آتشِ چنار… قبائلیوں کا حملہ اور کشمیر کا الحاق (آخری قسط)…ذولفقار احمد چیمہ
11اگست1947 تک شیخ عبداللہ کشمیر کے مہا راجہ کی قید میں تھا۔ ہندوستان کا حکمران بنتے ہی نہرو نے شیخ عبداللہ کو رہا کرایا اور کشمیر کا حکمران (ناظمِ اعلیٰ) مقرر کردیا۔
اگست 1947 میں جب برصغیر میں آزادی کی صبح طلوع ہورہی تھی، پاکستان کی سیاسی قیادت نے شیخ عبداللہ کو سمجھانے اور ذاتی مفاد کے لیے پچاسی فیصد مسلمانوں کو ہندوستان کے آگے بیچنے سے منع کرنے کی پوری کوشش کی۔
آتشِ چنار میں شیخ عبداللہ نے لکھا ہے ’’پاکستان کے اربابِ اقتدار نے دو نمایندے ہم سے بات چیت کے لیے سرینگر روانہ کیے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر (جو سرینگر کالج میں پرنسپل بھی رہے تھے) اور شیخ صادق حسن، یہ دونوں کشمیری نژاد تھے۔ شیخ صادق نے کہا کہ آپ نہ ہندوستان کے ساتھ رشتہ جوڑیں اور نہ پاکستان سے بلکہ آزاد مملکت کی حیثیّت سے رہیں۔ ڈاکٹر تاثیر نے پاکستان سے الحاق کرنے پر سخت زور دیا، شیخ عبداللہ نے انھیں کوئی اطمینان بخش جواب نہ دیا اور ٹالنے کی کوشش کی۔ پھر لکھا ہے، ’’دونوں نے مجھے لاہور آکر جناح صاحب سے ملنے اور روبرو گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ میں نے دعوت قبول کرلی مگر مجھے لاہور جانے سے پہلے دہلی کا رخ اختیار کرنا پڑا۔‘‘ اس لیے کہ وہ کشمیریوں کی تقدیر دہلی کے ہاتھ بیچنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
کشمیر کے الحاق کے بارے میں بتایا ہے ’’مہاراجہ نے تذبذب دکھانا شروع کر دیا، اُس کے دل میں اپنی الگ سلطنت قائم کرنے کا خیال رچ بس گیاتھا۔ چنانچہ جب جون 1947میں وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کشمیر آیا تو اس نے مہاراجہ کو صلاح دی کہ کشمیر کی آبادی کی ترکیب تو پاکستان کے ساتھ الحاق کا تقاضا کرتی ہے لہٰذ وہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کردے۔
مہاراجہ نے ہچکچاہٹ دکھائی۔ اس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا،’’تو پھر ہندوستان سے الحاق کرلو۔ میں ایک ڈویژن فوج فوراً بھیجوںگا مگر مہاراجہ پھر بھی چُپ رہا۔‘‘ یعنی مہاراجہ خوشی سے ہندوستان کے ساتھ الحاق پر تیار نہیں تھا۔ آزاد کشمیر کیسے آزاد ہوا، اس کے بارے میں لکھا ہے، ’’اب پاکستان کے صوبۂ سرحد اور اس کے قبائلی علاقوں کے پرے کے پرے کشمیر کی طرف بڑھنے لگے اور مظفرآباد تک پہنچ گئے۔ اُدھر پونچھ اور میرپور وغیرہ میں جلسے منعقد ہوئے جن میں مہاراجہ سے استدعا کی گئی کہ وہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کرے۔اُدھر سرینگر کے ڈاک خانوں اور تار گھروں پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا اور ملازمین سے پوچھا گیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ اکثر مسلمان ملازموں نے اپنی رائے پاکستان کے حق میں ظاہر کی۔‘‘
شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ ’’مہاراجہ کی فوج جو ڈوگرہ کرنل نرائن سنگھ کی کمان میں تعینات تھی، قبائلیوں کے مقابلے میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہ ٹک سکی اور اس کا مکمل صفایا ہوگیا، مظفرآباد کا ڈپٹی کمشنر مہتہ مارا گیا۔ 22اکتوبر کو مہاراجہ نے بریگیڈیئر راجند سنگھ کی کمان میں کمک روانہ کی۔ راجند سنگھ بھی بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا اور اس کی فوج کو شکستِ فاش ہوئی۔‘‘
