آسٹریلیا کے ووٹر اور بیرونِ ملک پاکستانی ووٹر….خالد مسعود خان
آسٹریلیا کی کل آبادی اڑھائی کروڑ جبکہ رقبہ ستر لاکھ مربع کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ آسٹریلیا کی فی مربع کلو میٹر آبادی 3.3 نفوس ہے۔ یہ آبادی کے حساب سے دنیا میں چوّن نمبر پر جبکہ رقبہ کے اعتبار سے یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میںپاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور رقبے کے اعتبار سے اس کا نمبر 33 واں ہے۔ پاکستان میں فی مربع کلو میٹر آبادی 245 نفوس ہے۔ پاکستان فی مربع کلو میٹر آبادی کی لسٹ میں 59 ویں جبکہ آسٹریلیا235 ویں نمبر پر ہے۔ لیکن ساری معلومات وہ ہیں جو کہیں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ آج کل الیکشن کا موسم ہے اس لئے میں نے اس حوالے سے آسٹریلیا کی کچھ چیزوں کا جائزہ لیا ہے۔
آسٹریلیا کی آبادی میںسے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ اب آسٹریلیا میں وہ کچھ ممکن نہیں جو پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں 2013ء کے الیکشن کے وقت ملک کی آبادی اندازاً ساڑھے سترہ کروڑ تھی اور رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ ‘ یعنی رجسٹرڈ ووٹرز کل آبادی کا انچاس فیصد تھے۔ ان آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ ووٹرز میں سے چار کروڑ تریپن لاکھ ووٹرز نے اپنا حق ِرائے دہی استعمال کیا۔ یعنی رجسٹرڈ ووٹرز میں سے ووٹ ڈالنے والوں کی شرح باون فیصد تھی۔ ان باون فیصد میں سے مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ ووٹ حاصل کئے‘ یعنی کل رجسٹرڈ ووٹرز کا محض سترہ فیصد‘اور کل آبادی کا آٹھ اعشاریہ 45 فیصد اور جلسوں میں شور مچایا جاتا تھا کہ پانچ ججوں نے بائیس کروڑ ووٹوں کی توہین کی ہے‘ لہٰذا اب نعرہ ہے: ووٹ کو عزت دو۔
ویسے ووٹ کو عزت کا معاملہ تو بڑا مشکوک ہے۔ ووٹ تو اس ملک میں پانچ سال بعد ایک دفعہ پڑتے ہیں‘ لہٰذا اگر ووٹ کو عزت کی بات ہے تو وہ بھی پانچ سال میں محض ایک بار ہی دی جاسکتی ہے۔ جیسے اب پچیس جولائی کو ووٹ کو عزت دی جائے گی۔ ووٹوں کی گنتی ہوگی اور اس کے بعد اس کی ساری اہمیت، ساری عزت اور ساری تکریم بوریوں میں بند ہو جائے گی۔ کبھی کسی حلقے کا مسئلہ اٹھا تو ان بوریوں کو پھر سے عزت و تکریم کے ساتھ کھولا جائے گا اور بس۔ یہ ہے ووٹ کی عزت کی ساری کہانی۔ دنیا میں عزت ووٹ کو نہیں ووٹ ‘ڈالنے‘ والے کو دی جاتی ہے۔ یعنی اس کے ووٹ ڈالنے کے بعد بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی‘ وہ اتنا ہی اہم رہتا ہے جتنا کہ ووٹ والے دن۔ اسی کی رائے، اس کی بات، اس کی عزت، اس کی اہمیت اور اس کی طاقت کبھی کم نہیں ہوتی۔ اس کی معاشرے میں اور سیاسی فیصلوں میں اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ آسٹریلیا میں بھی ووٹر کو صرف اس کے ووٹ کے باعث عزت نہیں دی جاتی بلکہ اسے آسٹریلیا کے شہری اور ایک زندہ انسان کے طور پر عزت دی جاتی ہے اور یہ عزت صرف اسے ووٹ والے دن نہیں دی جاتی یا اسے محض ووٹر ہونے کے باعث نہیں دی جاتی بلکہ معاشرے کا باعزت حصہ ہونے کے باعث دی جاتی ہے لہٰذا یہ مستقل جاری رہتی ہے۔ یہ معاشرہ اپنے لئے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرتا ہے جو ان کو آسٹریلیا کے شہری ہونے کے باعث عزت دے نہ کہ ان کو انسانوں کے بجائے ووٹ سمجھیں اور انسانوں کے بجائے ووٹ کو عزت دینے کے نعرے پر ووٹ مانگیں۔
آسٹریلیا میں رجسٹرڈ ووٹروں کی جو تعداد ہے اتنے ہی ووٹ پڑیں گے‘ وہاں ووٹ ڈالنا مرضی پر منحصر نہیں بلکہ آپ قانوناً ووٹ ڈالنے کے پابند ہیں۔ ووٹ نہ ڈالنا باقاعدہ جرم ہے اور اس کا جرمانہ پہلی بار بیس ڈالر اور دوسری بار پچاس ڈالر ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے آپ کو یہ جرمانہ بہت معمولی لگتا ہو اور اگر ہمارے ہاں یہ جرمانہ دینا پڑے تو بہت سے سرمایہ دار اور نودو لیتے یہ جرمانہ دے کر گھر بیٹھے رہیں‘ مگر آسٹریلیا میں ایسا نہیں۔ وہاں جرمانہ رقم کے حوالے سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ ایک جرم اور اس کی سزا کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں کسی معقول وجہ مثلاً بیماری، ہسپتال میں داخلے یا اسی قسم کی کوئی وجہ کے باعث آپ کو ووٹ ڈالنے سے رعایت مل سکتی ہے مگر یہ رعایت حاصل کرنے کا عمل بھی باقاعدہ قانونی طریقے سے کرنا پڑتا ہے‘ یہ نہیں کہ جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کر دیا جائے۔ ویسے اب برطانیہ کے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی اخلاقی حیثیت کو جس طرح اپنے اسحاق ڈار صاحب نے ذلیل و رسوا کیا ہے اس کے بعد کم از کم اس عاجز کے دل میں تو برطانیہ کے رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کی حیثیت صفر ہو کر رہ گئی ہے جو پہلے خاصی بہتر تھی۔
آسٹریلیا میں ووٹ نہ ڈالنا قابلِ تعزیر ہے‘ حکومت اس سلسلے میں ووٹروں کو ممکنہ حد تک سہولیات فراہم کرتی ہے۔ وہ آسٹریلین شہری جو آسٹریلیا سے باہر ہیں‘ خواہ لمبے عرصے کے لئے یا مختصر وقت کے لئے‘ وہ آسٹریلین ہائی کمیشن، سفارت خانے، کونسل خانے یا آسٹریلین حکومت کے کسی بھی نمائندہ دفتر میں جا کر اپنا ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔ اگر وہ آسٹریلیا میں ہی اپنے گھر، شہر یا صوبے سے باہر ہے تو وہ اپنا ووٹ بذریعہ ڈاک بھجوا سکتا ہے اور اپنا بیلٹ پیپر پیشگی حاصل کرسکتا ہے۔ یا وہ دوسرے شہر یا صوبے میں اپنے ووٹ نمبر اور شناختی دستاویز کے ساتھ پولنگ اسٹیشن جا کر اپنے حلقے کا ووٹ ڈال سکتا ہے۔
