منتخب کردہ کالم

آگ بگولہ دانش گاہیں.. صولت رضا

آگ بگولہ دانش گاہیں.. صولت رض
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں طالب علم مشال خان کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں متعدد اہم نکات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ خاص طور سے یونیورسٹی میں مطلوبہ انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی کا ذکر سر فہرست ہے۔ قتل کے دیگر محرکات میں مشال خان کے خلاف توہینِ مذہب کا نفرت انگیز پروپیگنڈا اور تشدد کا مسلسل پرچار شامل ہیں۔ اس کیفیت کو ہوا دینے میں یونیورسٹی کے بعض ملازمین نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا‘ جس کے نتیجے میں قریباً ایک مہینے سے یونیورسٹی کی فضا میں خوف و ہراس اور متشددانہ رویے حاوی ہو گئے تھے۔ افسوس صد افسوس کسی ذی ہوش نے اس جانب توجہ نہیں دی اور ایک المناک واقعہ رونما ہو گیا جس کے اثرات ملگ گیر سطح پر محسوس کئے گئے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی رجسٹرار سے لے کر سکیورٹی افسر تک نااہل اور سفارشی لوگ تعینات ہیں۔ یہ مطلوبہ تعلیم ، تجربے اور صلاحیت سے بھی محروم ہیں ۔ سیاسی اثرورسوخ کے حامل نااہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔ رپورٹ میں افسوس ناک صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں منشیات ، اسلحہ کا استعمال اور طالبات کا استحصال عام ہے اور یونیورسٹی کے بیشتر ملازمین مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں ۔
مشال خان قتل کے بارے میں جے آئی ٹی کی رپورت وطنِ عزیز کی ایک اہم دانش گاہ کا وائٹ پیپر یا کچاچٹھاہے۔ جس کی ہر سطر تعلیم کے حوالے سے ہماری سیاسی ، سماجی اور ذاتی بے اعتنائی کا اعلان کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے یونیورسٹی میں کئی ماہ سے وائس چانسلر کا عہدہ خالی تھا ۔ وائس چانسلر کی” گمشدگی‘‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر اہم عہدیدار جن میں فیکلٹی ممبران شامل ہیں پیشہ ورانہ تساہل اوربد انتظامی کے مزے لوٹنے لگے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی میں المناک حادثہ ہوا تو ریاست کے ستون چوکنے ہوئے ورنہ پہلے ”سب اچھا‘‘ ”سب اچھا‘‘ کی گردان تھی ۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز کی اکثر دانش گاہیں ملتی جلتی صورتحال سے دوچار ہیں ۔ جے آئی ٹی کی مذکورہ رپورٹ کے مندرجات کے فریم میں پبلک سیکٹر کی متعدد یونیورسٹیاں سماسکتی ہیں۔ بیس سے زائدیونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز تعینات نہیں ہیں ۔ با اثر صاحبان اپنے ”سرپرستوں‘‘ کی ہدایت کے تحت دانش گاہوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا دائرہ اختیار محدود کر دیا گیا ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وائس چانسلر کی تعیناتی میں صوبائی حکومت کا عمل دخل بڑھ گیا ہے ۔ عجب طرفہ تماشہ ہے کہ اعلیٰ ترین تعلیم کا انتظام اور منصوبہ بندی ایسے افراد کے سپرد کر دی گئی ہے جن کی ذاتی اور سیاسی ترجیحات میں تعلیم کو کسی طور اہمیت حاصل نہیں ہے۔ دانش گاہوں (یونیورسٹیز) کا ذکر کریں تو سیاسی بے توجہی اور سماجی بے رخی کے رجحانات بار بار عیاں ہوتے ہیں۔ اگر سرکاری درسگاہوں (سکولز اور کالجز) کی جانب نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دانش گاہوں اور درس گاہوں میں زیر تعلیم طلباو طالبات اساتذہ کے پاس والدین کی امانت ہوتے ہیں ۔ سیاسی قائد ین کی اپنی ترجیحات ہیں ۔ صحت ، تعلیم ، امن وامان اور روزگار کے حوالے سے زوردار گفتگو کی جائے تو رائج الووقت جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کی منصوبہ بندی کا عالم یہ ہے کہ سرکاری دانش گاہوں کو نااہل ، سفارشی اور مجرمانہ خصلت کے حامل افراد کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ حال ہی میں اسلام آباد کی ایک اہم سرکاری یونیورسٹی میں پہلے لسانی بنیاد پر گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کی گئی ، کچھ عرصے بعد مختلف گروہوں کے لٹھ بردار ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے ۔ آج کل موبائل فون سے تصویرکشی عام ہے۔ یوں یہ لڑائی جھگڑے کی ویڈیو یونیورسٹی سے باہر آگئی ۔ ورنہ شاید مشال خان کی مانند کسی اور طالب ِ علم کی نعش ہی برآمد ہوتی ۔ سرکاری یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز کے معاملات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دانش گاہوں کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تاریخ اور آبادی کے لحاظ سے نوجوان قوم ہے۔ ہماری پچاس فیصد آبادی پچیس برس سے کم عمر کی ہے۔ ہمارے مستقبل کا تعین وہ سمت کرے گی جو آئندہ چند برسوں میں ہمارے نوجواں اختیار کریں گے۔ آرمی چیف کی تقریر میں بین السطور زندگی کے ہر شعبے کو پیغام دیا گیا ہے کہ اپنے بچوں کی فکر کریں۔ نوجوانوں کا خیال کریں۔ اُن کی ذہنی نشوونما میں خصوصی دلچسپی وطنِ عزیز کے بہتر مستقبل کی ضامن ہے۔
والدین کی محض یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ شیر خوار بچے کارٹون چینل کے حوالے کر دیں اور بعد میں سوچے سمجھے بغیر اُنہیں لاوارث قسم کی سرکاری درس گاہوں اور دانش گاہوں میں داخل کرا دیں۔ یہ سنگین سماجی، تعلیمی اور انتظامی مسئلہ ہے‘ جس پر وطن عزیز کے مستقبل کا انحصار ہے۔
آرمی چیف کو گفتگو کئے ہفتے گزر گئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی فالو اپ ایکشن کا علم نہیں ۔ ظاہر ہے کہ حاضرین میں ”باوردی ‘‘ نہیں تھے۔ بات سن لی ہے۔ آرمی چیف کو قریب سے دیکھ لیا ۔ اب یونیورسٹی واپس جا کر غور و خوض ہوگا۔ آج کل ویسے بھی موسم گرما کی تعطیلات ہیں ۔ فیکلٹی ممبران اور طالب علم بہت کم تعداد میں یونیورسٹی آتے ہیں ۔ یہ انتظامی فیصلے کرنے کا بہترین وقت ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فوری طور پر سرکاری دانش گاہوں کے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ ادارے لاوارث نہیں رہنے چاہئیں۔ خاص طور سے ایسی دانش گاہیں جہاں مستقل وائس چانسلر موجود نہیں ہیںوہاں فوری طور پر تعینات کیے جائیں ۔ نظم وضبط اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں یکسو ہوکر یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد کریں تاکہ ناپسندیدہ عناصر سیاسی آڑ میں تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ مناسب ہو گا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی طرز پر ایک عدد جے آئی ٹی ہر دانش گاہ کو سونپ دی جائے تاکہ وہ ساٹھ دن میں جامع رپورٹ تیار کرے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ دانش گاہوں کے لئے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ یوں والدین بھی آگاہ رہیں گے کہ اُن کے نونہال کہاں کہاں زانوئے تلمذ تہہ کر رہے ہیں۔ مزید برآں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی آگ بگولہ دانش گاہوں میں امن وسکون کا پانی برسانے میں آسانی رہے گی۔