زیادہ پرانی بات نہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو لندن میں بیٹھے ایک صاحب کنٹرول کیا کرتے تھے۔ وہ جب چاہتے کراچی کو بند کر دیتے۔ جب چاہتے کھول دیتے۔ کسی اخبار میں اُن کے خلاف کوئی خبر شائع ہو جاتی تو اخبار کی کم بختی آ جاتی۔ کسی ٹی وی چینل پر اُنہیں اپنے بارے میں کہی گئی کوئی بات اچھی نہ لگتی تو کراچی میں وہ چینل بند ہو جاتا۔ لندن میں بیٹھے ان صاحب کو پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف کی مکمل آشیر باد حاصل تھی لہٰذا مشرف صاحب یا ان لندن والے صاحب پر تنقید کا مطلب پاکستان پر تنقید لیا جاتا تھا۔ مشرف کے دور حکومت میں ان کے منظور نظر یہ لندن والے صاحب نئی دہلی گئے اور انہوں نے وہاں پاکستان کے خلاف ایک تقریر کر ڈالی۔ اس تقریر کی ویڈیو میرے پاس پہنچی تو بڑی پریشانی ہوئی کہ پاکستان کی حکومت میں شامل ایک جماعت کے قائد نئی دہلی جا کر تقسیم ہند کو تاریخ انسانی کا ایک بہت بڑا المیہ قرار دے رہے ہیں۔ اس ناچیز نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں عمران خان اور بابر غوری کو مدعو کیا اور نئی دہلی میں پاکستان کے خلاف کی جانے والی تقریر کا ایک کلپ چلا کر اس پر بحث شروع کر دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جلا وطن تھے۔ پاکستان میں مشرف حکومت پر تنقید کی ذمہ داری عمران خان ادا کر رہے تھے لہٰذا اُنہوں نے
نئی دہلی میں پاکستان مخالف تقریر پر مشرف حکومت کو خوب رگڑا۔ بابر غوری بھرپور کوشش کے باوجود اپنے قائد کا کوئی دفاع نہ کر سکے۔ میرے اس پروگرام پر مشرف صاحب بہت ناراض ہوئے۔ سب سے پہلے تو کراچی کے مختلف علاقوں میں جیو نیوز کو بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ آپ لندن جا کر قائد تحریک سے معذرت کریں۔ میں نے انکار کیا تو اس دوران سیاست میں خفیہ اداروں کے کردار پر بحث کی پاداش میں پیمرا نے مجھے ایک نوٹس جاری کر دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پیمرا کو بھی لندن سے چلایا جا رہا ہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد کراچی میں 12مئی 2007ء کا قتل عام ہوا۔ اتفاق سے اُس دن بھی عمران خان کیپٹل ٹاک میں بیٹھے کراچی میں قتل عام کی ذمہ داری لندن والے صاحب پر ڈال رہے تھے۔ 12مئی کے قتل عام کے بعد مشرف نے ٹی وی کیمروں کے سامنے مکے لہرائے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3نومبر 2007ء کو آئین معطل کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر پابندی لگا دی۔ کچھ دنوں بعد ٹی وی چینلز پر سے پابندی ہٹا لی گئی لیکن مجھ سمیت چھ ٹی وی اینکرز پر پابندی برقرار رہی۔ یہ پابندی 2008ء کے انتخابات کے بعد آصف زرداری اور نواز شریف کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد ختم ہوئی تھی لیکن کراچی کے صحافیوں پر خوف کی تلوار بدستور لٹکتی رہی۔ لندن میں بیٹھے صاحب ٹیلی فون پر تقریروں کے بہت شوقین تھے اور کئی مرتبہ انہوں نے اپنی تقریروں میں سیاستدانوں اور مجھ جیسے صحافیوں کو گالیوں سے نوازا۔ جو چینل ان کی تقریر نشر نہ کرتا اُسے کراچی اور حیدرآباد میں بند کرا دیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی اُن کی فرمائش پر کچھ اینکرز کو زبردستی چھٹی پر بھی بھیج دیا جاتا۔ یہ سلسلہ 2013ءتک چلتا رہا۔ 2013ءمیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے علاوہ تمام اہم سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے کراچی میں ایک آپریشن شروع ہوا اور آہستہ آہستہ کراچی کو خوف کی فضا سے نکالنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ خوف کراچی سے کافی حد تک ختم ہو گیا لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں پھیلنے لگا۔
