اِس ہنگامے سے کیا اُمید؟…ایاز امیر
اِس عمر میں کافی زمانہ دیکھ چکے ہیں۔ جوانی کے ایام میں جب انتخابات کی ریت چلی تو اِن سے بہت توقعات اور اُمیدیں وابستہ کرتے تھے ۔ جس شب ذوالفقار علی بھٹو نے عنانِ اقتدار سنبھالا اور اُس دور کے جرنیل مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد رسوا ہوئے تو پختہ اُمید تھی کہ ایک نئی شروعات کا آغاز ہونے والا ہے ۔
اقتدار سنبھالتے ہی بھٹو صاحب نے ریڈیو، ٹیلی ویژن پہ آ کے فی البدیہہ تقریر کی۔ دورانِ خطاب اُنہوں نے یہ جملہ ادا کیا، ”The long dark night is over‘‘ (طویل اندھیری رات ختم ہوئی)۔ تب اکیس سال کی اپنی عمر تھی اور فوج کی کپتانی کے تین نشان کندھوں پر لگے ہوئے تھے۔ ایک عجیب کیفیت روح پہ طاری ہوئی ۔ سوچا کہ ہم جیسے کتنے خوش نصیب ہیں جو جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ رہے ہیں اور آزادی کی رُت کھلنے کو ہے۔ کیا پتہ تھا کہ جلد ہی وہ نوخیزی کی اُمیدیں ایک ڈراؤنے خواب میں ڈھل جائیں گی۔
اُمید کی کرن ایک بار پھر دِل میں اُٹھی‘ جب بینظیر بھٹو 1986ء میں وطن واپس لوٹیں اور ہم جیسے بے وقوفوں نے سمجھا کہ اگر پہلے ایک نئی صبح طلوع نہیں ہوئی تو اَب ہونے کو ہے۔ وہ کیفیت بھی جلد ختم ہوئی ۔ بینظیر بھٹو… خدا اُن کے دَرجات بلند کرے… کو ہم نے پتہ نہیں کیا سمجھ رکھا تھا ۔ اُنہیں Joan of Arc کا درجہ ہم جیسوں نے دیا ۔ ایک سال بعد اُن کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی اور Joan of Arc کا تصور وہیں پہ خاکستر ہو گیا۔ اُس کے بعد خواب دیکھنا اور بیکار کی اُمیدیں باندھنا چھوڑ دیا۔
اَب عمر کے لحاظ سے ہم آگے کو نکل چکے ہیں‘ اور سیاسی رُومانس کا بیڑا نوجوانوں نے اُٹھا رکھا ہے۔ خدا کرے اِن کی اُمیدیں جوان رہیں اور اِن کو وہ مایوسی نہ دیکھنی پڑے جو ہم جیسوں کے حصے میں آئی ہے۔
ذاتی طور پہ میری خواہشات بہت محدود ہو چکی ہیں ۔ بنیادی تبدیلی کے بلند بانگ دعوے اَب دِل کو نہیں بھاتے ۔ میں تو خوش ہو جاؤں اگر دو تین چھوٹی تبدیلیاں رُونما ہو سکیں ۔ ایک کا تو لکھ لکھ کے تھک چکا ۔ کوئی مسیحا آئے اور اِن پلاسٹک کے شاپروں کا استعمال ختم نہیں تو محدود کر سکے۔ پلاسٹک کے شاپر شیطان کی پیداوار ہیں‘ اور اِس کے استعمال سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا تباہ ہو رہی ہے ۔ دنیا کا دردِ سر ہم نہ لیں ۔ دنیا جانے اور اُس کے کام۔ ہم اپنے پہ توجہ دیں۔ جو بھی آئے ، عمران خان یا بھلے کوئی صادق سنجرانی، اِن پلاسٹک کے شاپروں کا کچھ کر سکے۔ گندگی ہم سے اُٹھائی نہیں جاتی۔ بڑے شہروں میں صفائی کے ٹھیکے غیر ملکی کمپنیوں کو دے رکھے ہیں ۔ ہمارے دیہاتوں میں گندگی اُٹھانے کا کوئی نظام نہیں۔ لیکن اگر پلاسٹک کے شاپروں کے استعمال پہ پابندی لگ جائے تو صفائی کا آدھا مسئلہ پورے ملک میں یکدم حل ہو جائے۔ ہم کیوں نہیں یہ کرتے؟ چیف جسٹس صاحب سے اُمید تھی کہ اِس مسئلے کا نوٹس لیتے۔ شاید اُنہیں فرصت نہیں ملی۔ اَب ہمارے نصیب میں جس کی بھی حکمرانی لکھی ہے اِس مسئلے کی طرف تھوڑی سی توجہ دے۔
دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں کچھ ہو جائے تو بہت اچھا ہو، حدود آرڈیننس کا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کے بہت سے تحائف اِس ملک کو نصیب ہوئے ۔ اِن میں سے ایک یہ قانون ہے ۔ اِس سے فائدہ تو کچھ نہیں ہوا ، نہ نیکی آئی نہ پارسائی، البتہ منافقت کو فروغ خوب ملا۔ امرا اور اشرافیہ کا تو کچھ نہیں جاتا ۔ وہ جو کرنا چاہیں اُس کے کرنے کی اُن کو مکمل آزادی ہے۔ ہماری اسلامی مملکت میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے امرا پہ ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ قانون کی سختیاں نچلے طبقات کیلئے ہیں ۔ ٹریفک وارڈن بھی بڑی گاڑیوں کو نہیں روکتے۔ اُن کا سارا زور موٹر سائیکل سواروں پہ چلتا ہے ۔ بالکل اسی طرح حدود آرڈیننس کا زور کمزوروں پہ گرتا ہے ۔ اِس قانون کو ختم ہونا چاہیے تاکہ شام ڈھلے ملک کے طول و عرض میں ماحول میں کچھ بہتری پیدا ہو سکے ۔ پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو کوئی حدود آرڈیننس نہیں تھا ۔ مسجدیں بھی آباد تھیں اور بڑے شہروں میں وہ جگہیں بھی‘ جہاں شام کی محفلیں سجتی تھیں ۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ نہ اسلام خطرے میں تھا نہ اخلاقیات پہ کوئی حملہ ہونے والا تھا۔ معاشرے میں آج کی نسبت برداشت کا عنصر زیادہ تھا۔ پھر کون سی نظرِ بد اس مملکت کو لگی کہ ہم رجعت پسندی کی طرف مائل ہونے لگے؟ بہتر ہوتا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ہندوستان میں ہی رہتے ۔ وہاں تبلیغ و تدریس کی زیادہ ضرورت تھی۔ لیکن اُنہوں نے اور اُن جیسے کئی اوروں نے ہجرت کو بہتر جانا۔ وہ یہاں تشریف لے آئے اور جہاں تبلیغ و تدریس کی اِتنی ضرورت نہ تھی وہاں زور و شور سے شروع کر دی۔ ہم جیسے گنہگاروں کو پھر سے مسلمان بنانے میں مصروف ہو گئے ۔ ہم تو بہتر نہ ہوئے لیکن معاشرے کا بگاڑ شروع ہو گیا۔ تبلیغ الفاظ تک رہتی تو اور بات تھی۔ لیکن جب جماعت اسلامی نے کالجوں اور یونیورسٹی کیمپسوں پہ قبضہ کرنا شروع کیا تو جہاں ایک طرف تعلیم تباہ ہونے لگی‘ وہاں تبلیغ بھی ڈنڈے کے زور پہ انحصارکرنے لگی ۔ آج ہماری درس گاہوں کا حال تباہ ہو چکا ہے اور جب آنے والے مؤرخ اس داستان کو زیر قلم لائیں گے تو جماعت اور اُس کی ذیلی طلبا تنظیم کا کردار جلی حروف میں لکھا جائے گا۔
جو ہوا، سو ہوا۔ تاریخ کا پہیہ مڑ بھی جاتا ہے لیکن ہمارے بس کی یہ بات نہیں۔ جہاں حکمران چھوٹے ہوں اور اُن کی بصیرت محدود ہو تو تاریخ سے ٹکر لینا مشکل ہو جاتا ہے ۔ پھر بھی بڑے اقدامات نہ سہی چند چھوٹے تو کیے جا سکتے ہیں۔ معاشرے کا بہت بھلا ہو اگر حدود آرڈیننس ختم ہو سکے اور شام کی محفلیں کچھ انداز سے بحال ہو سکیں ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پورے کرۂ ارض میں پاکستان وہ واحد جمہوریت ہے جہاں شب کی پابندیاں عائد ہیں ۔ کوئی جمہوریت بغیر سلجھی گفتگو کے پَنپ نہیں سکتی ۔ سلجھی گفتگو کا ایک خاص انداز اور ماحول ہوتا ہے۔ لیکن محدود سوچ کے ذہنوں سے کیا اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ پلاسٹک کے شاپرز کا اگر کچھ نہیںکر سکتے تو حدود آرڈیننس کے بارے میں خاک کسی نے کوئی رائے رکھنی ہے؟
ہمارا تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے، معاشرے میں کون سی بنیادی اصلاحات درکار ہیں، اِن موضوعات پہ غور کرنے کیلئے سوچ چاہیے۔ یہ کہاں سے آئے گی ؟ ماحول تو ایسا ہو کہ سوچ رکھنے والے لوگ آگے آئیں اور اُن کی کوئی سُنے بھی۔ اخبارات کھولیے، ٹی وی مباحثوں کا جائزہ لیجئے۔ ایسا کریں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشرے کی ذہنی سطح کیا ہے ۔ ڈھنگ کی بات شاذ و نادر پڑھنے یا سننے کو ملے گی ۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ جاہلوں اور بیوقوفوں کا معاشرہ ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سوچ پہ پہرے لگا دئیے ہیں ۔ کئی ایسے موضوعات ہیں جن کا آپ ذکر نہیں کر سکتے ۔ خاطر خواہ بحث تو دور کی بات ہے ۔ ایک مسلمان معاشرے میں جو مسئلے مسائل متنازع نہیں ہیں‘ اُن کو متنازع بنانے کی ہم کمال مہارت رکھتے ہیں۔ کشکول اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے۔ معمولی سے معمولی چیز کیلئے غیروں پہ انحصار ۔ بڑے کارنامے ہم سے سرزد ہونے ہیں یا نہیں ، اس معاشرے کو تھوڑا نارمل تو بنا دیں ۔ جنون بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر اعلیٰ مقاصد سے منسلک ہو ۔ ہمارے ہاں جنون کی کمی نہیں لیکن وہ فضولیات سے جڑا ہوا ہے۔
اُمیدیں تو گئیں لیکن پھر بھی آسمانوں سے دُعا ہے کہ کچھ کھلے ذہن کے حکمران اِن انتخابات کے نتیجے میںکامیاب ہوں۔ کچھ تو بھلا ہو اور کچھ فضول باتوں کو ہم بھول سکیں۔