گزشتہ رات میلبورن میں ڈاکٹر شہباز کے ہاں ایک ”گیٹ ٹو گیدر‘‘ تھی۔ ڈاکٹر شہباز پاکستانی حلقوں میں بڑے جانے پہچانے اور مقبول شخص ہیں۔ بارہ‘ پندرہ فیملیز تھیں۔ وہاں ملتان سے تعلق رکھنے والے اور میرے کالج و یونیورسٹی کے دوست ڈاکٹر اسحاق بھٹی اور جنرل حمید گل (مرحوم) کے بڑے صاحبزادے عمر گل سے بھی بڑے عرصے کے بعد ملاقات ہوئی اور بڑی گپ شپ رہی۔ یہ گھر میں ہونے والی ایک فیملی گیدرنگ تھی۔ میری بیٹی اور داماد بھی میرے ہمراہ تھے۔ پاکستانیوں کی محفل ہو اور سیاست پر گفتگو نہ ہو۔ سب کا خیال تھا کہ مجھے ‘سب کچھ‘ پتا ہے۔ اس سب کچھ میں ‘بہت کچھ‘ آتا ہے۔ میں نے سب کو بتایا کہ اول تو مجھے ‘سب کچھ‘ کا پاکستان میں بھی پتا نہیں ہوتا کجا کہ پاکستان سے نکلے دس بارہ دن گزر چکے ہوں۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ میں خود بھی اس سیاست والے چسکے سے کسی طور بچا ہوا نہیں ہوں اور روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں شاہ جی سے اور ملک خالد سے تازہ ترین صورتحال بارے پتا کرتا رہتا ہوں۔ شاہ جی اپنی معلومات اور ملک خالد اپنی سیاسی بھاگ دوڑ کے باعث اخذ کی جانے والی صورتحال بارے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ ملک خالد کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو تین دن کے دوران ملتان کی سیاسی صورتحال میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت چار پانچ دن پہلے یقینی نظر آرہی تھی مگر اب مقابلہ تھوڑا سخت ہوگیا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کا امیدوار جاوید علی شاہ بہت پیچھے ہے اور اصل مقابلہ یوسف رضا گیلانی اور پی ٹی آئی کے ابراہیم خان کے درمیان ہے۔ جاوید علی شاہ کے صوبائی امیدوار رانا شبیر طاہر کی برادری صوبائی ووٹ مسلم لیگ (ن) کو دے گی اور بڑا ووٹ زیادہ تر یوسف رضا گیلانی اور بقایا ووٹ ابراہیم خان کو دے گی۔ اس ایم پی اے سے جاوید علی شاہ کی گزشتہ پانچ سال بات چیت بھی نہیں رہی اور ٹکٹوں کے فیصلوں کے دوران جاوید علی شاہ اپنے نیچے رانا اشتیاق کے لئے ٹکٹ لینے گیا تھا مگر ناکامی ہوئی۔ رانا طاہر شبیر ملتان والے رانا محمود الحسین سینیٹر کا بہنوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے صوبائی امیدوار طارق عبداللہ کے ارائیں ووٹ بھی قومی اسمبلی پر تقسیم ہیں‘ تاہم مقابلہ سخت ہے۔
سب لوگ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت نہ ملنے پر بڑے شاکی تھے۔ لیکن کیا کیا جائے؟ اوورسیز پاکستانیوں کی غالب اکثریت پی ٹی آئی کی سپورٹر ہے اور یہی وجہ تھی کہ الیکشن کمیشن وغیرہ گزشتہ سارے دور میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ بارے منفی تھے اور یہ کام نہ ہونے دیا۔ اوپر سے عمران خان بھی بے معنی اور لایعنی دھرنوں پر زور دیتا رہا اور اس بارے کچھ نہ کروا سکا۔ اگر وہ اس چیز میں کامیاب ہو جاتا تو بیرون ملک پاکستانیوں کے دو اڑھائی ملین ووٹ لے سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بیرون ملک پاکستانی خواہ کسی کے بھی حامی ہیں‘ انہیں ووٹ کا حق ملنا چاہئے اب الیکشن کمیشن کو ان کے لئے ویسا ہی بندوبست کرنا چاہیے جیسا آسٹریلیا کے ووٹر کو حاصل ہے۔