آرمی ایکٹ ترمیمی بل….کنور دلشاد
پیر کے روز قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیم کا بل منظور کرلیا۔یہ ترمیمی بل گزشتہ ہفتے سینیٹ سے منظور ہوا تھا۔ اس بل کے تحت ملک یا فوج کے حوالے سے حساس معلومات افشا کرنے والے کو پانچ سال جیل کی سزا ہوگی جبکہ وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی کہ بل کی کسی بھی شق کا اطلاق سویلینز پر نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور اس قانون سازی کا نفاذ اس کیس پر بھی نہیں ہوگا‘ یہ بل ماضی کے طرز کا نہیں ہوگا۔وزیرقانون نے یہ بھی بتایاکہ دُہری شہریت رکھنے والے افواجِ پاکستان میں شمولیت اختیار نہیں کرسکیں گے۔ جب آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023ء اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ایوان میں اراکین کی قلیل تعداد موجود تھی۔ گزشتہ ہفتے ایوانِ بالا میں سینیٹرز نے پہلے اس بل پر تنقید کی تھی؛ تاہم پھر کثرتِ رائے سے یہ بل منظور کرلیا گیا۔
اس بل کی منظوری سے ملک اور افواجِ پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی بھی طرح کے شرانگیز اور منافرت پر مبنی اقدام کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔مذکورہ بل کے تحت پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں مجموعی طور پر 18 ترامیم پیش کی گئی تھیں۔بل کے متن کے مطابق سرکاری حیثیت میں پاکستان کی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو پانچ سال تک قید با مشقت کی سزا دی جائے گی۔بل کے مطابق آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے انکشاف کرنے والے کو سزا نہیں ہوگی۔ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء اور آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت نمٹا جائے گا۔اس قانون کے ماتحت شخص سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ متعلقہ شخص ریٹائرمنٹ‘ استعفیٰ‘ برطرفی کے دو برس بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گاجبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات شخص پانچ سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو دو سال تک سخت سزا ہو گی۔آرمی ایکٹ کے تحت اگر کوئی شخص کسی ایسے الیکٹرانک کرائم میں ملوث ہو جس کا مقصد پاک فوج کو بدنام کرنا ہو تو اس کے خلاف الیکٹرانک کرائم کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ترمیمی بل کے تحت اگر کوئی شخص فوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت انگریزی پھیلائے تو اسے دو سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج پر کنٹرول وفاقی حکومت کا ہو گا جبکہ آرمی چیف اس کے انتظامی معاملات دیکھیں گے۔ آرمی چیف کو اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں اپنے ماتحت کسی افسر کو تفویض کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم سے افواجِ پاکستان اور ملکی مفادات کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے سنسنی خیز مواد پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ آرمی‘ عدلیہ اور حساس ترین اداروں کی تضحیک کرنے والے افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے پہلے ہی آئین میں واضح شقیں موجود ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 63(ون) (جی) بھی ایسے افراد کے خلاف کارروائی کے حوالے سے رہنمائی کرتا ہے‘ اس آرٹیکل کے تحت بھی آرمی ایکٹ میں ترامیم کر کے اسے مزید فعال بنایا جا سکتا ہے۔
سیاست کے شعبے کے حوالے سے بھی ایسے قوانین متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ بیشتر سیاسی شخصیات اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ایسے ایسے بیانات دیتی ہیں کہ جن سے نہ صرف عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات ملکی مفادات کو سنگین خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کی عمارت ہی ایسے متنازع بیانات اور بیانیوں پر استوار کرتی ہیں جن سے ریاستی مفادات خطرات سے دوچار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سیاست کے شعبے میں موجود ایسے عناصر کا احتساب کرے۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایسے اختیارات تفویض کیے جائیں کہ جو سیاسی پارٹی آئین کے آرٹیکل (A) 2 کے دائرہ کار سے نکل کر سیاست کرے‘ آئین کی اس شق سے متصادم اپنا منشور پیش کرے اور ریاستی مفادات کو نقصان پہنچائے‘ اس کے خلاف تادیبی کارروائی کا الیکشن کمیشن کا مکمل اختیار دیا جائے۔بھارتی الیکشن کمیشن اس طرح کے معاملات میں کارروائی کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر بااختیار ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن ریاست کے ”سیکولر نظریات‘‘ کا محافظ بھی ہے ۔ الیکشن کمیشن کو بھارت میں ”سیکولر نظریہ‘‘ کے خلاف کام کرنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ وہ کسی بھی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے لیے وزارتِ داخلہ کا محتاج نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں ازخود نوٹس لینے کا مجاز ہے۔
جیسے جیسے پی ڈی ایم حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے‘ ویسے ویسے نگران وزیراعظم کے حوالے سے قیاس آرائیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ شنید ہے کہ متعلقہ حلقوں میں نگران وزیراعظم کا نام شارٹ لسٹ ہونے کے آخری مراحل میں ہے اور ایک ایسی شخصیت کو نگران وزیراعظم کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے جو انتظامی‘ مالیاتی اور سکیورٹی امور میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابلِ قبول ہو‘ جس کی پاکستان سے وابستگی مثالی ہو اور جسے پاکستان کے انتخابی عمل کا بخوبی اندازہ ہو۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے پانچ ناموں کو شارٹ لسٹ کر لیا گیا ہے جبکہ کوئی ایک نام ایک ہفتے کے اندر اندر فائنل کر لیا جائے گا۔ خواجہ آصف کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے کسی سیاستدان کو منتخب کیا جائے گا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے پانچ نام ان سے شیئر کر لیے گئے ہیں۔ ممکن ہے ان پانچ ناموں میں سے کوئی ایک نام آٹھ اگست تک فائنل ہو جائے۔
1973ء کے آئین میں نگران حکومت سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں عام انتخابات سے قبل نگران حکومت بنانے اور اس نگران حکومت کی سربراہی میں نئے انتخابات کرانے کا تصور 1977ء کے بعد سامنے آیا جب بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد نے تحریک شروع کی اور 1977ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے سات مارچ 1977ء کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا اور ازسرنو انتخابات نوے روز میں کرانے کا عندیہ دیا تو قومی اتحاد کے رہنماؤں نے وزیراعظم بھٹو کی انتظامیہ کی نگرانی میں انتخابات کرانے سے انکار کر دیا اور ایک نگران سیٹ اَپ بنانے کا مطالبہ کیا جسے وزیراعظم بھٹو نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے طریقہ کار کو اپنایا گیا تو ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد تصور کیا جائے گا‘ لیکن اس ساری مشق کا منطقی نتیجہ پانچ جولائی کی صورت میں نکلا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے آٹھ سال بعد 1985ء میں ہونے والے ملک کے تیسرے عام انتخابات‘ جو غیر جماعتی تھے‘ کا انعقاد کسی نگران حکومت کے بجائے صدر کی نگرانی میں ہوا۔ 1988ء میں ہونے والے پاکستان کے چوتھے عام انتخابات بھی صدر غلام اسحاق خان کی حکومت کی نگرانی میں ہوئے۔ ملک کے پہلے نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی تھے جنہوں نے چھ اگست 1990ء سے لے کر چھ نومبر 1990ء تک نگران حکومت کی سربراہی کی اور ان کی زیرِ نگرانی 1990ء میں پاکستان کے پانچویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا‘ انتخابات کے بعد میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم بنے۔