آئندہ انتخابات اور نگران حکومت کی ذمہ داریاں…کنور دلشاد
میری اطلاع کے مطابق نگران وزیر اعظم کے بارے میں اتفاق رائے ہو چکا تھا، لیکن عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک کامیاب حکمت عملی کے طور پر اسے چھپایا گیا۔ نگران وزیر اعظم کی نامزدگی پر بظاہر اتفاق رائے مشکل نظر آتا رہا‘ لیکن اندرون خانہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان یہ معاملہ طے پا چکا تھا۔ نگران حکومت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے مابین جمہوری پل کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے تاکہ ان سیاسی جماعتوں کو یہ خدشہ نہ رہے کہ نگران حکومت انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ عبوری یا نگران حکومت کا کردار انتہائی محدود ہوتا ہے اور کسی صورت اسے انتخابی عمل پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جاتا۔ عبوری حکومت بنانے والوں کے عموماً سیاسی عزائم بھی نہیں ہوتے، لیکن 2013ء کے انتخابات میں نگران حکومت کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نگران حکومت کے چند وزرا نے خفیہ طور پر جاتی امرا سے تعلقات بڑھائے اور اس طرح الیکشن پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھنے والی بیوروکریسی کے تبادلے ان کی خواہش و منشا کے مطابق ہوتے رہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے ماتحت بیوروکریسی جاتی امرا سے ہدایات حاصل کرتی رہی ہے۔
ان حالات میں اب الیکشن 2018ء میں نگران حکومت جامع، فعال اور گہری نظر رکھنے والی کابینہ پر ہی مشتمل ہونی چاہئے تاکہ ملک میں انتخابات شفاف انداز میں ہوں اور دیگر تمام جمہوری ممالک کی طرح پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بھی نتائج کو تسلیم کر لیں اور اس طرح پارلیمنٹ میں نئی حکومت سازی کے لئے راہ ہموار ہو جائے۔ نگرانوں کا کردار انتہائی شفاف ہونا چاہئے اور ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہونے چاہئیں۔ نگران وزیر اعظم کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ بیرونی عوامل انتخابات پر اثر انداز نہ ہوں ورنہ خود ان کی ساکھ دائو پر لگ جائے گی، کیونکہ 2018ء کے انتخابات پر امریکہ، چین اور بھارت کی گہری نظریں لگی ہوئی ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین سی پیک کے حوالے سے مضطرب دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کی دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اور میرے خیال میں بھارت کا کچھ سیاسی جماعتوں میں عمل دخل بھی ہے، لہٰذا نگران وزیر اعظم کو الیکشن میں بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے غیر ملکی این جی اوز اور پاکستان میں ملکی این جی اوز‘ جن کو دوسرے ممالک سے اربوں روپے کی خطیر رقوم فنڈنگ کے نام سے موصول ہو رہی ہیں‘ پر بھی نگاہ رکھنا ہو گی۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اعتماد کریں۔ مضبوط الیکشن کمیشن اور غیر جانبدار نگران حکومت کے ذریعے دھاندلی کے خدشات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن کو مزید اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ اس کے باو جود اپوزیشن اس پر بھروسہ کرنے کے لئے آمادہ نہیں، کیونکہ الیکشن میں دھاندلی کی روک تھام کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس سے فوری انصاف ملنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ الیکشن ٹربیونل‘ جو ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ہے‘ اب تک الیکشن کی عذرداریاں ختم نہیں کر سکا‘ جبکہ ان کا تقرر چھ ماہ کے لئے کیا گیا تھا اور قانون کے مطابق ان کو روزانہ کی بنیاد پر چار ماہ کے اندر اندر تمام کیسز کا فیصلہ کرنا تھا۔ اسی طرح خواجہ سعد رفیق چار سال سے عدالت کے حکم امتناعی پر حکومت کر رہے ہیں جبکہ الیکشن ٹربیونل نے ان کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان سے تمام واجبات واپس لینے کے ا حکامات جاری کئے تھے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کا کیس زیر التوا ہے اور تحریک انصاف اس کیس میں ابھی تک الجھی ہوئی ہے۔ دیگر جماعتوں‘ جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی شامل ہیں‘ کے کیسز کا بھی الیکشن کمیشن نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا۔
