’اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘….حامد میر
بہار کے موسم میں خزاں کی باتیں اچھی نہیں لگتیں لیکن کیا کریں کہ اس بہار میں بھی ہماری سیاست و صحافت پت جھڑ سے دو چار ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں موسم بہار کا استقبال ایک خوبصورت ادبی میلے سے کیا گیا اور میلے کے روح رواں ڈاکٹر شاہد صدیقی نے ایک نشست میں ’’ادب، صحافت اور سیاست‘‘ پر گفتگو کیلئے طلب کرلیا، اس گفتگو میں استاد محترم ڈاکٹر مجاہد منصوری، زاہدہ حنا صاحبہ اور برادرم رئوف کلاسرا صاحب نے نئی نسل کو بتایا کہ کوئی بھی ادیب و صحافی نیوٹرل نہیں ہوسکتا، جو غیر جانبداری کا دعویٰ کرتا ہے وہ بے ایمان ہے۔ آپ حق و باطل اور جمہوریت و آمریت کی لڑائی میں نیوٹرل نہیں رہ سکتے لیکن صحافی کو کسی سیاسی جماعت یا حکمران وقت کا کاسہ لیس نہیں بننا چاہئے۔ اسی گفتگو کے دوران یہ خبر ملی کہ سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ62ون ایف کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیدیا ہے اور مجھے اس محفل میں یہ شعر سنانے کا موقع مل گیا؎
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات
کہہ دی
بڑا بےادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اقبال کے یہ شعر سنانے کے بعد عرض کیا کہ ہمارے اکثر اہل سیاست و صحافت کی مادیت پرستی نے انہیں اعلیٰ و ارفع اصولوں اور نظریات سے عشق کے بجائے ا قتدار اور دولت سے عشق میں مبتلا کردیا ہے اور اس عشق میں وہ بے ادبی تو بہت کرتے ہیں لیکن سزا نہیں چاہتے اور اگر سزا مل جائے تو پھر ناانصافی کی صدائیں لگاتے ہیں۔اس محفل سے نکلا تو مجھے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھنے کا موقع ملا جس میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ 2010میں پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں بہت سی تبدیلیاں کیں لیکن 62ون ایف کو نہیں چھیڑا گیاجس کا مطلب ہے اس قانون کو پارلیمنٹ درست سمجھتی ہے۔ مجھے وہ دن یاد آگئے جب 18ویں ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں میں بات چیت چل رہی تھی اور ایک دن میں نے پنجاب ہائوس اسلام آباد میں جناب نواز شریف سے کہا تھا کہ 62ون ایف میں صادق اور امین کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس پر نہ آپ پورا اترتے ہیں نہ میں پورا اترتا ہوں لہٰذا اس قانون کو تبدیل کرکے آسمان سے زمین پر لے آئیں۔ بہت لمبی بحث ہوئی لیکن نواز شریف نے بات سنی ان سنی کردی۔ پھر رضا ربانی نے بار بار اسحاق ڈار کے ذریعہ نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ 62ون ایف سیاستدانوں کے سر پر لٹکتی تلوار ہے اسے ختم کردیں لیکن سیاست و صحافت میں نواز شریف کے لٹھ برداروں نے آئین کی اسلامی دفعات کے خلاف سازشوں کو مسترد کرنے کے اعلان شروع کردئیے۔ مسلم لیگ (ن) اس ترمیم کے ذریعہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر پابندی کے خاتمے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی جبکہ آصف علی زرداری 58ٹو بی ختم کرکے اور صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دے کر نئی تاریخ بنانا چاہتے تھے۔ 18ویں ترمیم کی منظوری ایک کمزور پارلیمنٹ کا بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن اس کارنامے کے فوراً بعد میمو گیٹ اسیکنڈل شروع ہوگیا اور نواز شریف درخواست گزار بن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور پھر اس وقت کے چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے وزراء کے ساتھ وہی سلوک شروع کردیا جو آج کل آپ مسلم لیگ(ن) کے وزراء کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