مظفر آباد کے بعد قبائلیوں نے اروڑی پر قبضہ کرلیا، اب سرینگر کا راستہ بلا کسی مزاحمت کے کھلا تھا اور حملہ آور چاہتے تو چند گھنٹوں میں سرینگر پہنچ کر دم لیتے لیکن انھیں لوٹ مار کی حرص نے اندھا بنادیا، وہ وہیں لوٹ مار کرتے رہے اور سرینگر نہ پہنچ سکے ۔
26 اکتوبر کو قبائلیوں نے مہورہ کے اس بجلی گھر کو تباہ کردیا جو سرینگر کو بجلی فراہم کرتا تھا، اس طرح راجدھانی اندھیرے میں ڈوب گئی اور اس کے ساتھ ہی مہاراجہ کی سلطنت کا ستارہ بھی غروب ہوگیا۔‘‘
’’اب قبائلیوں نے بارہ مولہ کا رخ کیا، بارہ مولہ سے سرینگر کا فاصلہ ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہ تھا، قبائلی چاہتے تو سرینگر اسی روز پہنچ سکتے تھے لیکن بارہ مولہ کے گھروں کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انھوں نے تین دن تک وہاں عصمت دری اور لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا کہ انھیں سرینگر کی یاد ہی نہ رہی، انھی تین دنوں میں صورت حال کا پانسہ پلٹ گیا۔‘‘ (یہ شیخ عبداللہ کا موقف ہے۔ اصل حقائق غیرجانبدار ذرایع ہی بتاسکتے ہیں)۔
اُدھر دہلی جاکر شیخ عبداللہ نے گاندھی کی منّتیں کیں کہ ہندوستان فوری طور پر سرینگر فوج بھیجے ورنہ قبائلی ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیں گے اور کشمیر پاکستان کا حصّہ بن جائے گا،بالآخر گاندھی نے ماؤنٹ بیٹن کو فوج سرینگر بھیجنے پر آمادہ کرلیا۔شیخ عبداللہ کے بقول سردار پٹیل نے ماؤنٹ بیٹن کی معرفت کہلا بھیجا تھا کہ ’’اگر مہاراجہ 15 اگست سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لے تو ہندوستان اسے غیر دوستانہ قدم تصور نہ کرے گا‘‘۔
مہاراجہ کی صورتِ حال یہ تھی کہ’’وہ سرینگر چھوڑ کر جمّوں پہنچ گیا تھا مگر اس کے کیمپ میں کیسی بھگدڑ اور سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی، اس کا اندازہ اس کے وزیراعظم مہرچند مہاجن کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے ’’ مہاراجہ کے مشورے سے یہ طے پایا ہے کہ کسی ہوائی جہاز کا انتظام ہو سکے تو دہلی جا کر فوری طور پر امداد لانے کی کوشش کی جائے، ورنہ پاکستان جا کر ہتھیار ڈال دیے جائیں۔‘‘
یہ درست ہے کہ مہاراجہ پر دباؤ ڈال کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا لیے گئے مگر شیخ عبداللہ ہی کے بقول دستاویز میں مہاراجہ نے صرف خارجہ معاملات، رسل ورسائل اور دفاعی امور میں الحاق کیا تھا ۔ بھارت کے دوست شیخ عبداللہ نے خود لکھا ہے کہ ’’ماؤنٹ بیٹن نے گورنر جنرل کی حیثیّت سے الحاق منظور کرتے ہوئے،یہ مشہورِ زمانہ شرط لگادی جس نے کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ بنادیا۔
گورنر جنرل نے مہاراجہ کشمیر کو لکھا تھاکہ ’’میری حکومت ہندوستانی ڈومینین کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو اس اصول کے تحت قبول کرتی ہے کہ جس ریاست میں الحاق کا مسئلہ متنازعہ ہو، وہاں الحاق کا فیصلہ ریاستی عوام کی خواہش کے مطابق ہونا چاہیے۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ کشمیر میں جونہی امن وامان بحال ہو تو ریاست کے الحاق کا مسئلہ عوام کی رائے سے حل کیا جائے‘‘ یعنی جس طرح بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسے غلام بنالیا ہے اس طرح نہ مہاراجہ چاہتا تھا، نہ گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور نہ ہی عالمی ادارے۔
