اوکھے سوکھے یہ مہینہ گزارنا پڑے گا!….ایاز امیر
اَ ب تو بوریت انتہا کو پہنچتی جا رہی ہے۔ سیاست ہے کہ بے مزہ پکوان؟ ڈھونڈنے سے بھی دلچسپی کی چیز نہیں ملتی۔ وہی اُمیدوار اور اُن کے ٹکٹوں کا ہنگامہ۔ یہ مرحلہ طے ہو بھی جائے گا تو آگے الیکشن مہم میں کون سے کرشمات سامنے آئیں گے؟
اِن لیڈروں کو دیکھیے۔ اِنہیں کون بتلائے کہ برطانیہ ہو یا فرانس یا کوئی اور ملک پارلیمانی الیکشن ایک ہی حلقے سے لڑے جاتے ہیں۔ یہ کس حکیم نے اِن کو درس دیا ہے کہ ایک سے زیادہ حلقوں میں براجمان ہوں۔ قوم کا پیسہ اور وقت برباد کر رہے ہیں اور ہمیں باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ یہ لوگ انقلابِ فرانس پاکستان میں لے کر آئیں گے۔ کوئی سوچ نہیں ہے۔ کسی کے ذہن میں آئندہ کا کوئی نقشہ ہے بھی تو اس نے خوب چھپایا ہوا ہے۔ کسی کو نہیں پتہ کہ یہ لوگ اقتدار میں آ بھی گئے تو کون سے معجزات کرکے دکھائیں گے۔ لیکن شوق یہی ہے کہ ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخاب لڑیں تاکہ بتا سکیں کہ وہ کتنے ہر دلعزیز لیڈر ہیں۔
یہ کمبخت رِیت بھٹو صاحب نے ڈالی تھی۔ وہ 1970ء کے الیکشن میں پانچ حلقوں سے کھڑے ہوئے تھے۔ چار سے جیتے، ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود سے ہار گئے۔ لیکن کیا رِیت ڈالی کہ زعم میں مبتلا ہر لیڈر سمجھتا ہے کہ وہ لیڈر ہی نہیں جب تک قوم کا وقت برباد نہ کرے اور ایک سے زیادہ حلقوں سے کھڑا نہ ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف جسٹس صاحب اِس بات کا نوٹس لیتے اور آئین میں سے کوئی راہ نکال کے اِس فضول کارروائی کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرتے۔ یہ کبھی نہیں ہو گا لیکن آنے والی پارلیمان کو قانون پاس کر کے اس روایت کو ختم کرنا چاہیے۔
اِس سارے ہجوم سے یہ بھی پوچھا جائے کہ معیشت کا کیا کرو گے۔ معاشی حالات اَبتری کی طرف جا رہے ہیں اور کسی کو کوئی پروا نہیں۔ قوم بیرونی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور مزید قرضے لیے جا رہے ہیں کیونکہ اِس کے بغیر مملکتِ خداداد کا کاروبارِ زندگی چل نہیں سکتا۔ نیب کو اَب خیال آیا ہے کہ انٹرپول کے ذریعے اسحاق ڈار کی پکڑ ہو اور اُنہیں پاکستان واپس لایا جائے۔ یہ شخص معیشت کو تباہ کرکے چلا گیا اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے جہاز میں جب ملک سے فرار ہو رہا تھا تو کوئی اُس کا راستہ روک نہ سکا۔ اَب لندن میں چھپتا پھر رہا ہے اور سب نے انٹرنیٹ پہ وہ ویڈیو دیکھی ہو گی کہ نواز شریف اخبار نویسوں کے سامنے کھڑے ہیں اور پیچھے سے چھپ کے اسحاق ڈار وہاں سے کھسکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اُسی ویڈیو میں قوم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ نواز شریف سے برطانوی اخبار ‘ڈیلی میل‘ کی اُس کہانی کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ کی اکیس مہنگی ترین جائیدادیں لندن میں ہیں اور سوال کا عظیم قائد جمہوریت نے کوئی جواب نہ دیا اور تھینک یو کہہ کے وہاں سے چل دئیے۔
اچھے بھلے ملک کو پتہ نہیں ہم نے کیسی چراگاہ بنا دیا ہے۔ جو آیا چاٹ کے سب کچھ کھا گیا اور پھر اس ملک کی سرحدوں سے فرار ہوا۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں ایک صاحب شاہد حسن خان تھے‘ جن کو محترمہ نے انرجی سیکٹر کا انچارج بنا دیا۔ اُنہی کے ذریعے نجی سیکٹر کو پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگانے کی اجازت ملی۔ یہ وہ پلانٹ تھے جنہیں ہم آئی پی پیز (Independent Power Producers) کہتے ہیں۔ شاہد حسن خان صرف جناب آصف علی زرداری کو جوابدہ تھے۔ اُس وقت اسلام آباد ایسی کہانیوں سے گرم تھا کہ کس پاور پروڈیوسر نے کتنے پیسے کک بیک میں کس کو دئیے۔ خوب مال پانی بنایا گیا‘ لیکن جب محترمہ کی حکومت 1996ء میں برطرف ہوئی تو شاہد حسن خان ملک سے ایسے رفوچکر ہوئے کہ پھر واپس لوٹ کے نہ آئے۔
