منتخب کردہ کالم

آبی حملہ …. کالم الیاس شاکر

آبی حملہ …. کالم الیاس شاکر

کراچی میں دو روزہ بارش نے ایسی تباہی مچائی کہ عراق اور شام یاد آگئے …سڑکیں ‘انڈرپاسز‘فلائی اوورز اور گلی محلوں پربرساتی پانی ریلوں کی شکل میں ”حملہ آور‘‘ہوا،اتنی تباہی بارش سے نہیں ہوئی جتنی ادھورے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ہوئی…بجلی کے کڑاکوں نے شہریوں کے چھکے چھڑادئیے…پوراشہر پانی پانی ہوگیالیکن حکمران شرم سے پانی پانی نہ ہوسکے …بلدیاتی ادارے فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بناکر ہاتھ جھاڑکر کھڑے ہوگئے تودوسری جانب صوبائی وزیربلدیات بھی ”اجنبی‘‘سے بن گئے… متعدد شہری کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے تودوسری جانب دوکروڑ سے زائدشہری بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی سے دوچار رہے… کے الیکٹرک کے فیڈرزبھی ہر بارش کی طرح ٹرپ کرتے رہے ۔
قدرتی آفات ہر ملک میں آتی ہیں…نہ انہیں روکا جا سکتا ہے اور نہ انکی تباہی سے بچا جا سکتا ہے لیکن گڈ گورننس کے ذریعے تباہی کے اثرات کم ضرور کئے جا سکتے ہیں…بنگلہ دیش جیسا ملک جہاں ہر سال ایک نہیں کئی سیلاب آتے تھے …طوفان حملہ آور ہوتے تھے …تباہی ہی تباہی مچ جاتی تھی … آج اسی بنگلہ دیش نے قدرتی آفات سے بچائو کیلئے ایسے موثر اقدامات کئے ہیں کہ اب تباہی بھی آسانی سے تباہی نہیں مچاپاتی …قدرتی آفات سے بچنے کیلئے حکومتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں… عوام کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہوتی ہیں لیکن کراچی وہ بد قسمت شہر ہے جہاں حکومت تو سب کرتے ہیں لیکن مسائل حل کرنے والاکوئی نہیں …یہاں رہتے سب ہیں … اپنا کہتے سب ہیں لیکن عمل سے کوئی یہ ثابت نہیں کرتا… گڈ گورننس تودوریہاں توگورننس اور حکومت ہی نظر نہیں آتی جس سے متاثرہ عوام رابطہ کرسکیں۔
دو روزہ بارش کراچی پر ”آبی حملہ‘‘ثابت ہوئی …جس کے اثرات ابھی تک سڑکوں اورگلیوںمیں محسوس کئے جارہے ہیں …سڑکوں اور شاہراہوں کی حالت ایسی ہے جیسے ”بمباری‘‘کی گئی ہو…نئی سڑکیں پرانی سے بھی بدتر ہوگئی ہیں …انڈرپاسز سیوریج کے نالوں میں تبدیل ہوگئے …یہ سب کچھ تعمیراتی کاموں میں تاخیر کی وجہ سے ہوا…اگر یہ سڑکیں بن چکی ہوتیں،برساتی نالے ”ورکنگ‘‘میں ہوتے تو تباہی شاید کم ہوتی …شاہراہ فیصل پر تو کنٹومنٹس نے رات گئے ہی بھاری مشینری لگاکر پانی کو نکال باہر کیا لیکن جن علاقوں میں سندھ حکومت کی حکومت ہے وہاں کی سڑکیں ”موئن جودڑو‘‘کا زندہ شاہکار بنی ہوئی ہیں…ملیرکالابورڈمین نیشنل ہائی وے تاحال پانی میں ڈوبی ہوئی ہے …حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے بارش سے ایک روز قبل یہاں کادورہ کیا اور سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے باز پرس بھی کی لیکن لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں مانتے ہیں …مرادعلی شاہ کے دورے کے ایک روز بعد ہی کالابورڈ اور ملیر ہالٹ کی سڑکیں تباہی کی تصاویر بن گئیں …بارش برسی تو کہیں سڑکیں بہہ گئیں اورکہیں سڑکوں کی تیاری کا سامان انہی سڑکوں پر بکھر گیا…پانی کی مقدار کاروں ‘رکشوں اور دیگر چھوٹی گاڑیوں کو ڈبونے کیلئے کافی تھی …رہی سہی کسر سیوریج کے پانی نے پوری کردی …بارش اور سیوریج کے پانی نے مل کر وہ تباہی مچائی کہ اب تک وہاں سے گزرنے والے کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
