آدمی کے خون میں شیروں سے لڑنے کی ترنگ…..بابر اعوان
بات بڑی سیدھی ہے۔ سب کے سامنے کی۔ نامور اینکر حضرات کا جتھہ۔ بہت سے بڑے اخبارات۔ الیکشن دنگل 2018ء میں شریک سیاسی پارٹیاں۔ معروف قلم کار، بڑے بڑے سیٹھ، بینکار، 25 جولائی والے الیکشن میں ہم آواز ہو کر کس کے ساتھ کھڑے ہیں، اور میدانِ سیاست کا اکیلا شہسوار کون ہے جو ان سب کے مقابل تنِ تنہا ڈٹا ہے‘ ہٹا نہیں۔ کیا اب عمران خان کا نام لینے کی بھی ضرورت باقی ہے؟۔
کاروبارِ سیاست کی پاکیزہ گدی شریف کے صالح امیدوار مسلمان بھائیوں کو ہی دیکھ لیں۔ یحییٰ خان کے دور سے لے کر بُش کے بڈی جنرل مُش کی ہڈی تک کِس مُقتدر کے خوانِ اقتدار کی مزے دار دیگیں ان کے دستِ دراز سے بچ پائیں؟ قیامِ پاکستان کے سکّہ بند مخالفین کے ایزی لوڈ بچونگڑے۔ ساتھ ایسے بے شمار دوسرے لشکر بھی موجودہ الیکشن میں شریف گھاٹ کا نائو نوش دل و جگر کی فرحت کے لیے استعمال کرتے پکڑے گئے۔ انفرادی طور پر دیکھیں تو عمران خان نے ان سب میں سے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ نہ وہ کسی کا بزنس پارٹنر تھا نہ کاروباری حریف نہ ہی ذاتی مخالف۔ کامن سینس کہتی ہے‘ پھر کوئی بات تو ہے جس نے اتنے مطلب پرست، جاہ پرست ،سزا یافتہ مجرموں کے تحفظ کے لیے اکٹھے کھڑے کر دئیے۔ آپ کی سہولت کے لیے سوال میں نے اُٹھایا ہے۔ جواب، آپ کا حسنِ خیال تلاش کرے۔
اگلے روز ہائوس آف فیڈریشن میں بھی یہی منظر تھا۔ پسِ منظر سے نکل کر میثاقِ جمہوریت پیش منظر تک چھا گیا۔ ہمارے دوست کامریڈ رضا ربانی انتخابی دھاندلیوں پر بول رہے تھے۔ جنرل ضیاء کے اوپننگ بیٹسمین اور میرے گرائیں محترم ظفرالحق صاحب چیئرمین سینیٹ سے کہنے لگے: انھیں بولنے کا فالتو وقت دیا جائے۔ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
وہ دونوں خوش بخت سیاسی جماعتیں‘ جو ملک کے 4 صوبوں میں سے 2 بڑے صوبوں میں سیاہ و سفید کی مالک تھیں۔ وہ بھی مسلسل 10 سال کی حکمرانی۔ دونوںکو الیکشن میں دھاندلی نظر آ گئی۔ اتنی لمبی حکمرانی اس سے پہلے یا فیلڈ مارشل ایوب خان کے حصے میں آئی‘ 10 سال کے لیے۔ یا پھر 11 سال تک اقتدار کا یہ ہُما جنرل ضیا کے پنجرے میں بند رہا۔ فلور آف سینیٹ پہ سب سے دلچسپ بات مگر الیکشن کمیشن کے بارے میں کہی گئی۔ دونوں جماعتوں کے سرخیل ہم آواز ہو کر بولے: الیکشن کمیشن ناکام ہو گیا۔ ارے دوستو… کون نہیں جانتا‘ موجودہ الیکشن کمیشن کی تعیناتی بلا شرکتِ غیر ے انہی دونوں پارٹیوں نے کی۔ اس عرصے میں پی ٹی آئی اقتدار اور پارلیمان دونوں سے کوسوں دور احتجاج نگر کی باسی تھی۔ صرف عمران خان کے خلاف 32 ایف آئی آرز۔ ماڈل ٹائون قتلِ عام، دھرنے، جلسے، جلوس، لاک اَپ، سول نافرمانی کے مرحلے درپیش تھے۔ وہاں بھی ایک اکیلا عمران خان۔ باقی سارے تب بھی پارلیمنٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے تھے۔ نہ اس پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے سامنے گرنے والی 7 لاشوں پر صدائے احتجاج بلند کی‘ نہ ہی پارلیمان نے ماڈل ٹائون کے 14 نہتے شہدا کے حق میں فاتحہ خوانی کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔ یہ سب تب بھی اور اب بھی بد بودار مفاہمت ہے۔ میثاقِ جمہوریت نہیں‘ مذاقِ جمہوریت اور توہینِ آدمیت بھی۔ کون نہیں جانتا دشمن ملکوں میں بھی روایت ہمیشہ سے چلی آتی ہے‘ نہتے مارے جانے والوں (Collateral damage) پر اظہارِ افسوس کی۔ مگر قومی امنگوں کی دعوے دار پارلیمنٹ سے مرنے والے پاکستانیوں کے حق میں اتنا بھی نہ ہو سکا‘ جتنا دشمن ملک کے قاتل کرتے ہیں۔
