آمدہ انتخابات اور غیر ذمہ دارانہ انٹر ویو…کنور دلشاد
کینیڈا کے سرکاری دورے کے دوران مجھے کینیڈا کے چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ کینیڈا قانونی اعتبار سے اب بھی نو آبادیاتی نظام کا ڈومین ، مگر عملاً ایک جمہوری اور آزاد ملک ہے، جہاں انتخابات کے نظام اور نتائج کو کامیاب اور ناکامیاب والے کی نظروں میں عزت اور وقار ہے۔ ووٹر بھی اس پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ انتخابات کے لئے انتظامات ، شفافیت اور غیر جانبداری کو تسلیم کیا جاتا ہے ،کینیڈین چیف الیکشن کمشنر کو پارلیمنٹ تقرر کرتی ہے اور ان کا طریقہ انتخاب وزیر اعظم کی طرز پر ہوتا ہے۔ ان کے اختیارات وزیر اعظم کے مساوی ہوتے ہیں ۔
اب حال ہی میں امریکی صدارتی الیکشن میں روسی ہیکروں کی مداخلت کے حقائق سامنے آنے کے ساتھ ہی کینیڈین حکومت نے ٹیکنالوجی کی اس مداخلت اور غلط استعمال کوروکنے کے لئے تحقیق شروع کر دی ہے ۔کینیڈا کے چیف الیکشن کمشنر سے پارلیمنٹ نے سفارشات مانگیں اور مقصد کینیڈین ووٹرز کے لئے الیکشن میں شرکت کو آسان بنانے اور انتخابی ضابطوں کو توڑنے والوں کی حوصلہ شکنی اور سزا دینا ہے اور اس حوالے سے 30اپریل 2018ء کو c-76بل کا مسودہ قانون سازی کے لئے پیش بھی کر دیا ہے ۔حکومت کینیڈا کے اس سرکاری بل کے مقاصد میں کینیڈا کے انتخابی سسٹم میں عوام کے اعتماد کو بڑھانا اور عوام کی دلچسپی کو بڑھانا بھی شامل ہے ۔ غیر ملکی تنظیموں اور کمپنیوں کا انتخابات پر خرچ ممنوع ، 500ڈالرز سے زیادہ کسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت میں اشتہار ات پر خرچ کرنیوالے حامیوں کی رجسٹریشن ، انتخابی عمل کیلئے استعمال کئے جانیوالے کمپیوٹرز کی رجسٹریشن اور دیگر اقدامات اس بل میں شامل ہیں ۔
اس بل میں متعدد تجاویز اور اقدامات ٹیکنیکل نوعیت کے بھی ہیں، کینیڈا کے اس الیکشن ماڈرنائزنگ ایکٹ یعنی (c-76) کا مطالعہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوگا ۔ اس بل میں تجاویز خاصی مناسب ہیں کہ تمام سیاسی اشتہارات پر ٹیگ لائن کے ذریعے شناخت ہو کہ کسی تھرڈ پارٹی نے اسپانسر کیا ہے ۔سیاسی پارٹیاں ووٹروں کے بارے میں کہاں اور کن ذرائع سے معلومات حاصل کر رہی ہیں، سوشل میڈیا پر انتخابی مہم کے لئے غیر ملکی تنظیموں کی جانب سے اشتہار بازی کی ممانعت بھی شامل ہے ،اگر یہ بل منظور ہو گیا تو الیکشن کمیشن کینیڈا کو اختیار ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پر انتخابات پر اثر ڈالنے والے غلط بیانات اور اشتہارات پر فوری طور پر پابندی عائد کر سکے اور ذمہ داروں کے خلاف پابندی عائد کر سکے ۔ کینیڈین حکومت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ الیکشن کے بارے میں اس بل کی منظوری سے الیکشن میں نہ صرف غیر ملکی مداخلت پر قابو پانا آسان ہوگا بلکہ کینیڈا کے الیکشن قوانین اور نظام اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ہوگا۔
ہمارے ہاں انتخابی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ۔ انتخابی جنگ نہ صرف جاری ہے بلکہ الزامات کی سیاست نے عوام کو پریشان اور غیر یقینی صورت حال اور ماحول کی کشیدگی سے جارحانہ بنا دیا ہے ، موجودہ حکومت نے اسحاق ڈار کی سربراہی میں نام نہاد انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل دی ،لیکن الیکشن کے نظام کو شفاف غیر جانبدار بنانے کی جانب انتخابی اصلاحات کمیٹی نے توجہ نہیں دی کیونکہ ہر فریق انتخابی نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور انتخابی اصلاحات کمیٹی با اثر طاقتور ملکی اور غیر ملکی سرکاری تنظیموں کے زیر اثر رہا بلکہ انہوں نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کویرغمال بنائے رکھا ، اور الیکشن اصلاحات میں ایسی شقوں کو حذف کروایا جس سے ملک میں انتشار اور خلفشار پید ا ہوا ،انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اہم رکن زاہد حامد بھی ایسی ملکی این جی اوزکے فعال ڈائریکٹر رہے جو پاکستان میں متنازعہ ترین این جی او ہے اور اس کے اثر میں آ کر بعض شقیں حذف کراتی گئی ۔
کینیڈین حکومت نے غیر ملکی این جی اوز کی سر گرمیوں پر پابندی نافذ کرنے کے لئے بل پیش کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر ملکی مالی و انتظامی معاونت حاصل کر رہا ہے ۔ غیر ملکی امداد حاصل کرنے پر بنگلہ دیش اور نیپال کے الیکشن کے ادارے بھی زیر اثر ہیں ، اور ان ممالک کی اپوزیشن نے بھی غیر ملکی معاونت پر اپنے اداروں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ انڈیا کے الیکشن کمیشن نے غیر ملکی معاونت سے ہمیشہ گریز کیا ہے ۔