2013ءتک پاکستان کا میڈیا براہِ راست حملوں، دھمکیوں اور سنسر شپ کی زد میں تھا۔ 2013ء کے پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 159واں اور بھارت کا 140واں تھا۔ 2016ء میں پاکستان 146ویں نمبر پر آیا اور 2018ء میں پاکستان 139ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی پوزیشن میں بہتری کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل اور اغوا کے واقعات کم ہو گئے ہیں۔ اب کسی صحافی کو گولیاں مارنے کے بجائے نامعلوم افراد سے پھینٹی لگوا دی جاتی ہے۔ کارکن صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے ٹی وی چینلز کے مالکان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اُنہیں قابو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ مالکان غیر اعلانیہ سنسر شپ پر آمادگی ظاہر کر دیتے ہیں۔ اگلے روز ساہیوال میں مریم نواز صاحبہ اپنی تقریر میں سنسر شپ پر احتجاج کر رہی تھیں حالانکہ جیو نیوز سمیت کئی اہم چینلز اپنی معمول کی نشریات معطل کر کے اُن کی اس تقریر کو لائیو نشر کر رہے تھے۔
مریم نواز صاحبہ ایک ایسے دور میں سنسر شپ کی شکایت کر رہی ہیں جب مرکز اور پنجاب میں اُن کی اپنی ہی جماعت حکومت کر رہی ہے اور وہ جب چاہتی ہیں اپنے کسی منظور نظر کو وزیر بنوا لیتی ہیں جب چاہیں کسی وزیر مملکت کو وفاقی وزیر کا درجہ دلوا دیتی ہیں لیکن یہ بتانے کے لئے تیار نہیں کہ اُن کی اپنی ہی حکومت میں سنسر شپ کا ذمہ دار کون ہے؟ ابھی چند ہی روز قبل وزیر مملکت مریم اورنگ زیب صاحبہ نے سیکرٹری انفارمیشن کی موجودگی میں مجھے کہا کہ 25نومبر 2017ء کو پاکستان میں تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بندش کا فیصلہ اُنہوں نے کیا تھا۔ یہ وہ کام تھا جو نومبر 2007ء میں مشرف حکومت نے کیا اور نومبر 2017ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کیا۔ تمام چینلز کو ایک ایگزیکٹو آرڈر سے بند کرانے والی جماعت کی قیادت آج سنسر شپ کا رونا روتی نظر آتی ہے۔ غیر اعلانیہ سنسر شپ کل بھی ایک حقیقت تھی اور آج بھی ایک حقیقت ہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے نومبر 2017ء میں پاکستان کے میڈیا پر اعلانیہ سنسر شپ لگایا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے گزارش ہے کہ آپ غیر اعلانیہ سنسر شپ کی مذمت ضرور کریں لیکن مذمت سے پہلے اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا اعتراف بھی کریں۔ آپ کی غلطیوں نے جمہوریت اور صحافت دونوں کو کمزور کیا ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز جب پاکستان میں نہیں تھے تو ہم اُس وقت بھی سنسر شپ کا مقابلہ کر رہے تھے آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن نواز شریف بتائیں اُنہوں نے آزادیٔ صحافت کو تحفظ دینے کے لئے کون سے اقدامات اٹھائے؟ 2014ء میں مجھ پر کراچی میں حملہ ہوا۔ وہ اسپتال میں مجھے دیکھنے آئے اور واپس جا کر جیو پر غداری کا ریفرنس دائر کر دیا اس کے باوجود مجھ سمیت جیو کے اکثر صحافیوں نے عمران خان کے دھرنے میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا ساتھ دیا۔ ڈان لیکس کا معاملہ آیا تو نواز شریف حکومت نے بغیر کسی مقدمے اور انکوائری کے سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جب ہم سڑکوں پر آئے تو سیرل کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔ نواز شریف نے اپنی حکومت بچانے کے لئے پرویز رشید اور طارق فاطمی سے استعفے لے گئے۔ رائو تحسین کو بغیر ثبوت نوکری سے نکال دیا اور جب نواز شریف کو عدالت نے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا تو وہ ہر تقریر میں پوچھنے لگے مجھے کیوں نکالا؟ میری ناقص رائے میں نواز شریف کسی دن رائو تحسین کو بلا لیں تو وہ بتائیں گے مجھے کیوں نکالا؟ قصہ مختصر یہ کہ 3مئی آزادیٔ صحافت کا عالمی دن ہے۔ پاکستانی صحافت آج بہت سے خطرات سے دوچار ہے۔ ان خطرات کے مقابلے کے لئے صحافیوں کو متحد ہو کر آئین کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں کسی ایک فرد، ادارے یا جماعت کا نہیں بلکہ صرف اور صرف عوام کا ترجمان بننا ہے۔ ہمیں مگرمچھوں کے آنسوئوں کے بجائے عوام کے آنسوئوں کا خیال کرنا ہے۔