آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے!…بیرسٹر حمید باشانی
ایسا کہنا ایک حیران کن بات تھی، اور میں جانتا تھا کہ یہ کہنا ایک حیران کن بات ہے۔ مگر کسی کو بھی حیران ہوئے بغیر زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ کسی کو بھی ناراض ہوئے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ کتاب پڑھنا کسی پر لازم نہیں۔ کسی پر اسے اٹھانا لازم نہیں۔ کسی کے لیے اسے کھولنا لازم نہیں۔ اگر آپ اسے کھولیں اور پڑھیں تو اس کو پسند کرنا آپ پر لازم نہیں۔ اور اگر آپ اسے پڑھیں، اور آپ اس کو نا پسند کریں تو آپ پر لازم نہیں کہ آپ خاموش رہیں۔ آپ اس کتاب کے بارے میں مجھے لکھ سکتے ہیں۔ آپ شکایت کر سکتے ہیں۔ آپ پبلشر کو لکھ سکتے ہیں۔ آپ اخبارات کو لکھ سکتے ہیں۔ آپ اس کتاب پر اپنی کتاب لکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ سارے کام کر سکتے ہیں، مگر یہاں پر آپ کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مجھے یہ کتاب لکھنے سے روک سکے۔ اس کتاب کو چھاپنے سے روکے۔ کسی کو یہ کتاب خریدنے، بیچنے اور پڑھنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ یہ الفاظ انگریز ادیب فلپ پلمین نے لکھنے، پڑھنے اور اظہار کے دیگر ذرائع کی حمایت کرتے ہوئے لکھے تھے۔ فلپ اور اس کے یہ الفاظ مجھے اس لیے یاد آئے کہ آج کل ہمارے ہاں آزادیٔ اظہارِ رائے پر بہت بات ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے کئی خطوط اور آن لائن پٹیشنز گردش کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ملک کے سو سے زائد نامور صحافیوں کے دستخطوں سے ایک پٹیشن انٹرنیٹ پر گردش کر رہی تھی، جس میں انہوں نے اظہار کی آزادی کے باب میں اپنی فکر مندی کا اظہار کیا تھا۔ کچھ دن پہلے علم و فضل کی دنیا یعنی اکیڈیمیا کی طرف سے بھی ایک ایسی ہی پٹیشن جاری ہوئی۔ اس پٹیشن میں انہوں نے یونیورسٹیز کے اندر درس و تدریس اور فکر کی آزادی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کچھ میڈیا گروپس کو شکوہ ہے کہ ان کی نشریات پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ کچھ اردو انگریزی کے نامور کالم نویس شکایت کرتے ہیں کہ ان کے کالم چھاپے نہیں گئے یا کاٹ دئیے گئے ہیں۔ یہ تو اظہارِ رائے کی آزادی پر واضح پابندی کی بات ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اظہار رائے پر پابندی کی ایک دوسری صورت بھی پائی جاتی ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی تو میسر ہوتی ہے۔ ملک کے آئین، قانون اور حکومتی پالیسیوں کے اندر رائے کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہوتی‘ لیکن ہمارے گرد و نواح میں پائے جانے والے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات میں اس حق کے استعمال کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کئی سماجی معاملات ایسے ہیں، جن پر بات کرنے کی ممانعت ہے۔ اس امتناع کا ہمیشہ کوئی قانونی، اخلاقی یا مذہبی جواز نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی ہم نے اس کو گفتگو کے لیے ممنوع قرار دیا ہوتا ہے۔ ہم نے کچھ موضوعات پر خاموش سمجھوتہ کیا ہوتا ہے یا خاموشی کی سازش کی ہوتی ہے۔ ہمارے اس طرح کے طرزِ عمل کی بے شمار مثالیں ہیں۔ اس کی ایک عام بہت ہی تازہ مثال جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مسئلہ ہے۔ اس باب میں ہم لوگ مدتوں خاموش رہے۔ اب کچھ لوگ بولنا شروع ہوئے تو کئی لوگوں کے لیے یہ حیرت کی بات ہے۔ سیاسی محاذ پر تو حقِ اظہارِ رائے کی ایک طویل اور درد ناک تاریخ ہے۔ پابندی کا پہلا شکار یونانی فلسفی سقراط تھا۔ سماجی اور معاشی اعتبار سے انتہائی پسماندہ یونانی جمہوریہ میں یہ حقِ آزادیٔ رائے کے سوال پر پہلا عالمی طور پر شہرت یافتہ مقدمہ تھا۔ سقراط یونانی دیوتائوں کے بارے میں ایک خاص فلسفیانہ رائے رکھتا تھا۔ چنانچہ ریاست نے اس پر الزام لگا دیا کہ یہ ہمارے خدائوں کو نہیں مانتا۔ یہ ایک سنگین الزام تھا۔ سقراط دہریہ نہیں تھا۔ وہ خدا کو مانتا تھا۔ لیکن وہ ان خدائوں کو نہیں مانتا تھا جو یونانی ریاست نے سرکاری سطح پر خدا قرار دے رکھے تھے۔ سقراط نے نوجوانوں کو فلسفہ اور منطق پڑھانی شروع کی۔ ان کو منطقی انداز میں سوچنے کے طریقے بتائے۔ نوجوانوں نے سرکار کے عقائد اور طرز زندگی سے انکار شروع کر دیا۔ ریاست نے الزام لگایا کہ یہ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے، ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس کی باتوں سے لوگ ریاست کی اطاعت کے بجائے بغاوت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ غرضیکہ سقراط پر لگائے گئے الزامات کا تعلق حقِ آزادیٔ رائے سے تھا۔ وہ اس حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی کر امر ہو گیا۔ مگر یہ سلسلہ وہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ وہاں سے شروع ہوا۔ آنے والے وقتوں میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ سقراط کی طرح اپنے اس حق کی خاطر قربان ہوئے۔ دنیا میں شائد ہی کوئی ایسی ریاست گزری ہو، جس کا دامن ایسے لوگوں کے خون کے دھبوں سے داغدار نہ ہو۔ اس طویل سلسلۂ عمل میں کچھ ریاستوں نے بہت سبق سیکھا۔ حقِ آزادیٔ رائے کو تسلیم کیا۔ اس حق کو آئینی تحفظ دیا۔ اپنے جمہوری کلچر کا حصہ بنا دیا۔ سوچ و فکر کی آزادی کا احترام شروع کیا۔ اپنی درس گاہوں میں اس سوچ کو پروان چڑھایا۔ اس وجہ سے ان ممالک میں سانئس، فلسفے اور ادب میں فکر و سوچ کے نئے زاویے سامنے آئے۔ اس کے برعکس بد قسمتی سے کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیں جو آج بھی قدیم یونانی ریاستوں کی طرح پرانی ڈگر پر چل رہی ہیں۔ وہ شعر، ادب اور فن سے لے کر سائنسی خیالات اور جدید فکر تک ہر ایک چیز سے خوفزدہ ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی موجود گی میں بھی فکر و سوچ کو سلب کرنے کے فرسودہ طریقوں اور ہتھکنڈوں پر یقین رکھتی ہیں۔
حقِ آزادیٔ رائے پر ایک طرح کی پابندی معاشی حالات کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ یعنی ایسے حالات جہاں اگر اس حق پر کوئی آئینی یا قانونی قدغن نہ ہو، پھر بھی عام آدمی اپنے معاشی حالات کی وجہ سے اس حق کے استعمال سے قاصر ہوتا ہے۔ میرا ایک روسی دوست زوٹوف یہ بات اکثر دہراتا رہتا ہے کہ سوویت دور میں ہمیں اظہارِ رائے کا حق حاصل نہیں تھا، اور اس کا ہمیں بہت دکھ تھا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد یہ حق تو ہمیں مل گیا، مگر دکھ یہ ہے کہ ہم اس کے استعمال کے قابل نہیں۔ برطانوی جمہوریت میں ہر کسی کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ لندن کے ہائیڈ پارک میں کھڑا ہو کر حکومت کے خلاف تقریر کر سکتا ہے، مگر وہ سامعین کہاں سے لائے گا۔ اگر کوئی متجسس سیاح یا اکتایا ہوا بے گھر آدمی اس کی تقریر سن بھی لے تو اس سے کیا فرق پڑھ جائے گا۔ ظاہر ہے ہائیڈ پارک میں بلند ہونے والی آواز کسی فیصلہ ساز تک نہیں پہنچتی۔ اس آواز سے کوئی مصیبت کم نہیں ہوتی۔ کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوتا۔ کوئی دکھ دور نہیں ہوتا۔ تو مسئلہ وسائل کا بھی ہے۔ اظہارِ رائے کے حق کے درست استعمال کے لیے وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتے‘ اور یہ کہانی ہے ہی عام آدمی کی۔ خواص کو اس باب میں ویسے بھی کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ نہ ریاست کو ان کی رائے سے گلہ ہوتا ہے، نہ ان کو ریاست سے کوئی شکوہ۔ چنانچہ جب تک انسان معاشی طور پر آزاد اور آسودہ حال نہیں، وہ اظہارِ رائے کے حق کو موثر طریقے سے استعمال نہیں کر سکتا۔ اب اتنی ساری پابندیوں اور مسائل کے باوجود اگر ریاست بھی درمیان میں کود پڑے، اور اظہارِ رائے کے اس حق کو محدود کرے جو ریاست کے آئین نے اپنے شہریوں کو دیا ہے تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں۔ یہ صرف ملکی آئین کی ہی پامالی نہیں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی خلاف ورزی بھی ہے، اور اس ڈیجیٹل دور میں خیالات و افکار کو روکنے کی سعی لا حاصل ہے۔ ویسے بھی کہنے والا اگر حرف حق کہہ رہا ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا، اور اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو زیادہ دور نہیں جا سکتا۔ بقول فیض:
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے