آیئے ہم سب مل کر دعا کریں….مفتی منیب الرحمٰن
2018ء کے قومی انتخابات‘ بلکہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات پر بھی شکوک واَوہام اور بدگمانیوں کے سائے منڈلاتے رہے ہیں‘لیکن آخرکار سینیٹ کے انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوہی گئے ؛اگرچہ اُن کے بہت سے پہلوؤں پر سوالیہ نشانات اب بھی قائم ہیں ۔ اُس کے بعد بھی سیاسی ذہن رکھنے والے جب بھی آپس میں ملتے ‘ ایک دوسرے سے یہ سوال ضرور کرتے کہ آیا انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوں گے ؟یہ خدشات ذمہ دار حلقوں کی یقین دہانیوں کے باوجود ذہنوں میں پیداہورہے تھے ۔اب الحمدللہ !انتخابی عمل شروع ہوچکاہے ‘اُمیدوار میدان میں اتر چکے ہیں ‘سیاسی جماعتیں اپنے اکثر امیدواروں کو پروانۂ نامزدگی جاری کرچکی ہیں اور یہ عمل شاید ایک دودن میں مکمل ہوجائے گا ‘ پھر امید واروں کی جانب سے اپنے نام واپس لینے کی تاریخ گزرنے کے بعد حلقہ وار حتمی فہرست شائع کردی جائے گی ۔
بعض تجزیہ کاروں نے آنے والے قومی انتخابات میں خون خرابے کے خدشات بھی ظاہر کیے ہیں ‘ کیونکہ یہ انتخابات انتہائی بے اعتمادی اور تناؤ کے ماحول میں ہورہے ہیں ۔گزشتہ حکمرانوں کے راستے میں جو کانٹے بوئے گئے تھے ‘ شاید وہ آنے والے حکمرانوں کے پاؤں میں بھی چبھیں گے ۔فارسی کا مقولہ ہے : ”چاہ کن را چاہ درپیش ‘‘یعنی جو دوسرے کے راستے میں کنواں کھودتاہے ‘کبھی خود بھی اس میں گر پڑتاہے۔ بے یقینی کے ماحول میں معیشت ساکت وجامد ہوجاتی ہے ۔ سرمایہ دار سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتاہے ‘کیونکہ وہ غیر یقینی حالات میں اپنے سرمائے کو خطرے سے دوچار کرنا نہیں چاہتا ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہم قریباً اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔نگراں حکومت کے لیے دومہینے گزارنا مشکل ہورہاہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان امریکن ڈالر کے انڈیمنیٹی بانڈ جاری کرنے کا پروگرام بنارہاہے ‘ یعنی قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ‘مودیز‘ نے پاکستان کے ریٹنگ کی شرح کم کردی ہے ؛ اگرچہ بحیثیت مجموعی پاکستانی معیشت کی شرح نمو (Growth Rate) کو قدرے اطمینان بخش قرار دیاہے ۔ دیکھناہے کہ آنے والی حکومت اس مشکل سے نکلنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کرتی ہے ۔حکومت ِ پاکستان نے بیرون ملک پاکستانی شہریوں کے زَرِ مبادلہ اور اثاثوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کے لیے جوٹیکس ایمنسٹی سکیم 2018ء جاری کی تھی ‘ وہ ماضی کی سکیموں کی طرح اطمینان بخش حدتک کامیاب نہیں ہوئی ؛ حالانکہ اس ترغیبی سکیم میں اثاثے بدستور بیرون ملک رکھنے کی رعایت بھی فراہم کی گئی تھی۔ اس سکیم کی ناکامی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سرمایہ داروں کو بدستور اپنے ریاستی نظام اور حکومتی وعدوں پر اعتماد نہیں ہے ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر مُقتدر حلقے آنے والے قومی انتخابات کے شفاف اور غیر جانب دار ہونے کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں ‘لیکن اب ہمارے ملک میں یقین دہانیوں ‘ وعدوں اوردعووں پر اعتماد کم ہی کیاجاتاہے ‘ بلکہ ان سے شکوک میں اضافہ ہوتاہے ‘کیونکہ لوگ ماضی کے تجربات کی روشنی میں انگریزی کے اس مقولے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں :
Nothing is true, unless it is denied by the Government
