آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر …مجیب الرحمن شامی
امریکہ کے صدر ٹرمپ جیسے ہیں اور جو کچھ ہیں… ہیں تو امریکہ کے باقاعدہ منتخب صدر۔ اس لیے ان کی بات کو محض ”ٹرمپی‘‘ قرار دے کر صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ایک حالیہ تقریر میں پاکستان کو جس طرح نشانہ بنایا، اور بھارت کی جس طرح پیٹھ تھپکی، اسے شہ دی‘ اُس سے (بقول عمران خان) ہر پاکستانی نے اپنی بے عزتی محسوس کی ہے۔ بیس کروڑ باشندوں میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جن کے دِل میں یہ تمنا نہ جاگی ہو کہ… کرتا کوئی اِس بندۂ گستاخ کا منہ بند۔ عمران خان نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے جو کچھ کہا، یوں سمجھئے کہ ہر پاکستانی کی ترجمانی کر دی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان امریکہ کے مقابلے میں ایک چھوٹا مُلک ہے۔ وسائل کے اعتبار سے دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ایک دُنیا ہی کی نہیں، انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی طاقت، اور دوسرا اپنے دفاع کے لیے وسائل جمع کرنے پر (بمشکل) قادر۔ اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان میدانِ جنگ میں امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے یا اس کو للکار سکتا ہے تو اس کا دماغی معائنہ کرایا جانا چاہئے۔ کوئی پاکستانی بقائمی ہوش و حواس امریکہ کو جنگ کی دعوت نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ کوشش یہی ہو سکتی ہے کہ اس کے شر سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہا جائے، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ صدر ٹرمپ کی ہر بات کو تسلیم کر لیا جائے، اور ہر اشارے پر سجدہ ریزی کا مظاہرہ کر دیا جائے۔ امریکہ اپنی جمہوریت پر بہت نازاں رہتا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں اشتراکیت کے خلاف اس کا استدلال ہی یہ تھا کہ یہ انسانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر لیتی ہے۔ انہیں محض چارہ کھانے والا جانور سمجھ کر ہانکتی، اور ان کے تخلیقی جوہر کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ لیکن اشتراکی نظام کو شکست سے دوچار کرنے، اور دُنیا کو اس سے نجات دلوانے کے بعد، اس کے اپنے دِل میں ملکوں اور قوموں کو مسخر کرنے کا جذبہ بے کراں ہو گیا۔ اسی جذبے نے افغانستان پر بغیر سوچے سمجھے چڑھ دوڑنے کا فیصلہ کرایا، اور اسی نے عراق کو نشانہ بنوایا۔ یہ درست ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ اسامہ کو 9/11 سے کہیں پہلے امریکہ اپنے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث قرار دے چکا تھا، لیکن 9/11 کے بعد تو وہ غصے میں اندھا ہو گیا۔ اسامہ بن لادن اور ان کی القاعدہ کو اپنا مجرم قرار دیا اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سارے مستقل ارکان کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ سب نے اتفاق رائے سے اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا، اور اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو فوجی طاقت سے روندنے کی اجازت دے دی۔
اگر افغانستان میں مُلا عمر کی طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیتی، یا واضح طور پر یہ موقف اختیار کر لیتی کہ وہ اپنے ”مہمان خصوصی‘‘ کو کسی ایسے غیر جانبدار بین الاقوامی ٹریبونل کے سپرد کرنے کو تیار ہے، جہاں اس پر باقاعدہ مقدمہ چلا کر اس کا جرم ثابت کیا جا سکے، تو جنوبی ایشیا کیا، یورپی دُنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ لیکن مُلا عمر نے اس معاملے کو ناک کا مسئلہ بنا لیا، حکمت کی قرآنی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے افغانستان پر ستم کے پہاڑ ٹوٹے، اور پاکستان کی مشکلات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا… پاکستان میں سپہ سالار پرویز مشرف حکومت پر قبضہ کر چکے تھے۔ یوں بندوق سیاست کے ہاتھ میں نہ رہی تھی، بلکہ بندوق نے سیاست اور ریاست دونوں کو اپنی مٹھی میں دبوچ لیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق امریکہ اور نیٹو سے تعاون کی ہامی بھر لی… مصافحے کی جو اجازت قوم سے لی تھی، اُسے بہانہ بنا کر معانقے تک پہنچے، اور پھر معاملہ اس سے بھی کہیں آگے نکل گیا… بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی… امریکہ اور اس کے اتحادی بڑے زعم سے افغانستان پر حملہ آور ہوئے، اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والی حکومت کا خاتمہ کر ڈالا، اپنی مرضی کا ایک ڈھانچہ کابل میں کھڑا بھی کر دیا… بعد از خرابی ٔ بسیار اسامہ بن لادن کو بھی ایبٹ آباد سے ڈھونڈ نکالا گیا۔ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر اس کی سرحدوں کو تاراج کرتے ہوئے اپنے ہدف کو نشانہ بنا ڈالا۔ لیکن طالبان کو زیر نہیں کر سکے۔ طالبان کا بیانیہ بہت سادہ اور آسان تھا‘ ہماری حکومت پر امریکہ اور اس کے اتحادی حملہ آور ہوئے ہیں اِس لیے ان کا مقابلہ کرنا ویسا ہی جہاد ہے جیسا کہ سوویت فوجوں کے خلاف کیا گیا تھا۔ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد کا لحاظ یا اقرار کرنے پر تیار نہیں تھے کہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطے ان کی فہم سے بالاتر تھے۔ ان کے نزدیک سوویت اور امریکی فوج میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں کی گولیاں ایک جیسی تھیں، اور ان کی زد میں آنے والے بھی ایک جیسے اور ان کا بہنے والا خون بھی ایک جیسا تھا۔ امریکہ دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ اس جنگ پر خرچ کر چکا ہے۔ اس کے ہزاروں فوجی ہلاک، زخمی اور اپاہج ہو چکے ہیں، لیکن 60 فیصد سے زائد علاقے پر اب بھی طالبان کی رٹ چل رہی ہے۔ کابل میں قائم حکومت کو سکون نصیب نہیں ہو رہا۔ افغانستان کا جغرافیہ قدرت نے ایسا بنایا ہے کہ یہ سرزمین حملہ آور کا قبرستان بن جاتی ہے۔ امریکی ہاتھی کا وہی حشر ہو رہا ہے جو سوویت ریچھ کا ہوا تھا، طالبان گلہری ان کے قابو میں نہیں آ رہی، وہ پھدک کر کبھی پہاڑ پر چڑھ جاتی ہے، کبھی غار میں جا کر ٹانگیں دراز کر لیتی ہے۔
پاکستان افغانستان کا ایسا ہمسایہ ہے کہ دونوں کے دھڑ جڑے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کلومیٹر لمبا مسام دار بارڈر بند نہیں ہو پاتا۔ سرحد کے دونوں طرف بسنے والے ایک دوسرے سے قریبی رشتے رکھتے ہیں۔ نسلی، لسانی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی طور پر وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ لاکھوں افغان مہاجر آج بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں۔ 1979ء میں سوویت فوجوں کے داخلے نے انہیں پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا، ابھی تک بڑی تعداد کی واپسی کی راہ ہموار نہیں ہو سکی۔ بارڈر مینجمنٹ نام کی شے کو امریکی اور ان کے زیر اثر افغان حکام مستحکم نہیں ہونے دیتے۔ سرحد پر باڑ لگانے کا عمل بھی ان کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے، اپنی ناکامیوں کا جواز یہی ڈھونڈا گیا ہے کہ پاکستان میں جنگجو افغانوں کے خفیہ ٹھکانے ہیں۔ وہ وہاں سے آ کر حملہ آور ہوتے، اور پھر واپس بھاگ جاتے ہیں۔ پاکستان بتا بتا کر اور سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہے، لیکن امریکی اپنی ناکامی کے اسباب افغان سرزمین پر ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ امریکی صدر اور ان کے ہمنوا اپنے ووٹروں کو پاکستان کے خلاف بہکا رہے ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق گدھے سے گر کر غصہ کمہار پر نکال رہے ہیں، یہاں تو کمہار بھی ہاتھ نہیں آ رہا… اس کے دور پار کے رشتہ دار پر غصہ نکالا جا رہا ہے۔ پاکستانی، صدر ٹرمپ کی منطق سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان نے پوری شدت سے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ چین نے بھی بلند آواز سے پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے پر زور دیا ہے کہ پاکستان خرابی کا ذمہ دار نہیں، اس کا نشانہ ہے اس کے ستر ہزار سے زائد شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہزاروں فوجی جوان شہادت کا جام پی چکے ہیں، ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان، معیشت اور انفراسٹرکچر کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان چیخ رہا ہے کہ افغانستان میں چھپے ہوئے جنگجو پاکستان کو (امریکہ سے تعاون کے جرم میں) سزا دینے کے لئے مسلسل حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اِن کے محفوظ ٹھکانے وہاں ہیں، امریکہ ان کا خاتمہ کرے۔ حقائق پاکستان کے ساتھ ہیں، اُس کی سول اور فوجی قیادت کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر حالات کا سامنا کرنا ہو گا۔ آنکھیں دکھانے کی ضرورت ہے، نہ آنکھیں چرانے کی۔ لڑانے کی، نہ بچانے کی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہو گی، تاکہ سمجھا اور سمجھایا جا سکے۔ دلیل کی طاقت سے الزامات کی آگ کو سرد کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہیے؎
پائوں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہوں جلال خسرواں
میرے آقا، میرے مولا، رحمتہ اللعالمیں
….
اگلا کالم
…