منتخب کردہ کالم

اور مولوی مشتاق سے بھٹو کی رہائی کی سفارش کر دی! ….کامران شاہد

اور مولوی مشتاق سے بھٹو کی رہائی کی سفارش کر دی! ….کامران شاہد

مولوی صاحب سے میری ملاقات جب بھی ہوئی تو ان کی رعب دار آنکھوں اور گرجتی برستی آواز کو نظرانداز کرکے ہر مرتبہ بس ایک ہی سوال پوچھا کہ آپ نے بھٹو صاحب کو پھانسی کیوں دی۔ شروع شروع میں تو مولوی صاحب میری بات ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے‘ مگر جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی اور اس سوال کی گردان بھی بڑھتی گئی تو مولوی صاحب کے جواب میں بھی سنجیدگی آتی گئی۔ ایک روز بہت سنجیدگی سے انہوں نے بھٹو صاحب کے پھانسی دینے کے سوال کا جواب دیا۔
(مولوی صاحب کا یہ جواب میری ذاتی ڈائری میں درج ہے)
وہ بولے: ”برخوردار! دنیا لاکھ بکواس کرے… میرے فیصلے پر لاکھ تہمت باندھے۔ میں ایمان کی حد تک اس بات پر قائم ہوں کہ نواب محمد احمد خان قصوری کا قاتل صرف اور صرف ایک ہی شخص تھا‘ پیپلز پارٹی کا چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو۔ بھٹو کو اپنی طاقت کا بہت زعم تھا۔ وہ بلاشبہ اپنے وقت کا فرعون تھا۔ لیکن وہ بھول گیا تھا کہ وہ مولوی مشتاق حسین کی عدالت میں کھڑا ہے‘ وہ یہ بھول گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کا یہ چیف جسٹس اس کی زمینوں کا مزارع نہیں کہ جن پر وڈیرہ تھوک دے‘ تو وہ بیچارے سر بھی نہ اٹھا سکیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ مجھے بھٹو سے کوئی ذاتی عناد تھا‘ لیکن اب لوگوں سے پوچھتا ہوں‘ یہ بتائو تو بھلا‘ بھٹو کے علاوہ آج تک کی تاریخ میں کیا کوئی شخص ایسا ہے جس پر کبھی نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا شائبہ تک بھی ہوا ہو۔
ہیومن رائٹس کے علمبرداروں سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا تم بدبختوں کے لئے پھانسی کی سزا اس وقت بھی اتنی ہی ناجائز ہو گی‘ اگر پھانسی لگنے والا تمہارے باپ کا قاتل ہو۔ یا پھر اپنے باپ کے قاتل کو گلے سے لگا لو گے کہ وہ قاتل تمہارا ہر دلعزیز لیڈر بھٹو سائیں ہے؟ سوشلزم کے نام پر مذہب فروشی کرنے والا بھٹو‘ جب میرے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہوا تو ہاں مجھے اس پر بہت غصہ تھا‘ کہ میرے سامنے ایک ایسا لیڈر کھڑا تھا‘ جس نے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے حسن کو تباہ کر دیا تھا۔ وہ جس وقت مجھے اپنی جمہوریت کے کارنامے سنا رہا تھا‘ میں دل ہی دل میں اس کے غیر دستوری کارنامے گن رہا تھا۔ جس دن دستور بنایا اس سے اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہی اس نے آزادیٔ اظہارِ رائے کی تمام شقوں کو تاحکم ثانی منسوخ کر دیا۔
کٹہرے میں کھڑا یہ مجرم جس وقت پاکستان کے لئے اپنی کامیابیاں گنوا رہا تھا‘ میری سماعت ان آہوں اور سسکیوں کو سننے کی کوشش کر رہی تھی جو اس کی بنائی ہوئی ایف ایس ایف کی گولیوں کا نشانہ بنیں‘ جس وقت بھٹو میری عدالت کے کٹہرے میں محض ملزم کی حیثیت سے کھڑا تھا‘ اور ابھی مجرم قرار نہیں پایا تھا‘ اس سے بھی بہت پہلے یہ شخص پاکستان کے ہر اس صحافی کو جیل کی دال چکھوا چکا تھا‘ جس نے اس کے خلاف قلم اٹھایا۔
نواب قصوری کے قتل کے ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں مجھ جیسا جج اسے پھانسی کی سزا ہی سنا سکتا تھا‘ اور وہی میں نے سنائی‘ میرا ضمیر مطمئن ہے‘‘۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی یہ گفتگو میں دم بخود سنتا رہا‘ مولوی صاحب کے رعب کا یہ عالم تھا کہ ان کے چیمبر کے آس پاس بڑے بڑے وکلاء اور ساتھی ججز بھی ایڑیاں اٹھا کر قدم بھرتے تھے‘ کہ کہیں ان کے قدموں کی آہٹ مولوی صاحب کی طبیعت پر گراں نہ گزرے‘ تکبر کی اگر کوئی انتہا دنیائے عدالت میں جاگتی آنکھوں نے دیکھی ہے‘ تو وہ مولوی مشتاق ہی تھے۔ ان کی شخصیت کا جاہ و جلال اپنی جگہ‘ مگر کیا صاحب انصاف گھمنڈی ہو سکتا ہے؟