یعنی کوئی بات سچ نہیں‘ تاوقتیکہ حکومتِ وقت اس کی نفی کردے ‘ لہٰذا 25جولائی کے قومی انتخابات کا غیر جانبدار اور شفاف ہونا الیکشن کمیشن آف پاکستان ‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نگراں وفاقی وصوبائی حکومتوں کے عمل سے ثابت ہوگا ۔ کسی حد تک قومی اوربین الاقوامی معائنہ کار اور میڈیا کی مشاہداتی رپورٹیں اور شواہد اس کا تعین کریں گے ‘ کیونکہ آج کل لائیو کوریج کے ذرائع بہت زیادہ وجود میں آچکے ہیں اور یہ بھی دیکھاجائے گا کہ آیا ووٹر کے لیے پسِ پردہ اپنے پسندیدہ اُمیدوار کے نام پر مہر لگانے کا نظام کسی CCTVکیمرے کی رینج میں تو نہیں ہے اوریہ کہ آیاخود ووٹر اپنے ووٹ کی پرچیوںکی موبائل تصویریں لے رہے ہیں یا نہیں ‘کیونکہ یہ صورتیں انتخابات کی راز داری کو مُشتبہ بنادیتی ہیں۔
الغرض بہت کچھ عملی تجربے اور مشاہدے پر موقوف ہے ‘اسی طر ح پوری قوم مشاہدہ کررہی ہے کہ میڈیا دینی سیاسی جماعتوںکو کوریج نہیں دے رہا‘جبکہ لبرل سیاسی جماعتوں کے لیے اس کے دروازے کھلے ہیں‘اس کی خدمات حاضر ہیں‘کیا الیکشن کمیشن پاکستان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ میڈیا کو کوریج میںانصاف برتنے کا حکم دے‘کسی حد تک تو ترجیح اس کا حق ہے‘ لیکن دینی طبقے کی مکمل نفی یابائیکاٹ سیاسی اعتبار سے سب کے لیے levelled Field‘یعنی یکساں مواقع فراہم کرناکہلائے گا۔
ہم جیسے بے اختیار لوگوں کی خواہش تھی کہ کم ازکم بڑی قومی سیاسی جماعتیں آئندہ دس بیس سال کے لیے کسی جامع طویل المدتی ایجنڈے پر مُتّفق ہوجائیں ‘ لیکن جب سیاسی عداوت ونفرت شخصی اور قبائلی عداوت کی روایت کو بھی پیچھے چھوڑ جائے ‘ تو کسی مُتّفقہ قومی میثاق پر کلی یا اکثری اجماع ہونا عملاً ناممکن ہوجاتاہے اور ہم قومی اعتبار سے اسی کیفیت اور نوشتۂ دیوار سے دوچار ہیں ۔پاکستان تحریکِ انصاف ‘جو نظریاتی سیاست اور تبدیلی کی دعوے دار تھی ‘کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر اس کے بعض مُحبین کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا حیرت کے سمندر میں ڈوب جانا بجائے خود باعثِ حیرت ہے ۔ہمارا قومی خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے اور ہماری خوبیاں اور خامیاں قریباً مشترک ہیں ۔ انیس بیس یا اٹھارہ بیس سے زیادہ فرق کی اُمید لگالینا خوش فہمی یا سادہ لوحی سے زیادہ کچھ نہیں یا کسی حدتک اپنی ذاتی محرومیوں اور خواہشات کے پورا نہ ہونے کا مظہر ہے ۔ حقیقت پسندی کا شعارہی بہتر ہے ‘ اس سے انسان مایوسی اور قنوطیت سے بچ جاتا ہے اور ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کے دعوے کوئی حقیقت نہیں رکھتے ‘ہماری قومی سیاست کے بیش تر کھلاڑیوں کا نظریہ ایک ہی ہے‘ یعنی ہرقیمت پر اقتدار میں شامل ہونا یا اس کے زیرِ سایہ رہناہے۔یہ انتشار جو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر نظر آرہاہے ‘ اس کا ایک ٹریلر حکومت سازی کے موقع پر بھی نظر آئے گا اورپھر سب حالات سے سمجھوتہ کرکے اسی تنخواہ پر گزارہ کریں گے اور اقتدار کی خیرات کے لیے کشکول پھیلائیں گے کہ شاید کوئی ریزگاری اُس میں بھی پڑجائے۔ حکومت سازی کے موقع پر ماضی کی طرح ضرورت پڑنے پر سیاسی جوڑ توڑ بھی ہوں گے ‘سیاسی قلابازیاں بھی دیکھنے میں آئیں گی ‘ ان سب اقدامات اور یوٹرن ‘یعنی رجعت معکوس کے لیے دلائل کا انبار بھی ہوگا اور ہم عربی محاورے کے مطابق ”اَلآنَ کَمَا کَانَ‘‘کے حیران کُن مناظر دیکھیں گے ‘یعنی یہ کہ آج بھی کل ہی کی طرح ہے ‘ کچھ بھی تو نہیں بدلا ‘ بلکہ بعض صورتوں میں تو نام اور چہرے بھی حسبِ سابق رہتے ہیں۔ منتخب لوگوںکو نئے سیاسی میک اَپ کے ساتھ آنے میں کوئی دشواری اور ندامت محسوس نہیں ہوتی ‘ یہ لوگ Shame Proof‘یعنی ندامت سے عاری ہوتے ہیں ۔ اقتدار کی چمک انہیں تازہ دَم رکھتی ہے ۔ علامہ اقبال نے کسی اور کیفیت میں کہاتھا :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ اِنفعال کے
