منتخب کردہ کالم

آئینی بحران یا نئی راہیں؟…الیاس شاکر

کجری وال کی معافی کا مطلب

آئینی بحران یا نئی راہیں؟…الیاس شاکر

ایک بات تو پھر ثابت ہو گئی کہ سیاستدان جو مرضی بولیں‘ کتنی ہی تقاریر کر لیں‘ جتنی تنقید کر لیں لیکن جج فیصلوں سے ہی بولتے ہیں اور ایسا بولتے ہیں کہ سامنے والے ”گنگ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل کر کے ایک اور بڑا فیصلہ سنا دیا ہے‘ جس سے مسلم لیگ (ن) کو بڑا دھچکا لگا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جان میں جان آ گئی۔ اسے وہ ”بریک تھرو‘‘ ملا ہے جس کی لودھراں انتخابات میں شکست کے بعد اشد ضرورت تھی۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس رفتار سے اعلیٰ عدلیہ پر ”حملے‘‘ کر رہی تھی‘ اسے ”بریک‘‘ لگانا بہت ضروری تھا۔ اسی لئے فیصلے کی ٹائمنگ پر تعریف و تنقید جاری ہے۔ ملکی تاریخ میں کئی سیاستدان نااہل ہوئے ہیں لیکن پارٹی صدارت سے فراغت کی یہ پہلی مثال ہے‘ جو آرٹیکل 62 اور 63 کی نئی تشریح قرار دی جا رہی ہے۔
فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کارکنان نے مٹھائیاں بھی بانٹ دیں۔ مسلم لیگ (ن) کے کیمپوں میں مایوسی چھا گئی۔ نواز شریف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ”ہاٹ لائن‘‘ پر لیا۔ شہباز شریف ”سیاسی تعزیت‘‘ کیلئے فوری طور پر جاتی امرا پہنچ گئے۔ ٹویٹر پر ”سپریم کورٹ‘‘ اور ”عوام کی ضد‘ نواز شریف‘‘ کے ہیش ٹیگ چند گھنٹوں میں پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز بن گئے۔ ”عوام کی ضد‘ نواز شریف ‘‘ پر مسلم لیگ (ن) کے حامی غم و غصے جبکہ ”سپریم کورٹ‘‘ کے ٹرینڈ میں اپوزیشن جماعتیں خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب سیاسی جماعتوں کی فہرست میں موجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نام کے آگے موجود خانے میں سے پارٹی سربراہ کا نام فوری طور پر ہٹا دیا گیا اور اس وقت مسلم لیگ (ن) بغیر پارٹی سربراہ کام کر رہی ہے۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کیا ہے جس کی منظوری کے بعد نواز شریف اکتوبر 2017ء میں اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس انتخابی اصلاحات بل کو اپوزیشن کی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور بالآخر نتیجہ سب کے سامنے آ گیا۔ جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں نااہل قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔ جس کے بعد دو اکتوبر 2017ء کو پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات سے متعلق ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا تھا۔ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی منظوری کے بعد نواز شریف 3اکتوبر 2017ء کو اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے اور 21 فروری کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف سیاست سے ہی آئوٹ ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ میں جب تک مقدمہ چلا‘ ایمانداری اور بنیادی حقوق کا مقابلہ ہوتا رہا۔ نواز شریف کے وکلا بنیادی حقوق کے حق میں چیختے رہے جبکہ اپوزیشن کے وکلا ایمانداری پر سوال اٹھاتے رہے۔ کچھ لوگوں کو جمہوریت کے بارے میں پڑھنا پڑا کہ جمہوریت آخر ہے کیا؟ ایمانداری زیادہ ضروری ہے یا بنیادی حقوق؟ آخر میں تو چیف جسٹس صاحب نے سوال پوچھنا ہی چھوڑ دیئے کیونکہ انہوں نے ایک سوال ہی پوچھا تھا کہ ”کیا کوئی چور‘ ڈاکو کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے؟‘‘جس پر مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کو ”حرکت‘‘ میں لے آئی۔ وزیراعظم‘ جو عوامی مسائل کے لئے پارلیمنٹ نہیں آتے تھے‘ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف آناً فاناً قومی اسمبلی پہنچ گئے اور پھر وہ دھواں دھار تقریر کی کہ اعلیٰ عدلیہ کے احترام کے حوالے سے ان کا اپنا مؤقف ہی بدل گیا۔ اسلام آباد کے حلقوں میں یہ خبریں عام ہیں کہ پارلیمنٹ کو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف استعمال کرنے کی ”کوشش‘‘ تیار تھی‘ جسے بعض لوگ ”سازش‘‘ بھی کہتے ہیں، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم سمیت اہم وزراء کو بھی ”ٹاسک‘‘ دیا گیا تھا اور 3 نومبر کی طرح‘ اعلیٰ عدلیہ نے بھی وہ کام کیا جس پر ایک تبصرہ یہ بھی ہوا کہ ”سو سنارکی ایک لوہارکی‘‘۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد سینیٹ انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے‘ جس کا فائدہ ایم کیو ایم پاکستان کو جبکہ نقصان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو پہنچ سکتا ہے۔ نواز شریف نے بحیثیت پارٹی صدر جتنے ٹکٹ جاری کئے‘ اب وہ ردی کا ٹکڑا بن چکے ہیں۔ نئے ٹکٹوں کا اجراء نیا پارٹی صدر ہی کر سکتا ہے جو مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک بڑا امتحان ہے۔مسلم لیگ (ن) کا مؤقف اس بارے میں کچھ اور ہے۔ نواز شریف کے پاس اس وقت دو راستے ہیں ایک اپنی صاحبزادی مریم نواز کو پارٹی صدر بنا دیں‘ جس پر اختلافات پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں بلکہ چوہدری نثارکی پریس کانفرنس کو بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ چوہدری نثار سمیت مسلم لیگ (ن) میں کئی سینئر رہنما مریم نواز کو کبھی ”میڈم‘‘ نہیں کہیں گے۔ نواز شریف کے پاس دوسرا آپشن شہباز شریف کی صورت میں موجود ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کا اپنا سیاسی قد ہے۔ اگر وہ پارٹی صدر بنے تو مسلم لیگ کے ساتھ لگا ”ن‘‘ برائے نام رہ جائے گا جبکہ یہ دراصل مسلم لیگ ”ش‘‘ بن جائے گی۔ کلثوم نواز کا آپشن فی الحال کارگر نہیں ہو سکتا۔
نواز شریف کی دوسری بار نااہلی پہلے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اٹھائیس جولائی2017ء سے 21 فروری 2018ء تک کے تمام فیصلے بھی کالعدم کر دیئے گئے ہیں۔ قانونی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ این اے 120 سے‘ لودھراں الیکشن تک کے تمام پارٹی ٹکٹ بھی نواز شریف نے جاری کئے ہیں تو ان انتخابات کا کیا ہوگا۔ اس سے ایک نیا پنڈورا بکس کھلے گا۔ ضمنی انتخابات کالعدم قرار دیئے گئے تو ایک بار پھر قومی خزانے پر ضمنی انتخاب کا بوجھ ایسے وقت میں پڑے گا جب عام انتخابات چند ماہ کی دوری پر ہیں‘ جبکہ عوام کے جمہوری نظام پر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچ سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نیا آئینی بحران پیدا ہوتا ہے یا عوام کے لئے نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اگر نواز شریف اعلیٰ عدلیہ پر ”تابڑ توڑ حملے‘‘ نہ کرتے تو شاید ”ریویو پٹیشن‘‘ میں کچھ ریلیف مل جاتا لیکن اب مختصر فیصلے میں ہی مستقبل کا حال بھی بتا دیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پیپلز پارٹی کو بھی سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ سینیٹ الیکشن کیلئے ”کیل کانٹوں‘‘ سے لیس آصف زرداری نے محنت کر کے بلوچستان کی حکومت گرائی، ارکان اسمبلی کو ”وفادار‘‘ بنایا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں بننے والے نئے اتحاد پیپلز پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے لئے ایک بہترین گرائونڈ بن گیا تھا۔ سینیٹ کی تمام نشستیں پیپلز پارٹی کی جھولی میں پکے ہوئے آموں کی طرح گرنے ہی والی تھیں‘ کے پی میں بھی جوڑ توڑ فائنل ہو چکی تھی لیکن اب کیا ہو گا‘ اس کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان پر شاید قسمت مہربان ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پی آئی بی اور بہادر آباد گروپ آمنے سامنے ہیں‘ سینیٹ کی ایک نشست پر پیدا ہونے والا ”بحران‘‘ ابھی تک حل نہیں ہو پایا۔ کسی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تو کسی نے انٹرا پارٹی کے نتائج جمع کرا دیئے۔ افراتفری اتنی زیادہ تھی کہ ایم کیو ایم کے دونوں گروپ سینیٹ امیدوار دستبردار کرانا ہی ”بھول‘‘ گئے۔ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں سینیٹ کے سب سے زیادہ امیدوارکھڑے ہیں۔ ان میں سے صرف ایم کیو ایم پاکستان کے 16 امیدوار ہیں لیکن اب جبکہ ڈاکٹر عمران فاروق کے والدین ایم کیو ایم کے دونوں گروپوں میں مفاہمت کی کوششیں کر رہے ہیں‘ ایسے موقع پرسینیٹ انتخابات کا نیا شیڈول جاری ہونے کی صورت میں ایم کیو ایم پاکستان کو تین سے چار نشستوں کا فائدہ ضرور ہو سکتا ہے۔ اور یہ نقصان پیپلز پارٹی کے ”کھاتے ‘‘میں جائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرکسی رکن اسمبلی کو ”ٹوکن پے منٹ‘‘ کی گئی ہے‘ تو وہ بھی ڈوب سکتی ہے۔