شواہد بتاتے ہیں‘ میثاقِ جمہوریت، نیا عمرانی معاہدہ، ووٹ کو عزت دو ایک ہی بَھٹّے کی اینٹیں ہیں۔ وہ بَھٹہ جو ساون کی پہلی بارش میں ہی بیٹھ گیا۔ دو دن بعد رہی سہی کسر نکل جائے گی۔
اسی تناظر میں 24 گھنٹے پہلے 3 اہم عدالتی کارروائیاں ہوئیں۔ پہلی انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت میں۔ جس پر سب سے نا معقول تبصرہ ایل این جی کا نا مقبول قطری معاہدہ کرنے والے نے کیا۔ نگران سے بھی گیا گزرا۔ دربان نما سابق وزیر اعظم بولا: ملزم کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ بے چارا الیکشن مہم کا مارا یہ بھول گیا کہ یہ مقدمہ سات سال تک زیرِ سماعت رہا۔ دوسری کارروائی الیکشن کمیشن میں ہوئی‘ جہاں سیاسی شخصیات کی زبان دانی کا جائزہ لیا جا رہا رہے۔ تیسری کارروائی ایف آئی اے کا چالان ہے‘ جس میں ہمارے سابق صدر اور اُن کی ہمشیرہ کو مفرور لکھا گیا ہے۔ ایک اور کارروائی شیروں کے سمدھی ڈالر مین کی گرفتاری‘ پاکستان واپسی کے لیے جاری ہونے والا ریڈ وارنٹ ہے۔ قانون کی بالا دستی کے اس ماحول کو مروجہ جمہوریت کا کون سا قانون شکن چیمپئن پسند کرے گا۔ سب جانتے ہیں‘ اگر تبدیلی آ گئی۔ عمران خان وزیرِ اعظم ہو گیا۔ اس عدلیہ اور متبادل میڈیا کی موجودگی میں۔ وائٹ کالر کرائم کے متاثرین اور اُن کے ”گُرو‘‘ میثاقِ جمہوریت نہیں کریں گے تو پھر کیا کریں گے؟۔
بات ہو رہی ہے میڈیا کی کارگزاریوں کی۔ ساتھ مذاقِ جمہوریت کے لیے ”مُوڈ بنائو‘‘ والے سیاسی ضرورت مندوں کی۔ شور مچا کر دھاندلی کا شورکرنے والے اندر سے خود ”ووٹ چور‘‘ نکل آئے۔ پہلی چوری سوشل میڈیا نے پکڑی‘ پھر الیکشن کمشن نے۔ جہاں سانگھڑ اور سیون شریف میں سابق وزیرِ اعلیٰ کے حلقے میں دو عدد اے آر او پوسٹر بیلٹ کھول کر ان پر وڈے سائیں کی مہریں لگاتے گرفتار ہو گئے۔ مراد علی شاہ کے حلقے پی ایس 80 میں دو نامراد دھاندلی باز پکڑے گئے۔ ان دونوں نے 2 سو سے زائد جعلی ٹھپے لگائے ۔ یہ بیلٹ پیپر برآمد ہو گئے ۔ 15 بیلٹ پیپر پراسرار طور پر غائب کر دیے گئے ۔ اس الزام میں ایک پوسٹ مین اور دو سیاسی بھرتی والے ٹیچر بھی پکڑے گئے۔
دھاندلی کی دوسری واردات۔ ووٹ کو عزت دینے والے لوہے کے چنے کے حلقہ این اے131 لاہور میں ٹی وی رپورٹرز نے کھوج ڈالی‘ جہاں ایک گھر میں‘ جس کے 5 افراد اکٹھے رہتے ہیں‘ 11 عدد فالتو ووٹ بنوائے گئے۔ اہلِ خانہ اس بوگس الیون کو جانتے تک نہیں۔ اب آپ ہی ان کی ادائوں پر غور کریں۔ چور مچائے شور کے ایسے ثبوت اتفاق سے پکڑے گئے‘ ورنہ اور کہاں کہاں کس گھرانے میں ووٹ کو عزت دی جا رہی ہے ۔ کسے معلوم ؟ دو دن اور گزر جائیں تو منظر اور ہو گا۔
کیا کہیں، کس سے کہیں، اس دور میں کیا کیا ہوا
مختصر یہ ہے جو کچھ بھی ہوا اچھا ہوا
کچھ سویرے کالی راتوں میں بھٹک کر رہ گئے
کچھ مسافر برسرِ منزل ٹھٹک کر رہ گئے
بادلوں کا غولِ آوارہ اُفق پر چھا گیا!
ٹوڈی بچوں کو غریبوں کا لہو، راس آ گیا
یار لوگوں کو شکایت تھی کہ نافرمان لوگ!
خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ
زاغ کی اُولاد شاخوں پر غزل خوانی کرے
نیل گائے شیر کے بچوں کی نگرانی کرے!
آدمی کے خون میں شیروں سے لڑنے کی ترنگ
پا برہنہ قافلوں کو تاجِ شاہی کی اُمنگ…
ہاں مگر دنیا نے دیکھا یہ غضب ہو کے رہا
انقلابِ حال کے ہاتھوں نیا منظر کُھلا