منتخب کردہ کالم

آن لائن اردو ڈکشنری .. حسنین جمال

آن لائن اردو ڈکشنری .. حسنین جمال

زندگی میں جو پہلی چند کتابیں آس پاس دیکھیں ان میں ایک تو قصہ چہار درویش تھی، دوسری تارڑ صاحب کی تھی، نکلے تیری تلاش میں، تیسری ایک موٹی سی لال جلد والی ڈکشنری ہوتی تھی اور سب رنگ باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ بچوں کے رسالے اور کتابیں تو بے تحاشا تھے لیکن جو مزہ ابا کی کتابیں پڑھنے میں آتا اس کی بات ہی الگ تھی۔ وہ ڈکشنری انگریزی سے اردو کی تھی۔ گلی محلے کے سکولوں میں جو انگریزی قاعدہ ہوتا ہے وہ پانچویں تک کچھ اس قسم کا تھا۔ “شی از سارا خان، ہی از ہادی، سارا از ٹال، ہادی از شارٹ۔” تو کوئی ایسا بجوگ نہیں پڑتا تھا کہ ڈکشنری کھول کر دیکھی جائے ہاں اس کا رعب بہت تھا۔ یہ موٹی تازی ہزار صفحے سے بھی زیادہ کی، پھر اس کی اصل خوبی یہ تھی کہ ابا کو سکول میں کوئی پوزیشن لینے پر ملی تھی تو وہ ایک قسم کی انسپائریشن بھی تھی کہ یار وقت آئے گا کبھی ہمیں بھی ملے گی، یہ الگ بات کہ ایسا وقت کبھی نہیں آیا۔
بڑی کلاسوں میں جا کے کبھی کبھار اس کی ضرورت پڑتی، شروع میں بڑی مشکل ہوتی تھی، پھر ڈکشنری میں لفظ ڈھونڈنا آ گیا۔ اس وقت صحیح قدر کا احساس ہوا کہ بھئی یہ تو بڑی فٹ چیز ہے، جو مرضی لفظ ڈھونڈنا ہو مل جاتا ہے۔ اس وقت چونکہ کمپیوٹر نہیں ہوتا تھا تو چند ممنوعہ لفظوں کے مطلب بھی اسی میں ڈھونڈے جاتے، وہ جو کمبخت معنے وہاں ملتے اس کے لیے الگ سے اردو کی ایک ڈکشنری خریدنی پڑی۔ پھر جیب میں رکھنے والی ڈکشنریوں کا فیشن چلا تو ایک دو وہ بھی آ گئیں۔ میٹرک کے آس پاس ابا باہر گئے تو بہت ضد کر کے ایک کیلکولیٹر قسم کی ڈکشنری منگوائی اور کچھ عرصہ اس سے کام نکالا۔
انہیں دنوں گھر میں کمپیوٹر کا ظہور ہوا۔ پہلے بھی پرنس آف پرشیا کھیلی ہوئی تھی، کوئی نئی بات نہیں لگی۔ دو چار دن بعد ابا نے بلایا اور کہا کہ دیکھو یہ میں نے انگریزی میں کچھ لکھا، یہ بٹن دبایا اور یہ سارا میسیج ہالینڈ پہنچ گیا۔ ای میل سے پہلا تعارف اس طرح ہوا۔ دوسرا کرتب انہوں نے ڈکشنری کے کسی سافٹ وئیر کا دکھایا۔ وہ بھی حیران کن تھا۔ لفظ لکھا نہیں کہ مطلب حاضر، کمال ہی ہو گیا۔ اس کے بعد تو جیسے عیاشی لگ گئی۔ محلے بھر کی انگریزی ادھر ہی بیٹھے بیٹھے ڈیل ہو جاتی تھی۔ پھر ورڈ پروسیسر آ گئے، موبائل آئے، اب تو خواجہ گوگل پر پہلا لفظ ہی لکھیں کہ چھتیس سائٹس مطلب لیے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوں گی۔ اس سب میں یہ ہوا کہ ڈکشنری دیکھنا‘ سیکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ تلفظ چاہیے تو ریکارڈنگ حاضر، مطلب چاہئیے تو مترادفات تک موجود، ایک دم سکون پروگرام!
لیکن یہ سب انگریزی کے لیے تھا۔ اردو میں کافی ڈکشنریاں آئیں مگر فرہنگ آصفیہ کے علاوہ کوئی پراپر قابل بھروسہ کام نہیں ہوا۔ اس بات پر سو اعتراض کیے جا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ فائنل فیصلہ کرنے کے لیے اب بھی اکثر فرہنگ ہی دیکھی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں ٹیم ورک کی روایت کبھی رہی ہی نہیں، جو بڑا کام ہوا کوئی ایک دیوانہ اٹھا اور کر کے چلا گیا اس کے بعد کوئی ادارہ بنا بھی تو ڈنڈے بجائے جاتے رہے سالڈ کام ذرا مشکل ہوا۔ مولوی عبدالحق نے سب سے پہلے یہ کمی محسوس کی اور سرکاری سطح پر احساس دلانا شروع کیا۔ 1951ء میں انہوں نے پہلی اردو کانفرنس کروائی اور آخر کار انہی کی انتھک کوششوں سے 1958ء میں ترقی اردو بورڈ بنا دیا گیا۔ اس کی پہلی ذمہ داری اردو کی ایک جامع لغت بننا طے پائی۔ باون سال لگے اور بائیس جلدوں پر مشتمل یہ کام آخرکار ہو گیا۔ بائیس جلدیں بولے تو تئیس چوبیس ہزار صفحے! مولوی عبدالحق، جوش ملیح آبادی، بیگم شائستہ اکرام اللہ، اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، شان الحق حقی، رؤف پاریکھ صاحب اور نہ جانے کتنے اصحاب علم کی محنت سے یہ ڈکشنری تیار ہوئی۔ ادارے کے مطابق لغت پر اس قدر تفصیلی کام اب تک دنیا کی دو یا تین ہی زبانوں میں ہو پایا ہے۔