ہمارے ہاں الیکشن میں غیر ملکی مداخلت کا آغاز 1977میں ہوا اور بھارت پہلے بھی پاکستانی انتخابات میں مالی اور سیاسی مداخلت کر چکا ہے اور آنے والے انتخابات میں بھی بڑے پیمانے پر غیر ملکی مداخلت کے امکانات ہیں، بھارتی ہیکر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ویب نظام میں مداخلت کرتے آ رہے ہیں، لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو جدید نظام اور ٹیکنالوجی سے نبرد آزما کرنے کے لئے وسائل اور اختیارات سے لیس کر دیا گیا ہے ، آنے والے انتخابات پاکستان کی حقیقی معنوں پر مبنی منزل طے کرنے میں بڑے اہم ثابت ہونگے ۔ سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں پر بھاری ذمہ داری ہے ،انتخابات سے قبل انتخابی شفافیت ، تحمل اور برداشت کا ماحول ذمہ دارانہ بیانات اور غیر ملکی سر پرستوں کی حمایت و مداخلت کے بغیر الیکشن کا ہونا ضروری ہے ۔کینیڈ اکی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی سوچ تبدیل کرنا پڑے گی ، اور یو این ڈی پی اور یو ایس ایڈ نے جن غیر سر کاری تنظیموں کو ٹریننگ ،مشاہدات اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے جو کروڑوں روپے ادا کئے ہیں ، ان این جی اوز کا ریکارڈ حاصل کرنا چاہئے ، اور ان کی کار گزاری پر نظر رکھنا ہوگی ۔
ماضی میں الیکشن عملے کی سیاسی وابستگیوں کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں ،الیکشن عملے کا ذیادہ تر تعلق صوبائی حکومتوں سے ہوتا ہے اور لوکل گورنمنٹ کے تحت جو ملازمین بھرتی ہوتے ہیں ان کا جھکائو کسی مخصوص سیاسی جماعت سے لازمی ہوتا ہے لہٰذا ریٹرننگ افسران کی کارکردگی پر میڈیا کو گہری نظر رکھنا ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل19کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق ہے ،پریس کی آزادی بھی قانون کے تحت مناسب اور واجب پابندیوں سے مشروط ہے۔ افسوس کے آج میڈیا کی آزادی سیلف سینسر شپ کے تحت عملی طور پر مفلوج ہے۔ الیکشن 2018ء پربین الاقوامی قوتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ایسے موقع پر میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے،شفاف انتخابات کے لئے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ اقوام متحدہ کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق میڈیا کو انتہائی غیر جانبدارانہ طور پر الیکشن کی کوریج کرنا ہوگی اور اس ملک کے جغرافیائی پس منظر ،روایت، ثقافت ، مذہب اور رسم و رواج کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بظاہر عمدہ انتظامات کئے ہیں اور اقوام متحدہ اور غیر ملکی ماہرین کو ہر معاملہ میں اپنے ہاتھ میں رکھاہو اہے اور اقوام متحدہ نے بھی تربیت کے لئے الیکشن کمیشن کو مالی معاونت کی ہے اور اخبارات میں جو الیکشن کمیشن کی تشہیری مہم جاری ہے ،اس کی پشت پر بھی اقوام متحدہ کا ادارہ کھڑا ہے، جو بظاہر خوش آئند ہے ۔لیکن ان تمام معاونت کے باو جود الیکشن کی رات کریمنل ذہن رکھنے والے سٹاک ہولڈرز تمام منصوبہ بندی کو سبو تاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ 11مئی 2013ء کی رات کو اقوام متحدہ کے فل پروف انتظامات کو مفلوج کر دیا گیاتھا اور اقوام متحدہ کے 40کروڑ روپے بد انتظامی کی نذر ہو گئے تھے، لیکن اقوام متحدہ کے اداروں نے اس کی تحقیقات کروانے سے گریز کیا ۔ اور اس ادارے کے اس وقت کے کنٹری ڈائریکٹر ملک چھوڑ گئے اور جاتے جاتے ایک انگریزی اخبار میں انٹرویو دیتے ہوئے ایک معنی خیز اشارہ دیا کہ پاکستان کی اشرافیہ ملک کے مفادات میں سنجیدہ نہیں ہے ۔
انتخابات وقت پر ہونگے اور الیکشن 25,26,27جولائی کو ہونے کے امکانات ہیں ،حتمی نتائج آنے کے بعد 14دنوں کے اند ر اندر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس کا انعقاد ہو جائے گا ۔میرا تجزیہ یہ ہے کہ 12اگست کو پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے اور 14اگست کو وزیر اعظم کا انتخاب عمل میں لایا جا سکتا ہے ۔نواز شریف کے غیر ذمہ دارانہ انٹر ویو سے بھارت کے سر جیکل حملے کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ،نواز شریف اپنی کھربوں روپے کی کرپشن سے بچائو کے لئے اپنے دوست ممالک سے انہونی سٹریٹیجک کروانے کے لئے دائو پیچ کھیل رہے ہیں ،اگر ایسے ترشیدہ حملوں سے پاکستان کی مملکت کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان میں جمہوری عمل میں رخنے پیدا ہو جائیں گے۔