اس بہار کے موسم میں مسلم لیگ(ن) کے دوست اداس لہجوں میں اپنی ماضی کی کچھ خطائوں پر ندامت کا اظہار کررہے ہیں اور یہ کہنے لگے ہیں کہ 62ون ایف ختم نہ کرنا ہماری غلطی تھی لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ پیپلز پارٹی جو 2010ءمیں 62ون ایف کا خاتمہ چاہتی تھی وہ پارٹی 2018ءمیں 62ون ایف ختم کرنے سے انکاری ہے۔ جہاں موسم بدلنے کیساتھ نظریات بدل جائیں اور اصول بدل جائیں وہاں بہار کے موسم میں پت جھڑ کا آنا قابل فہم ہے۔ میں نے تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما سے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ خطرہ نہیں نظر آتا کہ اگر آج نواز شریف اور جہانگیر ترین پر 62ون ایف لگ گئی ہے تو کل کو عمران خان پر بھی لگ سکتی ہے؟ میرے اس پرانے مہربان نے ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر اثبات میں سرہلایا اور کہا کہ یہ تو دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ 62ون ایف کی تلوار بار بار چلے گی لیکن ہم اس صورتحال میں کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے نواز شریف کو فائدہ ہو۔ ا س مہربان نے مجھے یاد دلایا کہ کیا تم بھول گئے کہ اس نواز شریف نے 1997میں سینیٹر سیف الرحمان کے ذریعہ احتساب کے نام پر سیاستدانوں کو رسوا کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا؟ کیا تم بھول گئے کہ احتساب ایکٹ1997ءمیں یہ قانون شامل کیا گیا کہ چیف احتساب کمشنر پر تنقید کرنیوالے پر توہین عدالت کا مقدمہ درج ہوگا؟ جب حکومت ختم ہوگئی تو پھر اسی نواز شریف نے مشرف پر دبائو ڈالنے کیلئے پیپلز پارٹی کیساتھ اتحاد کیا اور جب نوابزادہ نصراللہ خان کے ذریعہ جی ڈی اے بن گیا تو نواز شریف صاحب ڈیل کرکے سعودی عرب بھاگ گئے۔ سعودی عرب میں صحافیوں کو بلا بلا کر کہتے تھے کہ ہم نے فوج کے دبائو پر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے۔ پھر جب پاکستان واپس آگئے تو انہی جھوٹے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ شروع کردیا، جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے انہی مقدمات کو کھولنے کیلئے سوئس حکومت کو خط لکھنے سے انکار کردیا تو نواز شریف نے گیلانی کو سپریم کورٹ سے نااہل قرار دلوادیا۔ تحریک انصاف کے مہربان دوست نے انتہائی ہمدردانہ لہجے میں مجھے مشورہ دیا کہ تم 62ون ایف کی مخالفت چھوڑ دو ورنہ تم پر نواز شریف سے لفافہ لینے کا الزام لگ سکتا ہے۔ یہ سن کر میں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں الزامات کی پرواہ نہیں کرتا مسلم لیگ(ن) کے سوشل میڈیا سیل نے جتنے الزامات لگانے تھے لگا لئے جتنی گندی گالیاں دینی تھیں دے لیں، 62ون ایف پر مسلم لیگ(ن) میرے پرانے موقف سے اتفاق کررہی ہے میں ان سے اتفاق نہیں کررہا، مجھے پتہ ہے کہ اب تو سانحہ ماڈل ٹائون کی بھی روزانہ سماعت ہوگی اور شہباز شریف بھی بہار کے موسم میں خزاں کے تھپیڑوں کا سامنا کرنے والے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں کسی کی بربادیوں کے تماشے میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی طرف سے آئین میں شامل کئے گئے قانون پر خاموشی اختیار کرلوں؟ میری بات سن کر میرا سیاستدان دوست غصے میں آگیا اور کہا….’’جائو میری جان چھوڑو اور نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر خود کو برباد کرلو۔‘‘
یہ گفتگو ابھی جاری تھی کہ لاہور سے ایک پرانے صحافی دوست کا فون آگیا اور اس نے بتایا کہ ایک سینئر صحافی نے اسے درخواست کی کہ آپ (ن)لیگ پر’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں۔ دوست نے یہ مشورہ نظر انداز کیا تو سینئر صحافی نے اسے اس کی قسمت بدل ڈالنے کی پیشکش کردی۔ پتہ نہیں اس پیشکش میں کسی قسمت ساز کی مرضی شامل تھی یا نہیں لیکن اسی سینئر صحافی نے اسلام آباد کی ایک خاتون اینکر کو بھی فون کرکے مسلم لیگ(ن) پر’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی درخواست کی۔ اس قسم کے ماحول میں 62ون ایف کی مخالفت کرنے والوں پر لفافہ لینے کا الزام واقعی لگ سکتا ہے لیکن میں اس قانون کی مخالفت جاری رکھوں گا کیونکہ یہ قانون ہمارے آئین میں بیماری دل ہے اور مسلم لیگ (ن) کیلئے میر کا یہ شعر عرض ہے؎
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا