آخری عدالت سے عوامی عدالت تک….بابر اعوان
نصف شب کے قریب دروازہ کھلا اور وزیر اعظم اِن ویٹنگ عمران خان اندر آئے ۔ کہنے لگے: بابر جی آپ نے بہت مشکل جنگ لڑی ۔ اس جملے نے میرے ذہن میں 1996ء کا منظر نامہ ری پلے کر دیا ۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل رجسڑار کے کمرے میں قیدی اور وکیل آمنے سامنے براجمان تھے ۔ قیدی نے پوچھا: تمہارے دفتر کتنے ہیں ‘ سٹاف کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: تم نے بطور ملزم پنجاب میں پہلے کوئی مقدمہ لڑا ہے؟ کہنے لگا: نہیں۔ میں نے اُس سے پوچھا: وکیل کی آزادی کی کتنی فیس دے سکتے ہو ؟ ذہن ایک اور دریچے میں جا پہنچا ہے‘ جہاں میرا منشی چوہدری شبیر ہتھکڑیاں پہنے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں کھڑا ہے‘ ساتھ اس کا ہانڈی وال راجہ پرویز اشرف۔ ووٹ کو عزت دینے والوں کی وکالت کس قدر آسان ہے ‘ میں جیلس ہونے لگا ۔ جب آئو پیش ہو جائو جب چاہو پیش ہونے سے انکار کر دو‘ نہ کوئی پرچہ نہ گرفتاری ‘ نہ ٹیکس نوٹس نہ واجب القتل کا فتویٰ ‘ نہ صوبے کے چیف جسٹس کو قتل کرنے کا الزام ‘ نہ بندوبستی انکائونٹر ایکسپرٹ کا تعاقب ‘ نہ لائسنس کی معطلی ۔ فیس اس قدر کہ پانامہ چوروں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔
عمران خان کے گھر بنی گالہ میں چنیدہ مہمان کھانے پر مدعو تھے۔ الیکشن سے دو دن پہلے اسی کمرے میں انتخابی سروے زیر بحث رہے۔ فوج نے جیپ گروپ بنا دیا‘ جیپ والے دھاندلی کریں گے ۔ کرپشن پر موج کرنے والے فوج کی تعیناتی پر بھی معترض تھے ۔ اس کی دونوں اصلی وجوہات سندھ اور پنجاب میں سامنے آ گئیں ۔ سندھ میں جعلی ٹھپے ‘ جعلی بیلٹ پیپرز ‘ جعلی اے آر اوز پکڑے گئے ۔ پنجاب کے گندے نالے گٹروں کی گندگی کی بجائے قومی شناختی کارڈز اگلنے لگے۔
آئیے میں آپ سے ووٹ ڈالنے کا ذاتی تجربہ شیئر کرتا ہوں ۔ 25 جولائی کی صبح آٹھ بجے کے قریب میں‘ عبداللہ اور عبدالرحمٰن دوستوں کے ہمراہ گاڑیوں کے ایک چھوٹے کانوائے میں کہوٹہ کے لیے نکلے ۔ ایف ایٹ سے زیرو پوائنٹ سگنل فری ائیرپورٹ روڈ‘ جاپان روڈ ، لانس نائیک محفوظ شہید کے گائوں پنڈ ملکاں سے گزر کر ذیلدار ہائوس تک 35 منٹ لگے ۔ سڑک پر ٹریفک خال خال نظر آئی ۔ سہالہ سے جڑا ہوا میرا گائوں ہوتھلہ دو عدد وفاقی یونٹوں میں تقسیم ہے ۔ آزاد پتن کے ذریعے کشمیر جانے والی سڑک کے دائیں جانب چک کامدار‘ ڈھوک منشی ‘ آڑی سیداں ‘ ناڑا وغیرہ کے دیہات وفاقی دارالحکومت آئی سی ٹی کا حصہ ہیں ‘ جبکہ اس کے دائیں سائیڈ پر انہیں دیہات کا وسیب پنجاب کی تحصیل کہوٹہ میں واقع ہے ۔ میرا آبائی پولنگ سٹیشن گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول کے بڑے ہال میں تھا ۔ یہ آڈیٹوریم میں نے پرائیویٹ ذرائع سے تعمیر کروایا ۔ یونین کونسل آفس کے سامنے 22 کنال خاندانی زمین بنیادی ہیلتھ یونٹ کو دی جسے خادمِ اعلیٰ کے نازی ازم نے 10 سال چلنے نہ دیا ۔ بی ایچ یو اور یو سی آفس کے درمیان میرے دادا ذیلدار ملک ناموں خان اور اُن کے والد سرخرو خان اور دادا شیخ الحدیث محمد عمر کے مزار ہیں ‘ جہاں ہاڑ کے مہینے میں میلے لگتے ہیں۔
ہم سیدھے قبرستان پہنچے ‘ بزرگوں کے آستانے پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ پولنگ سٹیشن کے دروازے پر فوجی جوان مستعد کھڑا تھا ۔ ہم نے اسے گلے لگایا‘ سویلین انداز میں سلیوٹ کیا ۔ پتہ چلا جمہوری عمل کا یہ پاسبان ہمارے یار باش میجر عامر صاحب والے صوابی سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے زیادہ بات نہ کی۔ عبداللہ اور عبدالرحمٰن کہہ رہے تھے : ہمیں آپ پر فخر ہے‘ آپ پاکستان کا دفاعی حصار ہیں۔ دونوں نے جوان کو پھول تھمائے۔ میں آنکھوں میں مسرت کی نمی لے کر مردانہ پولنگ بوتھ پر جا پہنچا‘ جہاں لال سرخ چہرے والا 7 فٹا فوجی جوان موجود تھا ‘ اسے اُردو بالکل نہیں آتی تھی۔ جوان نے مجھ سے کارڈ طلب کیا ‘ پھر مجھے پولنگ بوتھ میں داخل ہونے کا اشارہ کیا ۔ میں نے اس کے چہرے پر نظر جمائی اور پوچھا: بلوچستان ‘ وہ کھِل کھلا کر ہنس پڑا۔ اسی سکول کی غربی دیوار عثمان پور موضع سے لگتی ہے ‘ جہاں ڈی ایچ اے اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ عثمان پور کا ایک کلاس فیلو جو ووٹ ڈال کر جا چکا تھا‘ میری آمد کا سن کا دوڑا ہوا واپس آیا۔ پھر ہماری واپسی تک ساتھ رہا ۔ پو لنگ سٹیشن میں قدم رکھتے ہی میں حیران ہو گیا ۔ جن لوگوں نے ووٹ ڈالا ہے انہیں پتہ ہے میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ جس ڈسپلن اور سہولت سے پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈالے گئے‘ ایسا تجربہ اس سے پہلے میرے حصے میں کبھی نہیں آیا ۔ آج 6 بجے بنی گالا کی میٹنگز میں لنچ کا وقفہ کیا ۔ عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگانے والوں کو اوپن آفر کر دی آئو جو حلقہ کہتے ہو تمہارے ساتھ مل کر اسے کھلوا دیتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی ٹرانسپیرنسی پر کمپرومائز کے لیے تیار نہیں۔ عوام کی عدالت کا فیصلہ آ گیا ہے ۔ دھاندلی والا حلقہ بتائو‘ دلی مراد پائو۔ لیکن سب جانتے ہیں مودی کے یار کی ہار پر بھارت سرکار کس قدر خوار ہو رہی ہے ۔ پاکستان میں انڈیا کے سارے مہرے پِٹ گئے ۔ میک اَپ والے ‘ ٹیک اَپ والے اور بریک اَپ والے بھی ۔ وہ جو تقدیس کی دُکان پر سیاسی گند بیچتے تھے ‘ وہ میچور کھلاڑیوںکے ہاتھوں پِٹ گئے ۔ مغربی بارڈر کے ٹریڈرز کے سارے بُرج اُلٹ گئے۔ صحیح معنوں میں سیاسی منظر میں تبد یلی آئی۔ کارروائی باز منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ۔ پہلے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عوامی عدالت نے مہرِ تصدیق لگا دی ہے ۔ نظامِ زر کے گماشتے تبدیلی کی للکار سے لرز رہے ہیں ۔ این جی اوز کے لے پالک کب چاہیں گے کہ ایٹمی پاکستان کامران ریاست کہلائے ‘ اور غریب غلام رہنے کی ریت تبدیل کر دیں۔
جہانِ کہنہ کے کند خنجر سے کٹنے والے غریب لوگو
تم اپنی ہڈیوں کا عرق دے کر نظامِ زر کو سنوارتے ہو
لہو پسینے سے عہدِ حاضر کا زرد چہرہ نکھارتے ہو
ستم ہے پھر بھی ضعیف و مردار زندگی تم گزارتے ہو
یہ اہلِ دانش جو کہہ رہے ہیں کہ ہے مقدر یہی تمہارا
نفع تو لونڈی ہے کچھ گھروں کی تمہارے حصوں میں بس خسارہ
انہیں بتا دو کہ انقلابِ عظیم ابھرا تھا اس زمیں پر
وہی ستارا دمک رہا ہے ہماری تاریخ کی جبیں پر
کہ چشمِ افلاک نے بغاوت کا ایک ایسا بھی طور دیکھا
ضعیف و مردار خستہ ڈھانچوں نے حکمرانی کا دور دیکھا
وہ انقلابِ عظیم پھر سے پکارتا ہے مزاج بدلو
کہ کل بھی بدلا تھا تم نے مل کر اسی طرح سے آج بدلو
غلام رہنے کی ریت بدلو‘ اداسیوں کا رواج بدلو
یہ وحشتوں کا‘ یہ نفرتوں کا‘ یہ ظلمتوں کا سماج بدلو
پولنگ سٹیشن کے دروازے پر فوجی جوان مستعد کھڑا تھا ۔ ہم نے اسے گلے لگایا‘ سویلین انداز میں سلیوٹ کیا ۔ پتہ چلا جمہوری عمل کا یہ پاسبان ہمارے یار باش میجر عامر صاحب والے صوابی سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے زیادہ بات نہ کی۔ عبداللہ اور عبدالرحمٰن کہہ رہے تھے : ہمیں آپ پر فخر ہے‘ آپ پاکستان کا دفاعی حصار ہیں۔ دونوں نے جوان کو پھول تھمائے۔