آپ کا زمانہ کون سا ہے؟…ایم ابراہیم خان
اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کتنے زمانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں تو شاید آپ حیرت سے اُس کا منہ تکنے لگیں گے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اُبھرے گا کہ سوال کرنے والے کو اِتنا بھی معلوم نہیں کہ ہر اِنسان ایک ہی زمانے میں زندگی بسر کرتا ہے یعنی وہ زمانہ جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ کی سوچ بھی غلط نہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ بات کس طور پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ہی زمانے میں زندہ رہتے ہیں؟ ہم میں سے کون ہے جس کا ماضی میں بھی بسیرا نہیں؟ اور ہم میں سے کون ہے جو پورے دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ وہ کبھی مستقبل میں قیام نہیں کرتا؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم یا تو ماضی میں رہتے ہیں یا پھر مستقبل میں۔ جسے ہم حال یا موجودہ زمانہ کہتے ہیں وہ تو آتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک لمحہ جو ابھی ہے اور ابھی نہیں، ہمارے لیے مستقل مسکن نہیں بن سکتا۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ انسان ماضی میں رہے یا مستقبل میں؟ ہمارے کے لیے ماضی مفید ہے نہ مستقبل۔ جو کچھ ہے وہ لمحۂ موجود ہے۔ ہمیں ماضی کے راگ الاپنے اور مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے کے بجائے لمحۂ موجود کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ جینا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم فکری اور عملی اعتبار سے معیاری زندگی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔
گزرے ہوئے زمانے ہمارے لیے ہر اعتبار سے ناکارہ تو خیر نہیں ہوتے۔ ہم تک جو علمی اور فکری خزانہ پہنچا ہے وہ ماضی ہی کا ہے۔ مختلف ادوار کی دانش ہم تک کتب کے ذریعے پہنچی ہے۔ اس اعتبار سے ہم اپنی فکری اور روحانی بالیدگی کے لیے ماضی ہی کے احسان مند ہیں۔ ماضی کی دانش سے مستفید ہونا اور زندگی کی معنویت میں اضافہ کرنا یقیناً اچھی بات ہے اور ہم مختلف ادوار کے بارے میں کتب کے ذریعے بہت کچھ جان پاتے ہیں۔ یہاں تک تو ماضی سے مستفید ہونا بہتر اور لازم ہے۔ ماضی اگر مستقبل کی تیاری کے لیے بروئے کار لایا جارہا ہو تو پریشانی کی کوئی بات نہیں مگر جب لوگ ماضی ہی میں رہنا شروع کردیتے ہیں تو اُن کے لیے حقیقی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ ماضی میں گم رہنا انسان کو موجودہ زمانے سے دور کرتا ہے۔ یہ ماضی پرستی ہی ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ ہے۔
ماضی کی طرح مستقبل میں جینا بھی لا حاصل اور خطرناک ہے۔ بہت سے لوگ خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کے زندان میں مقید رہتے ہیں۔ ماضی کا رونا روتے رہنا اور فکر و عمل کی دنیا میں ٹھوس بنیاد پر کچھ کرنے کے بجائے مستقبل کے بارے میں غیر ضروری طور پر پُرامید رہنا شدید الجھنیں پیدا کرنے والی روش ہے۔ ہم میں سے بہتوں کی پسندیدہ روش یہ ہے کہ ماضی کا رونا رویا جائے اور مستقبل کے بارے میں خوش فہمیاں پروان چڑھائی جائیں۔
ہر حال میں بہترین آپشن یہ ہے کہ ہم لمحۂ موجود سے مستفید ہوں، اُس میں جینے کی کوشش کریں اور ماضی یا مستقبل کو ایک خاص حد ہی رہنے دیں۔ جب ہم ماضی یا مستقبل کے بجائے حال میں زندگی بسر کرتے ہیں تو ہماری سوچ بھی تبدیل ہوتی ہے اور ہم محض غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہونے کے بجائے حقیقی فکری توانائی کے ساتھ جینا شروع کرتے ہیں۔ دنیا میں وہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں، کسی مقام تک پہنچتے ہیں جو ماضی یا مستقبل کو بالائے طاق رکھ کر زمانۂ حاضر سے کماحقہ محظوظ اور مستفید ہوتے ہیں۔ موجوہ لمحات میں موجود رہنے سے انسان زمانے سے مطابقت پیدا کرتا ہے اور ماحول سے اچھی طرح ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کے کامیاب ترین نُسخوں میں یہ روش نمایاں طور پر اہم ہے۔