کام ہو گیا اب ایک اور ٹینشن تھی، کبھی کوئی جلد شارٹ ہو رہی ہے، کبھی کوئی جلد آؤٹ آف پرنٹ ہے، کبھی سننے میں آتا کہ بس اب سیٹ پورا ہو جائے گا اور اس ساری ٹینشن کا شکار سب سے زیادہ جعفری صاحب ہوتے تھے۔ عقیل عباس جعفری، شاعر، ادیب، محقق، صحافی اور بہت کچھ ہیں۔ پاکستان کرانیکل نامی لحیم شحیم انسائیکلو پیڈیا ان کی بیس سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے سیاسی وڈیرے، مضامین موسیقی، قائد اعظم کے بارے میں تحقیقات، قومی ترانے پر تحقیق، پتہ نہیں کتنی کتابیں، بیسیوں کوئز پروگرام اور پھر لاتعداد غزلیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ وہ “نامعلوم افراد” والی غزل جو ٹھیک ٹھاک وائرل ہوئی تھی، وہ بھی انہیں کی ہے۔ پہلے شہر میں آگ لگائیں نامعلوم افراد، اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد۔
جعفری صاحب ایک شفیق استاد بھی ہیں۔ پہلی تحریر سے آج تک جہاں مدد چاہی امید سے بڑھ کر ملی۔ خدا آباد رکھے۔ تو ہوا یوں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے سنا وہ اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ ہو گئے ہیں، دلی خوشی ہوئی لیکن ایک خیال یہ بھی آیا کہ یار سرکاری دفتروں میں جا کے ان کا تخلیقی کام رک جائے گا۔ وہ غلط فہمی تھی۔ آتے ہی انہوں نے بیان داغا کہ وہ بائیس جلدوں والی لغت جلد از جلد آن لائن کر دیں گے۔ اس بیچ ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن کبھی یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔ بھئی ہزاروں صفحے نئے سرے سے ڈیجیٹل کمپوز کرنا، پھر اس کی ایپ بنانا، پھر یہ بھی چیک کرنا کہ ایک ایک اینٹری درست ہو، یہ آسان کام نہیں ہے۔ یہ بھی ہو گیا۔ پتہ نہیں کیسے ہو گیا۔ باون برس کی محنت چھ آٹھ ماہ میں نبیڑ کر کیسے فارغ ہو گئے یہ سمجھ سے باہر ہے۔ ابھی کل پرسوں اعلان موجود تھا کہ ویب سائیٹ تیار ہے اور موبائل ایپلیکیشن/سافٹ وئیر بھی بن چکا ہے۔ جا کر دیکھا واقعی سب کچھ موجود تھا۔
گویا سن اڑتالیس میں ہنگاموں کے بعد مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کا دلی والا دفتر بند ہونے پر جب یہاں آئے اور کام شروع کیا تو وہ کام ٹھیک معنوں میں اب پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ تمام جلدیں ایک سیدھے سادھے سافٹ وئیر کی صورت موجود ہیں۔ ویب سائیٹ الگ سے ہے۔ جو مرضی لفظ ٹائپ کر لیں باقاعدہ پوری پوری سند کے ساتھ مطلب سامنے آئیں گے۔ سند مطلب مکمل تفصیل کہ یہ لفظ کہاں کہاں استعمال ہوا، کس کی شاعری میں تھا، کس نے نثر میں برتا اور ایسے ایسے نایاب ریفرنس نکلیں گے کہ واقعی طبیعت خوش ہو جائے گی۔ کوئی بھی پرانا سا لفظ سوچیے اور ڈکشنری میں سرچ کر لیں، دے شعر پہ شعر، ایسا مطلب واضح ہو گا کہ پھر شاید ہی کبھی بھولے۔ ابھی دو تین لفظ ایویں چیک کرنے کو سرچ کیے اور مزا آ گیا، ایک سند میر حسن کی مثنوی میں سے آ رہی ہے، ایک جعفر زٹلی کے یہاں سے آتی ہے، ایک طرف سے کوئی اور دوڑا چلا آ رہا ہے، جنت ہے، واللہ جنت ہے، جسے اردو پسند ہے، جو اردو سیکھتا ہے اس کے لیے واقعی عید کا تحفہ ہے۔
اردو لغت کا ویب لنک یہ ہے http://www.udb.gov.pk/index.php ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار لفظوں کے معنے، ان کے ڈھیر سارے ریفرنس جو پرانی کتابوں سے ہیں، ٹھیک سے سمجھیے تو انیس سو بیس سے قبل چھپنے والی تقریباً پندرہ سو اور دوسری بے شمار کتابیں اس کی تیاری میں استعمال ہوئی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ادارہ ابھی تلفظ کی صوتی (آواز والی) ڈکشنری پر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، بچوں کے سلیبس کو دیکھتے ہوئے علیحدہ لغت بن رہی ہے، ان بائیس جلدوں کو ریفرنس بغیر صرف معنے اور لفظ لکھ کر دو جلدوں میں سمیٹنے کا معاملہ بھی زیر غور ہے اور بے شک یہ سب جناتی کام ہیں لیکن ہاتھی نکل گیا تو دم بھی نکل ہی جائے گی۔ عقیل عباس جعفری صاحب، اردو لغت بورڈ، حکومت پاکستان اور بورڈ کے تمام لوگ ایسے شاندار کام پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
آن لائن اردو ڈکشنری