مشرف دور میں شوکت عزیز پہلے وزیرِ خزانہ بنے پھر وزیر اعظم۔ کیا چکنی چپڑی باتیں اُن کی ہوتی تھیں۔ خود بینکر تھے اور امریکی سٹی بینک میں اعلیٰ عہدے پہ فائز تھے۔ یہاں آئے تو ایسی پالیسیاں وضع کیں کہ نجی بینکوں کو خوب فائدہ پہنچا۔ یہ جو ہماری سڑکوں پہ موٹر کاروں کی بھرمار ہے یہ اُسی دور کا ثمر ہے۔ بینکوں کے پاس پیسہ تھا اور کہیں ڈھنگ سے سرمایہ کاری کرنے کے بجائے یہ پیسہ عیاشیوں پہ صرف ہونے لگا۔ اُس زمانے میں کسی بینک جانے پر تھوڑے پیسوں کے عوض آپ کو ایک کار قسطوں پہ مل جاتی تھی ۔ خیر جب مشرف کا دور ختم ہوا، تو شوکت عزیز ملک سے ایسے گئے کہ پھر واپس لوٹ کے نہ آئے۔
اَب اسحاق ڈار نے بھی یہی صفائی دکھائی ہے۔ اِتنے بیرونی قرضے لیے کہ ملکی تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں۔ اور تو اور زر مبادلہ کے ذخائر دکھانے کیلئے قرضے لیے گئے اور یہ کہتے رہے کہ دیکھیے کہ ہمارے ذخائر کتنے زیادہ ہو گئے ہیں۔ پرانے قرضہ جات اُتارنے کیلئے نئے قرضے لیے گئے۔ دنیا کے مہنگے ترین بیرونی بانڈ فلوٹ کیے گئے۔ جب پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد نون لیگی حکومت پہ بُرے دن آنے شروع ہوئے تو اسحاق ڈار سب سے زیادہ سمجھدار نکلے۔ شاہد خاقان نے دوشَنبے کے دورے پہ جانا تھا۔ جہاز پہ اسحاق ڈار بھی بیٹھ گئے اور ایسے غائب ہوئے کہ پھر جب اُن کے فوٹو نظر آئے وہ لندن کے ایک ہسپتال میں لیٹے ہوئے پائے گئے۔ فرماتے ہیں کہ صحت یابی ہوئی تو وطن واپس آ جاؤں گا۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دن کبھی نہیں آئے گا۔ حسن نواز اور حسین نواز بھی سمجھدار نکلے۔ موجودہ حالات میں نہ وہ‘ نہ ہی جناب اسحاق ڈار وطن واپس آئیں گے۔ نیب اپنی کوششیں کر لے لیکن جیسے حسین حقانی اور الطاف حسین کو کوئی قانون وطن واپس نہیں لا سکا‘ اِن تینوں کو بھی کوئی ضابطہ یا قانون واپس نہیں لا سکے گا۔ یہ چھوٹے موٹے لوگ ہوتے ہیں جو پکڑے جاتے ہیں۔ بڑے مگرمچھوں پہ اور ہی ضابطے لگتے ہیں۔
پاکستانی سیاست اَب تکلیف دہ اَمر بن چکی ہے۔ اِس میں کوئی نئی چیز رہی نہیں۔ وہی گھسی پِٹی باتیں اور وہی اُکتا دینے والے چہرے۔ نئی سوچ تو دُور کی بات ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ لہٰذا الیکشن مہم کی کیفیت برداشت کرنا پڑے گی۔ دلچسپی سے خالی اخبارات کے مضامین اور ٹی وی پہ مباحثوں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر سیاست میں اُکتا دینے والے چہرے ہیں تو میڈیا کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ اس شورش میں سے جو حکومت نمودار ہو گی اُس کے بارے میں دُعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ بہتری کرے اور زیادہ نہیں تو کچھ کام کے لوگ آگے آئیں۔
پاکستان کو مضبوط ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ نئی سوچ بھی درکار ہے کیونکہ پرانی باتوں اور پرانے فارمولوں سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہماری سوچ فرسودہ ہے۔ ہم پرانے رویوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے کام کرنے کے طریقے ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ زندہ قوموں والی رَمق ہم میں نظر نہیں آتی۔ شہروں کی گندگی ہم خود اُٹھا نہیں سکتے۔ کہیں صفائی کا ٹھیکہ کسی چینی کمپنی کے پاس ہے تو کہیں یہ کام کوئی ترکی کمپنی سرانجام دے رہی ہے۔ کراچی کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ وہاں حکمران جو اَب فارغ ہوئے ہیں اُن کی عبادت ایک ہی تھی، پیسوں کے بتوں کے سامنے سر جھکانا۔ پنجاب کے حکمران اور چیزوں میں لگے رہے اور کرپشن کی داستانیں رَقم کرکے چلے گئے۔ خود کے مال و زَر کا اتنا لمبا سلسلہ کہ لکھتے لکھتے ہاتھ تھک جائیں لیکن پبلک خزانے کو خالی و برباد کرکے چلے گئے۔ وہ لندن کے فلیٹ ہی دیکھ لیں جن کی تصاویر اخبار ‘ڈیلی میل‘ میں چھپی ہیں۔ ایسے ٹھاٹ باٹ تو دنیائے عرب کے بادشاہوں کے ہیں یا اُن روسی ٹائیکونز کی جنہیں ہم Oligarch کہتے ہیں۔ سب حالات عیاں ہیں لیکن ہمت کی داد دیں کہ پوچھا جائے تو ہر چیز سے انکاری ہیں۔
میرا اپنا خیال ہے کہ شہباز شریف کو انتخابی مہم خود ہی چلانی پڑے گی۔ وجہ بھی بیگم کلثوم نواز کی بیماری کی شکل میں ہے۔ میاں نواز شریف کی بھی شاید کوشش ہو کہ یہ مہینہ وہ باہر ہی گزاریں۔ پھر کیا ہوتا ہے اللہ بہتر جانے۔