شخصی ارتقاء اور نفسیات کے ماہرین نے عمیق تحقیق کی روشنی میں یہ درس دیا ہے کہ انسان کو گزرے ہوئے زمانے میں زندگی بسر کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور آنے والے زمانے کے بارے میں خیال پلاؤ پکانے سے بھی اجتناب برتنا چاہیے۔ وقت کے معاملے میں ہر اعتبار سے جامع روش یہی ہے کہ موجودہ زمانے میں جیا جائے تاکہ ذہن میں ابھرنے والے خیالات اور منصوبوں میں ہم آہنگی ہو اور ہم حالات و واقعات کے تقاضوں کی روشنی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوسکیں۔
اپنی حالات کرنے کے لیے زمانۂ حاضر کے بجائے ماضی یا مستقبل میں گم رہنے والے اِس لیے پریشانی سے دوچار رہتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات کو درست کرنے، صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، مہارت بڑھانے، کیریئر کے حوالے سے بہتر امکانات تلاش کرنے، خوش حالی لانے والے عوامل کو شناخت کرنے، عمل کی دنیا میں بہتر انداز سے اپنا آپ منوانے اور کارکردگی کا معیار بلند کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں سوچنا اور منصوبے تیار کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ہم کسی واضح منصوبہ بندی کے بغیر زندگی بسر کریں تو مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانے میں بہت سی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر کامیاب انسان مستقبل کے بارے میں مثبت رویے کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ اپنے وسائل اور صلاحیت کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی دانش مندی کی علامت ہے۔ زندگی ہم سے ہر معاملے میں توازن اور دانش کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم کیریئر اور عمومی زندگی کے بارے میں واضح منصوبہ بندی نہ کریں تو کامیابی میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔ مگر ان تمام باتوں کا مستقبل کے حوالے سے محض خوش فہمیوں میں غرق رہنے اور خیالی پلاؤ پکاتے رہنے سے کوئی تعلق نہیں۔ مستقبل کے بارے میں کوئی واضح سوچ نہ رکھنا اور محض خوش فہمیوں کی نذر رہنا انسان کو ایک لَت کی طرح اپنے شکنجے میں کَس لیتا ہے۔ یہی چیز رفتہ رفتہ ذہنی ساخت کا حصہ بن کر پورے وجود پر حاوی اور متصرف ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے آپ کو بہت محتاط ہوکر اپنا وجود موجود لمحات کے آغوش میں رکھنا پڑے گا۔ اِسی طور آپ زمانے کا ساتھ دے سکیں گے۔ جو گزر چکا ہے اُس پر جلنا، کڑھنا بے معنی اور لا حاصل ہے۔ اور جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں اُس کے بارے میں خوش فہمیاں پالنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ زمانے کا انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اِس وقت آپ ماضی میں ہیں نہ مستقبل میں۔ بس اِسی حقیقت پر غور کرنا اور اِس کا ادراک حاصل کرنا ہے۔ آپ کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ طے کرنا ہے کہ آپ کا زمانہ کون سا ہے۔ اگر آپ بھی دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح ماضی میں رہیں یا مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا رہیں تو کچھ نہ پاسکیں گے۔ بھرپور کامیابی اور پُرمسرّت زندگی کے لیے لازم ہے کہ زمانۂ حال آپ کا زمانہ ہو اور آپ باقی دو زمانوں کو اُن کی منطقی حدود تک رکھیں۔