررازم اور ایکسٹریم ازم کے خاتمے کے لیے خلیجی ریاستوں سمیت خطے کے تمام ممالک سے دوستی اور تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔
انہی دنوں سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر پاکستان کے دورے پر آئے۔ چھ گھنٹے کے اس دورے کو سفارتی زبان میں ”ورکنگ وزٹ‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ عادل الجبیر نے وزیراعظم نوازشریف سمیت سیاسی قیادت کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان نے برادر ملک کے دفاع اور داخلی استحکام کے لیے اپنی کمٹ منٹ کے اعادے کے ساتھ ساتھ اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت کی توثیق کرتے ہوئے چار شعبوں میں تعاون کی یقین دہانی کرادی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس شیئرنگ، اس کے لیے کیپسٹی بلڈنگ، تعاون و تربیت اور جوابی بیانیے کی تشکیل میں تعاون ۔ مشیرخارجہ جناب سرتاج عزیز کی دلیل میں آج بھی اتنا ہی وزن ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے تو پاکستان کو اس میں شمولیت کے لیے کوئی تذبذب ، کوئی ہچکچاہٹ کیوں ہو؟