اٹھارہ اگست، انتقال اقتدار اور جمہوریت کی آزمائش….وجاہت مسعود
جب یہ کالم اخبار میں چھپ کر آپ تک پہنچے گا تو اٹھارہ اگست، 2018ء کا سورج طلوع ہو چکا ہو گا، نومنتخب حکومت کا پہلا دن۔ ٹھیک دس برس پہلے، اٹھارہ اگست 2008 کی دوپہر آمر پرویز مشرف نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ایک دن کم نہ ایک دن اوپر، پاکستان میں تیسری مسلسل جمہوری حکومت کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کو یاد ہو گا کہ اٹھارہ اگست 2008 کو اپنی الوداعی تقریر کے آخر میں پرویز مشرف نے کہا تھا، پاکستان کا خدا ہی حافظ۔۔ “خداحافظ” کی مستعمل ترکیب میں اسم تاکید (ہی) کا اضافہ ایک خاص نفسیاتی کیفیت کا اظہار تھا۔ آمریت کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں پستول دکھا کے قوم پر مسلط ہونے والا فرد واحد یہ سمجھتا ہے کہ قوم اس کے ظہور ناگہانی کے حادثہ فاجعہ کے انتظار میں تھی۔ نیز یہ کہ قوم کی گردن سے اس پیر تسمہ پا کا بوجھ اترے گا تو قوم بھی ڈوب جائے گی۔ پرویز مشرف ہماری تاریخ کے پہلے آمر نہیں تھے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ دل زدگاں کے دور سے پہلے دنیا رستی بستی تھی…
پرویز مشرف کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی اکیس کروڑ سوختہ جاں خود ساختہ بحرانوں اور ان کہی غفلتوں کی دھند میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ احوال اچھا نہیں، آثار خوش کن نہیں، مشکلات سنگلاخ پہاڑوں جیسی مہیب ہیں، زاد سفر کی کمی بھی درپیش ہے لیکن آگے تو بڑھنا ہے۔ اسی خاک سے وہ شرارے نکالنا ہیں جن سے دلوں کے خرابے روشن ہوں گے۔ اسے تاریخ کا بہاؤ کہتے ہیں۔ یہ خالی خولی رجائیت کا فلسفہ نہیں، اس کی ایک تاریخی روایت ہے۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ایک طویل سیاسی اننگز کھیلنے کے بعد ترانوے برس کی عمر میں رخصت ہوئے ہیں۔ عملی سیاست سے ریٹائر ہونے کے بعد اٹل بہاری سے کسی اخبار نویس نے پرویز مشرف کے بارے میں سوال کیا۔ واجپائی کا جواب جامع اور مانع تھا۔ کہا کہ “پرویز مشرف تاریخ کا شعور نہیں رکھتے تھے”۔ (He lacked a sense of history)۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہنا چاہیے کہ عصر حاضر کے نابغہ سفارت کار ہنری کسنجر نے اپنی تصانیف میں جہاں جہاں ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آیا، دوٹوک الفاظ میں لکھا کہ ’بھٹو صاحب کو تاریخ کی حرکیات پر عبور تھا۔ (بھٹو) لمحہ موجود کے ہنگامے میں پوشیدہ زیرزمین تضاد کی نشاندہی کرنے پہ قدرت رکھتے تھے‘۔ یہ دو افراد کا نہیں، نامیاتی سیاست اور تاریخی انحراف کا ناگزیر فرق ہے۔
برطانیہ میں رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز کے استاد سر انتھونی والکر سے عسکری مہارت پر داد وتحسین پانا ایک پیشہ ورانہ معاملہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سیاسی تاریخ کے رموز و نکات کو اٹل بہاری واجپائی کی طرح جان سکتے۔ جون 2001 میں افتاں و خیزاں صدر پاکستان کی شیروانی پہن کر آگرہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو پرویز مشرف کے پہلو میں وزیر خارجہ عبدالستار نشستہ تھے۔ ایک نے 35 برس عسکری خدمت میں گزارے تھے اور دوسرے کی تمام عمر پیشہ ورانہ سفارت کاری میں گزری تھی۔ پاکستان کا وزیر خارجہ بننے سے پہلے عبدالستار کی کوئی سیاسی شناخت تھی اور نہ قلمدان چھوڑنے کے بعد ان کی کوئی خبر آئی۔ پرویز مشرف کے بالمقابل بھارت کا منتخب وزیر اعظم واجپائی بیٹھا تھا۔ 1942ء میں ’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘ کے دوران واجپائی پہلی مرتبہ سیاسی قیدی بنے تو پرویز مشرف ابھی اس دنیا میں نہیں آئے تھے۔ واجپائی کے ہمراہ وزیر خارجہ جسونت سنگھ بیٹھے تھے۔ تب پینتیس سالہ سیاسی تجربہ رکھنے والا مدبر جو دو لفظوں کے بیچ میں سوچ و بچار کا اتنا طویل وقفہ دیتا ہے کہ کمرے میں چپ اتر آتی ہے۔ جنگی داؤ و پیچ کی سوجھ بوجھ میں پرویز مشرف کا کوئی ثانی نہیں ہو گا لیکن سیاست تو انسانی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ عسکری سائنس تابع قیادت اور محدود اہداف کی تنگنائے ہے۔ ادھر سیاست لاکھوں برس کے مشترکہ انسانی تجربے کا سیال سمندر جس میں ہر فرد ایک کائنات بھی ہے اور پوری کائنات کو تجریدی مصوری کے ایک نمونے کی طرح سمجھنا بھی پڑتا ہے۔ پرویز مشرف اجنبی پانیوں میں اترتے تھے تو اپنی ناکامی کا الزام کسی اور پر دھر کے ایک طرف ہو جاتے تھے۔ کارگل کے بعد فرمایا کہ بھارت نے غیر ضروری طور پر شدید ردعمل دیا ہے۔ آگرہ مذاکرات کے بعد ایل کے ایڈوانی کو دوش دے کر بری الذمہ ہو گئے۔ یہ بتانے کی زحمت البتہ کبھی نہیں کی کہ 2006ء میں منموہن سنگھ کے ساتھ ان کے مذاکرات میں کس نے بارودی سرنگ لگائی تھی؟
آج کے دن یہ قصے اس لئے چھیڑے کہ آج اٹھارہ اگست ہے۔ دس سال قبل آج کے دن استعفیٰ دیا گیا تھا، انتقال اقتدار نہیں ہوا تھا۔ عمران خان سترہ اگست کو وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ ٹھیک تیس برس پہلے سترہ اگست ہی کے روز ضیا الحق کا جہاز لودھراں میں زمیں بوس ہوا تھا لیکن انتقال اقتدار نہیں ہوا تھا۔ محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ سونپتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے صاف کہا تھا کہ یہ انتقال اقتدار نہیں، شراکت اقتدار ہے۔ واقعی، انتقال اقتدار کی منزلیں ایسی آسان ہوتیں تو 1970 کے انتخابات کے بعد ملک دو لخت نہ ہوتا۔ اس ملک کا بنیادی مسئلہ ہی حاکمیت کا تعین ہے۔ اس کی پرکھ کا طریقہ آسان ہے۔ جس کی حکم عدولی نہ کی جا سکے، وہ حاکم ہے۔ فرینک میسروی نے اکتوبر 1947ء میں ہمارے بابائے قوم کی حکم عدولی کر کے ایک روایت کو جنم دیا۔
آج کے دن میں یہ سب اس لئے دہرایا کہ پاکستان کے جمہوریت پسند، اپنے تمام تحفظات کے باوجود، چاہتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ عمران خان کی اچھی یا بری حکومت کے بارے میں فیصلہ ووٹر کو کرنا چاہیے۔ اس دوران کچھ ادارہ جاتی معاملات سامنے آئیں گے۔ کیا سیاسی قوتیں تاریخ شناسی کا ثبوت دے پائیں گی؟ تادم تحریر ہرقابل ذکر سیاسی جماعت میں متوازی دھارے موجود ہیں۔ مسلم لیگ نواز میں شہباز شریف ہیں تو پیپلز پارٹی میں آصف زرداری ہیں۔ اے این پی میں اسفند یار کے ہوتے ہوئے کسی اور کی ضرورت ہی کب ہے؟ جمعیت علمائے اسلام میں مولانا فضل الرحمن ہیں مع اہل و عیال۔ علیٰ ہذا القیاس… دیکھنا یہ ہے کہ دل شکستہ جمہوری قوتیں بدستور نعرے کی سیاست کریں گی یا بنیادی مسئلے پر توجہ دیں گی۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ خود سیاسی قوتوں کے اندر ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جسے آئینی بالا دستی، جمہوری اقدار اور پارلیمانی حکومت سے کوئی غرض نہیں۔ یونینسٹ روایت کی دین یہ طبقہ ریپبلکن پارٹی بناتا ہے۔ یہی کنونشن مسلم لیگ کی رونق بڑھاتا ہے۔ پی این اے کی صورت اختیار کرتا ہے، آئی جے آئی میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی سے قاف لیگ نکلتی ہے۔ اس سیاسی گروہ کے قدموں کے نشان کوہ قاف تک جاتے ہیں۔ ان پورس کے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں غیر سیاسی قوتوں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں۔ 2006ء کے میثاق جمہوریت کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
ذات برادری، قبیلے اور فرقہ واریت کی سیاست کے ساتھ جمہوریت نہیں چل سکتی۔ یہ سکے تو بازار سیاست میں آمریت کے مستقل آلہ کار ہیں۔ جمہوریت وہ جنس نہیں جسے مستقل رسوخ کے اے ٹی ایم سے برآمد کیا جا سکے۔ یہ مریم نواز، بلاول بھٹو، افراسیاب خٹک، حاصل بزنجو، محمود اچکزئی، حامد خان، پرویز رشید، فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی جیسے ہم وطنوں کے سوچنے کی باتیں ہیں۔ عمران خان کو ابھی اقتدار کی غلام گردشوں سے مانوس ہونے دیا جائے۔ جب انہیں انتقال اقتدار کی حقیقت معلوم ہو جائے گی تو وہ اپنے آپ ہماری طویل سیاسی روایت کا نامیاتی حصہ بن جائیں گے۔ نواز شریف نے بھی جمہوریت کا سبق جنرل جیلانی سے نہیں سیکھا تھا، اقتدار کی نیم تاریک راہداریوں میں تحصیل کیا ہے۔