انفعال کے معنیٰ ہیں: اثر قبول کرنا ‘ شعر میں اس کے مرادی معنیٰ ہیں : ”اپنی غلطی پر نادم ہونا‘‘۔احادیثِ مبارکہ ہے۔فرمایا:(۱) ”النَّدَمُ تَوْبَۃٌ ‘‘یعنی گناہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور شرمساری ہی توبہ کی حقیقت ہے(کیونکہ انسان اپنی غلطی پر شرمسار ہوتاہے تو غیر مشروط معافی مانگتاہے) (سنن ابن ماجہ:4252)‘‘۔ (۲)”کَفَّارَۃُ الذَّنْبِ النَّدَامَۃُ‘‘یعنی گناہ کا کفارہ اللہ تعالیٰ کے حضور شرمساری ہے (کیونکہ اسی سے گناہ کے ازالے کی تحریک پیداہوتی ہے ) (مسند احمد:2623)(۳)”فَإِنَّ العَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ،تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ‘‘ یعنی بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلیتاہے اور پھر (اللہ تعالیٰ کے حضورشرمسار ہوکر) توبہ کرتاہے ‘تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتاہے ،(صحیح بخاری: 4141)‘‘،(۴)”عَیْنَانِ لَاتَمَسُّھُمَا النَّارِ عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَعَیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘یعنی ایسی دوآنکھوںکو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی‘ جنھوں نے اللہ کی خشیت سے آنسو بہائے ہوں اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں پہرا دینے کے لیے جاگتی رہی ہو‘‘(سنن ترمذی:1639)۔
الغرض علامہ اقبال نے کہا: ”جب میں اپنے گناہوں پر شرمسار ہوااور میری پیشانی پر ندامت کے باعث پسینے کے قطرات نمودار ہوئے ‘ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں قیمتی موتی قرار دے کر اپنی رحمت میں سمیٹ لیا ‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بندے سے یہی مطلوب ہے کہ گناہوں پر نَدامت سے پسینہ نکل آئے یا آنکھیں ڈبڈبانے لگیں ‘لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور یہ اعزازکسی کسی کو نصیب ہوتا ہے ‘ہم نے تو بحیثیت ِ قوم غلطی پر ڈٹ جانے اور اس کاجواز (Justification) پیش کرنے کے شیطانی شِعار کو اختیار کر رکھاہے ‘ ایسے میں کون سی تبدیلی اور کہاں کی تبدیلی ‘ بس گزارہ ہی کرنا پڑتا ہے ۔
اس لیے ہم نے کالم کا عنوان قائم کیاہے :”آیئے ہم سب مل کر دعا کریں ‘‘ہمارا مُدّعا یہ ہے کہ پوری قوم کو بصد عَجز ونیازسراپا التماس بن کر اللہ تعالیٰ کے حضوردعاکرنی چاہیے کہ 25جولائی کے قومی انتخابات کا مرحلہ امن وسلامتی اور خیر وعافیت سے گزر جائے ‘ کوئی فساد برپا نہ ہو ‘ کوئی خونریزی نہ ہواور ان انتخابات کے بطن سے ملک وقوم کے لیے کوئی خیر کی صورت پیداہو ۔ ہم جس معاشی اور سیاسی عدمِ استحکام سے دوچار ہیں ‘ اس سے قوم کو نجات ملے ‘ ہماری سیاست اور نظام مستحکم ہو ‘ہم خود اپنے آپ پر اور اپنے نظام پر اعتماد وافتخار کے قابل بن سکیں اور دنیا بھی ہم پر اعتماد کرسکے ‘ ہمارا میڈیا روز سرِ شام اپنے ملک وملّت کا تمسخر نہ اڑائے ‘تذلیل نہ کرے ‘ کوئی افتخار واعتباراور استناد کا پہلو دنیا کے سامنے پیش کرے ‘ بیرونِ ملک پاکستانی ہر وقت اپنے میڈیا کو دیکھ کر کرب میں مبتلا نہ ہوں‘ بلکہ اپنے آپ کو پاکستانی ہونے کی حیثیت سے سربلند وسرفراز محسوس کریں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مُقتدر اداروں کے دعوے کے مطابق یہ انتخابات واقعی صاف وشفاف اور غیر جانبدار نظر آئیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ِکریم ﷺ کے طفیل ہماری دعا قبول فرمائے ۔