نگران حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی زیر نگرانی انتخابات کو یقینی بنانا ہے اور آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت شفاف، دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اب اگر انتخابات غیر یقینی صورت حال کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں تو نگران حکومت اس کی ذمہ دار ہو گی‘ اور پھر نگرانوں کو سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 184(3) کو استعمال میں لایا جائے گا۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن اپنے اختیارات بروئے کار لانے کی پوزیشن میں ہیں کیونکہ سپریم کورٹ ان کی حمایت کر رہی ہے۔ اگر اب بھی انتخابات عوام کی توقع کے مطابق نہ ہوئے اور ناکام ہو گئے تو موجودہ سسٹم پر سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے گا؛ تاہم توقع ہے کہ انتخابات بر وقت اور غیر جانبدارانہ ہی ہوں گے۔
نگران حکومت کو کاغذاتِ نامزدگی چیلنج کرنے کے لئے بڑے مسائل کا سامنا ہو گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کو بھی ان کیسز کو نمٹانے کے کئی مراحل پیش آئیں گے۔ اس بار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال حقیقی معنوں میں بڑے بے رحمانہ طریقے سے کی جائے گی، اور ایسی ایسی بڑی شخصیات کی نامزدگی چیلنج ہو گی کہ قوم حیران رہ جائے گی، کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسے ایسے لیڈر شامل ہیں جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سیاسی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سیاسی لیڈروں کی اخلاقیات کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں، اور انہوں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں برملا اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کا خیال اب کاغذات نامزدگی کے موقع پر عملی طور پر رکھا جائے گا۔ نواز شریف کو میگا کرپشن اور حقائق چھپانے پر تا حیات نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ اب اخلاقیات کی بنیاد پر بڑی اہم شخصیات کے بارے میں لوگ ثبوت دیں گے۔ دوسرے ملکو ں سے ثبوت ملیں گے اور پاکستان سے بھی ٹھوس ثبوت پیش کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا: بھول چوک اثاثوں کے بارے میں تو ہو سکتی ہے لیکن اولادوں کے بارے میں نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جسٹس جمشید کمیشن کے تحت جن افراد نے اربوں روپے کے قرضے معاف کروائے اور دیوالیہ ہونے کا سر ٹیفکیٹ حاصل کیا‘ وہ بھی آئندہ انتخابات میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی نذر ہو جائیں گے۔ اور جن شخصیات کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ریفرنسز خارج کرتے ہوئے ان کے ریفرنس کو بدنیتی اور سازش قرار دے رکھا ہے‘ ان کے بارے میں کمیشن کے فیصلے بھی کاغذات نامزدگی کے عین موقع پر اعتراض کی صورت میں پیش کئے جائیں گے۔ جن کو الیکشن کمیشن آف پاکستان بد نیت اور سازشی قرار دے چکا ہے وہ بھی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی زد میں آتے ہیں لہٰذا نگران حکومت کے سامنے ہمالیہ جیسے انتخابی مسائل کھڑے ہوں گے جنہیں اسے حل کرنا ہو گا۔
عمران خان نے قومی انتخابات سے پہلے اپنا قومی ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کیا۔ اب ان کے خلاف سازشیں شروع ہو چکی ہیں اور ان کے کا غذات نامزدگی مسترد کروانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے نام نہاد سروے عوام کو دکھائے جا رہے ہیں، جن کے مطابق تحریک انصاف کی باقی جماعتوں سے بر تری نہیں دکھائی جا رہی ۔ تمام کے تمام عوامی اندازے مسلم لیگ ن کی سبقت ظاہر کر رہے ہیں، اور اب عمران خان کو الیکشن سے آئوٹ کروانے کیلئے دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی متحرک ہو رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی‘ جس میں عائشہ گلالئی کے بارے میں ریکارڈ موجود ہے‘ کی بھی مستند کاپیاں حاصل کر لی گئی ہیں، اور ملک کے ایک نجی ٹیلی ویژن کے ایک اینکر کو جو انٹرویو عائشہ گلالئی نے دیا تھا‘ اس کا بھی ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے‘ جو متعلقہ ریٹرننگ افسران کو بڑے طریقے سے پیش کیا جائے گا۔
نواز شریف کی احتساب عدالت سے سزا کا معاملہ طویل تر ہوتا جا رہا ہے اور اس معاملے پر ان کے بیانیہ میں سختی آتی جا رہی ہے۔ ان کی قیادت میں چلنے والی عام انتخابات کی مہم میں ان کے تلخ بیانیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہو گی جو کچھ عرصہ سے سامنے آ رہا ہے۔ نواز شریف نے ملکی مفاد کے منافی ایسی زہر آلود گفتگو کرنا شروع کر دی ہے جس سے ان کا انتخابی لہجہ شیخ مجیب الرحمان سے مشابہت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے عمران خان کی لیگل ٹیم 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا جامع ثبوت ہونے کے با وجود سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن کو مطمئن نہ کر سکی اور اس کے نتیجہ میں قوم 2014ء سے اب تک سیاسی بحران کی زد میں ہے۔