کچھ ایسا ہی حال یونیورسٹی روڈ کا تھا…حال ہی میں تعمیر ہونے والی یہ سڑک بھی پانی کا دبائو اور بہائو برداشت نہ کرسکی…پانی میں ڈوبی گاڑیاں حکمرانوں کی اہلیت کا پردہ فاش کررہی تھیں…یہاں بھی ”آبی حملہ ‘‘ہوا تھا اور سڑک مکمل طور پر زیر آب آگئی تھی …سندھ حکومت کی جانب سے سڑکوں کی تعمیرکے ساتھ برساتی نالوں کے فارمولے کو پسند کیا جارہا تھا…یہ تبصرے بھی کئے جارہے تھے کہ 70سالہ تاریخ میں پہلی بار نکاسی آب کا سسٹم ڈالا گیا ہے ‘اب پانی کھڑا نہیں ہوگالیکن شاید ان برساتی نالوں کا کنکشن نہیں جوڑا گیا…اسی لئے پانی جوں کا توں کھڑا رہا …کراچی ایئرپورٹ کے سامنے کی شاہراہ کا بھی یہی حال تھا …برساتی نالوں کیلئے کی گئی کھدائی بھی مکمل نہیں ہوئی …نیشنل ہائی وے کے متعدد مقامات پرتو ایسا لگتا ہے جنگ ہونے والی ہے، اسی لئے یہ ”خندقیں ‘‘کھودی گئی ہیں …دو روزہ بارش نے جہاں ایک جانب شہریوں کا جانی و مالی نقصان کیا وہیں پیپلز پارٹی کو بھی اپنے ادھورے کاموں کا پورا خمیازہ بھگتنا پڑے گا …کراچی کی انہی سڑکوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے اپنی الیکشن مہم تیار کی …کراچی والوں سے ووٹ بھی یہ بتاکر لئے جاتے کہ ہم نے یہ سڑکیں بنائیں…شاہراہوں کے اطراف پہلی بار برساتی نالے ہم نے ڈالے …سگنل فری کوریڈور بھی ہم نے ہی تیار کیا…انڈرپاس اورفلائی اوورز ہم نے قبل ازوقت مکمل کئے لیکن اس دو روزہ بارش کا یہ احسان ضرورہے کہ کراچی والوں کو معلوم ہو گیا کہ کون سا میٹریل کتنی مقدار میں استعمال کیا گیا …کس ٹھیکیدار نے کتنی ”ڈنڈی ‘‘ماری۔…کتنا کک بیک لیا گیا …تعمیراتی کاموں میں تاخیری حربے استعمال کیوں کئے جارہے تھے …ملیر فلائی اوور تاحال مکمل کیوں نہیں کیا گیا …کراچی کے شہری کئی چالوں کو بخوبی سمجھ چکے ہیں …اس لئے اب پیپلز پارٹی کو”سڑکوں کی سیاست ‘‘کا زیادہ فائدہ ہونے کا امکان نظر نہیں آتا…جتنی تباہی ملک کے دیگر شہروں میں سیلاب سے ہوتی ہے اتنی کراچی میں بارش سے ہی ہوگئی ہے…اس کا مداوا کون کرے گا یہ سوال وزیراعلیٰ سندھ ‘وزیربلدیات سندھ اور میئرکراچی سے پوچھا ضرور جانا چاہئے ۔
کراچی کے شہریوں کیلئے ایک خوش خبری یہ بھی ہے کہ بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض اور میئرکراچی وسیم اختر میں ”دوستی ‘‘ہوگئی ہے…جو تنازع باغ ابن قاسم پر شروع ہوا تھا وہ بھی ختم ہوگیا ہے …میئرکراچی وسیم اختر اب ملک ریاض کو کراچی کا مسیحا قرار دے رہے ہیں …ملک ریاض نے کراچی کیلئے ابتدائی طور پر دس ارب روپے نچھاورکرنے کا معاہدہ کیا ہے…کراچی کے شہری اس وقت حیران ہوئے جب دس ارب روپے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”کراچی کو سنگاپور بنائیں گے‘‘…کراچی کے دانشوروں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ صرف دس ارب روپے میں کراچی سنگاپور کیسے بن سکتاہے؟ …ملک ریاض کی میئر کراچی کے ساتھ بڑھتی قربتوں پر بھی واقفان ِحال نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی ناراضی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے …لیکن بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کراچی سنگاپور بن جائے گا تو ملک ریاض آصف زرداری کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کیلئے ووٹ کا تقاضا بھی کرسکتے ہیں۔

دو روزہ بارش کراچی پر ”آبی حملہ‘‘ثابت ہوئی …جس کے اثرات ابھی تک سڑکوں اورگلیوںمیں محسوس کئے جارہے ہیں …سڑکوں اور شاہراہوں کی حالت ایسی ہے جیسے ”بمباری‘‘کی گئی ہو…نئی سڑکیں پرانی سے بھی بدتر ہوگئی ہیں …انڈرپاسز سیوریج کے نالوں میں تبدیل ہوگئے …یہ سب کچھ تعمیراتی کاموں میں تاخیر کی وجہ سے ہوا…اگر یہ سڑکیں بن چکی ہوتیں،برساتی نالے ”ورکنگ‘‘میں ہوتے تو تباہی شاید کم ہوتی …شاہراہ فیصل پر تو کنٹومنٹس نے رات گئے ہی بھاری مشینری لگاکر پانی کو نکال باہر کیا لیکن جن علاقوں میں سندھ حکومت کی حکومت ہے وہاں کی سڑکیں ”موئن جودڑو‘‘کا زندہ شاہکار بنی ہوئی ہیں.

………………
اگلا کالم ..پاکستان ویت نام نہیں…
………