کشمیر میں فوج اتارنے کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ مصنّف لکھتا ہے،’’قریباً ایک سو جہازوں نے کشمیر میں فوج پہنچانے کا معرکہ سرانجام دیا۔27 اکتوبر کو پہلی سکھ رجمنٹ کے ساڑھے تین سو سپاہیوں کا دستہ صبح ساڑھے نو بجے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتر گیا۔
اگر صرف دو گھنٹوں کی دیر ہو جاتی تو ہوائی اڈہ دشمن کے قبضے میں چلا جاتا، پھر ہندوستانی جہازوں کا اترنا محال ہوجاتا اور کشمیر کو ہڑپ کرنے کا ہندوستان کا خواب چکنا چور ہوجاتا۔ بعض اوقات چند لمحے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ ان کے نتائج کئی نسلیں بھگتتی ہیں۔
اگر قبائلیوں کو دو گھنٹے مزید مل جاتے تو کشمیر کی تقدیر مختلف ہوتی۔ کشمیری دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ اُس تاریخ ساز مرحلے پر کشمیریوں کو شیخ عبداللہ کی نہیں غلام عباس یا سید علی گیلانی کی ضرورت تھی جو انھیں ہندوکی غلامی سے بچالیتے۔
شیخ عبداللہ نے کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے برعکس کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرانے میں مدد کی اور پاکستان کے خلاف تقریریں کرتا رہامگر اس کی تمام تر ’خدمات‘ کے باوجود پنڈت نہرو نے اسے گیارہ سال قید رکھا۔ اس کے بعد بھی ہندوستانی قیادت نے اسے کئی بار قید اور نظر بند کیا مگر وہ چونکہ اپنے لیے باقی دروازے بند کرچکا تھا، اس لیے کانگریس اور ہندؤں کے ہاتھوں زخم کھانے کے باوجود وہ انھی کی چوکھٹ پرسجدے کرتا رہا اور حسرتوں کی راکھ کریدتا رہا۔ قوم کے غداروں کا بالآخریہی انجام ہوتا ہے۔
شیخ عبداللہ کی خودنوشت سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کانگریس کی حمایت کرنے والے اور قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمان لیڈروں میں سے (چاہے وہ ابوالکلام آزاد ہوں، عبدالغفار خان یا شیخ عبداللہ) کوئی ایک بھی بھارتی حکومت اور ہندو لیڈروں کے رویے سے خوش یا مطمئن نہیں رہا۔ سبھی شکوہ کرتے اور زخم چاٹتے ہوئے نظر آتے رہے۔
علامہ اقبالؒ اور محمد علی جناحؒ کی بصیرت کو تاریخ نے درست ثابت کردیا کہ متحدہ ہندوستان میں زیادہ آبادی والے ہندو، مالک ہوں گے اور کم آبادی والے مسلمان غلام ہوںگے۔ کانگریسی ملاؤں کے شاگرد انھی کا بیانیہ دہراتے ہیں کہ اگر تمام مسلمان ہندوستان میں رہتے تو وہ ایک بڑی طاقت ہوتے اور ان کے حقوق محفوظ ہوتے۔
1947 میں پورے برصغیر کے مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی۔ آج ہندوستان میں تیس کروڑ مسلمان ہیں جو جانوروں سے بدتر زندگی گذاررہے ہیں کیونکہ وہ اُس اکثریت کے غلام ہیں جن کے پاس فوج اور پولیس کا کنٹرول ہے۔
کیا اکثریتی مسلم آبادی والے کشمیر میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہیں؟ کشمیر کو قبرستان میں بدل کر ہندو قیادت نے مولاناآزاد، شیخ عبداللہ، غفار خان اور دوسرے کانگریس کے ہمنوا مسلم لیڈروں کے بیانیے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔ اﷲتعالیٰ ہمیںاپنی نااہلیوں پر قابو پانے اور اپنے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی توفیق بخشے