آزادی رائے، آئینی پابندیاں اور غیر قانونی زبان بندی….انصار عباسی
آئین کا آرٹیکل 19 آزادی رائے سے متعلق ہے۔ اس آئینی شق کے مطابق میڈیا سمیت پاکستان کے ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہو گا لیکن یہ آزادی مادر پدر نہیں بلکہ قانونی پابندیوں کے تابع ہے۔ ان پابندیوں میں اس آئینی شق میں اسلام کی عظمت، پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد ، توہین عدالت، اشتعال انگیزی کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ پیمرا قانون جو پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور کیبل کو ریگولیٹ کرتا ہے، کے مطابق میڈیا پابند ہو گا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان کے قومی، ثقافتی، معاشرتی اوردینی روایات اور اصولوں کا تحفظ کیا جائیگا اور کوئی بھی ایسا اشتہار یا پروگرام نشر نہیں کیا جائے گا جو فحاشی و عریانیت پھیلائے یا معاشرہ میں قائم شائستگی کے اصولوں کو پامال کرے۔ میڈیا کو کسی کی پگڑی اچھالنے، جھوٹے الزامات نشر کرنے، معاشرہ میں نفرت پھیلانے یا اشتعال انگیزی کی بھی اجازت نہیں۔ عملاً جو ہو رہا ہے وہ آئین اور قانون دونوں کی خلاف ورزی ہے اور خلاف ورزی میں ٹی وی چینلز پیش پیش ہیں۔ میرا تعلق پرنٹ میڈیا سے اور ہمیں شروع سے ہی یہ بتایا گیا کہ خبر لکھتے وقت اُن حدود و قیود کا خیال رکھا جائے جو
آئین پاکستان اور قانون ہم پر لاگو کرتا ہے۔ لیکن جب سے پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور براہ راست ٹاک شوز اور براہ راست سیاسی تقریروں کے رواج نے یہاں جنم لیا، اُس وقت سے آئینی و قانونی پابندیاں ہوا میں اُڑا دی گئیں اور اس کی بڑی وجہ کمزور اور نااہل ریگولیٹر رہا۔ ٹی وی دیکھنے والے گواہ ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے جس اینکر کا دل چاہا بغیر کسی ڈر اور خوف کے کسی کی بھی پگڑی اچھال دے، اشتعال انگیزی پھیلانے اور دوسروں کی زندگی کو خطرہ میں ڈالنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی، ججوں کا مذاق اڑانے کی بھی آزادی دے دی گئی، جبکہ فوج کو بھی جس نے جس طرح چاہا ہدف تنقید بنایا۔ چینلز کو جھوٹے سچے الزامات لگانے کا بھی ذریعہ بنا دیا گیا، سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنا اور اُنہیں چور ڈاکو کہنا اور گالی تک دینا تو ایک ایسا شغل بن کیا جس پر کبھی کسی کو اعتراض نہ ہوا۔لیکن ایک سنگین خلاف ورزی جو قانونی بھی ہے اور آئینی بھی اُس کا تعلق اسلام، اسلامی تعلیمات، دینی و معاشرتی اخلاقیات سے ہے جس کی تو ایسا محسوس ہوتا ہے سب نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ فحاشی و عریانیت کے ذریعے جس طرح ہمارے دینی و معاشرتی اقدار کو تار تار کیا جا رہا ہے اور جس طرح اسلامی تعلیمات کی ٹی وی چینلز کے ذریعے سر عام خلاف ورزی کی جاتی ہے، اُس پر تو جیسے کسی کو کوئی پریشانی ہی نہیں۔ کوئی عدلیہ مخالف تقریر کرے یا ملک کی سلامتی اور دفاع کے خلاف بات کرے (جنہیں چینلز نشر نہ کرنے کے پابند ہیں) تو کئی بار ایسی تقریر کرنے والے کے خلاف ایکشن لے لیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے خلاف ریڈ لائنز کراس ہوں تو وہ خود اس معاملہ میں مداخلت کر کے فوری ہدایات بھی جاری کرتی رہتی ہے، توہین عدالت کے قانون کے تحت کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ جب دفاع اور فوج اپنے خلاف کوئی بات محسوس کرتے ہیں تو وہ بھی ایکشن میں آتے ہیں اور بعض اوقات کچھ ایسا بھی کر دیا جاتا ہے جو قانونی دائرہ کار سے باہر ہوتا ہے۔ سیاستدانوں اور دوسرے افراد کی پگڑیاں اچھالنے پر ہتک عزت کے قانون کے تحت کارروائی عمل میں بھی لائی جاسکتی ہے اگرچہ ایسے کیسوں کا فیصلہ کبھی نہیں ہوتا۔ لیکن اسلامی اقدار کو نشانہ بنانے اور فحاشی و عریانیت کو پھیلانے والوں کے خلاف کون اُس انداز میں ایکشن لے گا جس کا اطلاق ہم فوج اور عدلیہ سے متعلق خلاف ورزی کے موقع پر دیکھتے ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی خلاف ورزیاں نہ کرے لیکن اگر ٹی وی چینلز باز نہیں آتے تو اس پر پیمرا کا فرض بنتا ہے کہ ریگولیٹر کا کردار ادا کرے قانون توڑنے والوں کو سزا دے۔ اگر پیمرا ایسا نہیں کرتا (اور وہ ایسا نہیں کر رہا) تو حکومت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ بلکہ اس ملک کے ہر فرد کا فرض بنتا ہے کہ اپنی اپنی بساط کے مطابق اسلامی تعلیمات اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ ان خلاف ورزیوں پر ہم تماشائی نہیں بن سکتے۔ یاد رکھیں ہماری یہ خاموشی، ہماری یہ لاتعلقی، ہماری یہ بے فکری ہماری نسلوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین کی شق 19 پر جزوی نہیں بلکہ مکمل عمل کیا جائے اور کرایا جائے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایاجائے کہ کہیں کوئی مثبت اور قانون کے دائرے میں رہ کر تنقید کرنے والوں کی غیر قانونی زبان بندی تو نہیں کر رہا۔