مولوی صاحب نے یہ فراموش کر دیا کہ زمین پر چلنے والے انسان کی اوقات ہی کیا ہے کہ تکبر اگر کسی پر جچتا ہے تو وہ عرش کا خدا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک مولوی صاحب کا بھٹو کیس پر موقف‘ انصاف کی راہ میں ذاتی عناد کی ایک شرمناک مثال ہے۔ ایک جج ملزم سے بڑا اس لئے نہیں ہو سکتا کہ وہ بینچ کی اونچائی سے کٹہرے کی پستی کو دیکھ کر اپنی بڑائی سے محظوظ ہو رہا ہے۔ منصف تو ہوتا ہی وہ ہے جو اپنے بدترین دشمن کو بھی اعلیٰ ترین انصاف سے نواز دے۔ بدقسمتی سے مولوی مشتاق حسین انصاف کے ان اعلیٰ ترین اصولوں سے ناآشنا لگتے تھے۔ وہ اپنی ذات کے طلسم میں اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ ان کی عدالت سے انصاف کشید کرنا انسانوں کے بس سے باہر لگتا تھا۔ میری ان آنکھوں نے مولوی صاحب کی ناانصافیوں کو دیکھا ہے۔ اگرچہ ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘ مگر دوستوں‘ رشتے داروں اور عزیزوں کے حق میں مولوی صاحب کی عدالت کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کا واقعہ ہے۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ انہوں نے ٹیلیفون اٹھایا‘ ایک محترم جج کو کال ملائی‘ اور ناصرف اس کو فیصلہ ڈکٹیٹ کرایا بلکہ جرمانے کی رقم اور سزا کی مدت بھی متعین کی۔ مولوی مشتاق حسین کو دہشت گردوں نے ٹانگوں سے محروم کر دیا تھا‘ مگر ان کا ذہن ہر قسم کے فالج سے آزاد تھا۔ ایک مرتبہ میاں بیوی کے طلاق کے معاملے میں ایک حاضر سروس جج سے اپنے دوست کے حق میں فیصلہ کروایا اور ساتھ ہی بولے کہ بھئی ان عورتوں نے سارے جہاں کو اپنے آنسوئوں کے آگے لگایا ہوا ہے!
اگرچہ میں مولوی مشتاق کے انصاف سے ناراضی رکھتا ہوں‘ مگر ان سے محبت اور عقیدت کا رشتہ بھی ہے۔ میرے والد مولوی صاحب کے بہت قریب تھے۔ قربت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کبھار رات کے تین بجے بھی مولوی صاحب کو جگا دیتے اور مولوی صاحب ماتھے پہ بل ڈالے بغیر ساری ساری رات میرے والد کی گفتگو سنتے رہتے۔ شاہد صاحب کا مگر ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ وہ جتنا مولوی مشتاق صاحب کے قریب تھے‘ اتنا ہی جذباتی طور پر بھٹو صاحب کے بھی نزدیک تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مردوں میں جن دو شخصیات کے سحر میں وہ گرفتار ہوئے‘ ان میں ایک (لیجنڈری ہدایتکار) حسن طارق تھے اور دوسرے ذوالفقار علی بھٹو‘ تو غلط نہ ہو گا۔
جس روز مولوی صاحب نے بھٹو صاحب کی پھانسی کا فیصلہ سنانا تھا‘ اس سے ایک رات پہلے شاہد صاحب مولوی صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ آدھی رات کو مولوی صاحب کو جگا دیا‘ اور ان سے کہا: مولوی صاحب! آپ بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دیں‘ اس ملک کو بھٹو کی ضرورت ہے‘ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں انہیں معاف کر دیں۔ مولوی صاحب غصے سے بھری آواز میں بولے: شاہد تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا‘ کیا تم کوئی سیاست دان ہو جو اس طرح کی گفتگو میرے ساتھ کر رہے ہو‘ تمہارا بھٹو اور اس مقدمے سے کیا تعلق؟ شاہد صاحب بھی بھٹو صاحب کے بڑے عاشق تھے۔ برملا بولے‘ چلیں ایسا کریں کہ انہیں پھانسی کی سزا نہ سنائیں‘ اس کی جگہ عمر قید کی سزا دے دیں۔ یہ آپ کا پاکستان کے عوام پر احسان ہو گا‘ مجھ پر ذاتی احسان ہو گا۔
مولوی صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ انہوں نے فرمایا: دور ہو جائو میری نظروں سے‘ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔
شاہد صاحب جاتے جاتے مولوی صاحب کو یہ کہہ گئے کہ مولوی صاحب! مرنا تو سبھی نے ہے‘ میں نے بھی‘ بھٹو صاحب نے بھی اور آپ نے بھی‘ آپ میری بات نہ مانیں اور دے دیں انہیں پھانسی‘ لیکن یاد رکھیں‘ بھٹو آپ کے فیصلے سے نہیں مرے گا‘ جو عوام کے دلوں پہ راج کرتا ہو‘ وہ عدالت کے فیصلوں سے نہیں مر سکتا۔
ماڈل ٹائون کے پارک میں ایک جنازہ تن تنہا پڑا ہوا تھا۔ میت کے ساتھ آنے والے اسے چھوڑ کر بھاگ چکے تھے کہ شہد کی مکھیوں کا چھتہ ٹوٹنے سے ایک قیامت برپا ہو گئی تھی۔ مولوی مشتاق کا جسد خاک میں اترنے کے لئے بے تاب تھا‘ مگر وحشت کا ایک عجب سماں تھا کہ لحد میں اتارنے کے لئے کوئی ہاتھ وہاں موجود نہ تھا۔ ہاں وہ انصاف کا جنازہ تھا‘ جو اس وقت وہاں پڑا تھا‘ مگر اسے اٹھانے کے لئے دور دور تک کوئی بھی نفس وہاں موجود نہ تھا۔