اپروچ …. کالم جاوید چوہدری
’مجھے سمجھ نہیں آ رہی‘‘ نوجوان وزیر نے دانشور کے کان میں سرگوشی کی‘ دانشور کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی‘ نوجوان وزیر کی بات غلط نہیں تھی‘ وہ پڑھا لکھا تھا‘ ایماندار تھا‘ وہ چودہ گھنٹے وزارت کا کام کرتا تھا‘ اس نے اپنی وزارت میں نئی اصلاحات بھی متعارف کرائی تھیں‘ وہ مخلص بھی تھا اور اس کے دل میں قوم کا درد بھی تھا لیکن اس کے باوجود ترقی کا پہیہ آگے نہیں چل رہا تھا‘ وہ وہاں نہیں پہنچ پا رہا تھا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا‘ ہم میں سے بیشمار لوگ زندگی میں اخلاص‘ محنت اور ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا کام ثمر آور نہیں ہوتا۔
ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے اور پھر ہمیں یوں محسوس ہونے لگتا ہے گول اچیو کرنے کے لیے صرف ایمانداری‘ محنت اور اخلاص کافی نہیں ہوتا‘ اس کائنات میں کوئی ایسا خفیہ ہاتھ بھی موجود ہے جس کا ساتھ ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے‘ آپ جب تک اس ہاتھ کی مدد حاصل نہیں کر لیتے آپ پر اس وقت تک ترقی کے دروازے نہیں کھلتے‘ نوجوان وزیر بھی اسی مسئلے کا شکار تھا‘ یہ بھی محنت‘ ایمانداری‘ علم اور اخلاص کو سب کچھ سمجھ بیٹھا تھا‘ اس نے بھی دن رات محنت کی لیکن رکاوٹ کی چٹان میں دراڑ نہ آئی چنانچہ وہ بھی اب پریشانی کے عالم میں وجوہات تلاش کر رہا تھا۔
دانشور کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور وہ چھوٹا سا فقرہ بول کر خاموش ہو گیا ’’اپروچ کا مسئلہ ہے‘‘ نوجوان وزیر کی حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ نوجوان وزیر کی یہ حیرت بھی بجا تھی کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ اپروچ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے‘ ہم یہ سمجھتے ہیں دو جمع دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں چنانچہ ہمیں اب مزید سوچ کر وقت ضائع نہیں کرناچاہیے‘ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے ہم کون سے دو کو کس دو میں جمع کر رہے ہیں؟ اور ہمارے دو ہیں کیا؟
ہم کبھی نہیں سوچتے ہمارے دو شیطان‘ دو شیطانوں کے ساتھ مل کر اکثر اوقات چار نہیں بنتے‘ یہ سو ہو جاتے ہیں اور دو صوفیوں کی طاقت دو صوفیوں کے ساتھ مل کر چار نہیں ہوتی یہ چار ہزار ہارس پاور ہو جاتی ہے اور دو پہیے‘ دو پہیوں کے ساتھ جمع ہو کر 20 ٹن کے ٹرالر کو متحرک کر دیتے ہیں اور ہٹلر جیسے دو برے انسان دو برے انسانوں کے ساتھ مل کر پوری دنیا کو برباد کر سکتے ہیں لہٰذا دو کو دو میں جمع کرنا مسئلہ نہیں ہوتا‘ یہ دو ہیں کیا اور ان دونوں کو کس نوعیت کے دونوں میں ملایا جا رہا ہے‘ یہ اہم ہوتا ہے۔
دنیا میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو دو میں دو مل کر چار نہیں ہوتیں سیکڑوں‘ ہزاروں اور لاکھوں ہو جاتی ہیں مثلاً آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے کیا دو ایٹم بم دو ایٹم بموں کے ساتھ مل کر محض چار ایٹم بم بنیں گے؟ کینسر کے مرض کو شفایاب کرنے والے دو انجیکشن دو انجیکشنوں میں جمع ہو کر محض چار ہوں گے اور دو عبدالستار ایدھی یا دو مدر ٹریسا دو مدر ٹریساؤں اور دو عبدالستار ایدھیوں کے ساتھ مل کر صرف چار ہوں گے؟ نہیں کبھی نہیں چنانچہ یہ دو کیا ہیں؟
یہ دو جمع دو سے کہیں زیادہ اہم بات ہوتی ہے اور یہ اہم بات ہی اپروچ کہلاتی ہے لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپروچ کو اہمیت نہیں دیتے چنانچہ ہم سے جب بھی اپروچ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ہمارا رد عمل نوجوان وزیر سے مختلف نہیں ہوتا۔نوجوان وزیر نے بھی پوچھا ’’اپروچ کیسے مسئلہ ہو گئی‘‘ دانشور دوبارہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ’’دنیا میں دوقسم کے لوگ ہیں‘ پہلی قسم کے لوگ ایک خوبصورت‘ مطمئن‘ خوشحال اور صاف ستھری زندگی کے متلاشی ہوتے ہیں‘ انھیں کیپری جیسے جزیروں میں آٹھ دس ایکڑ کا ایسا فارم ہاؤس درکار ہوتا ہے جس کا ایک کنارہ سمندر تک جاتا ہو اور دوسرا کنارہ پہاڑ کی چوٹی کو چھو رہا ہو، ان کی اسٹڈی اور بیڈروم پر انگور کی بیلیں لٹک رہی ہوں اور سارے گھر میں ’’محبت کے پرندوں‘‘ کی آوازیں گونج رہی ہوں۔
سمندر میں ان کی موٹر بوٹ کھڑی ہو‘ گیراج میں مہنگی آرام دہ گاڑیاں موجود ہوں، ان کے اکاؤنٹس میں کروڑں اربوں ڈالر ہوں‘ ان کے بچے دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں‘ انھیں دنیا کی شاندار ہیلتھ کیئر حاصل ہو‘ ان کا کچن آباد ہو‘ پوری دنیا کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں‘ یہ برانڈڈ کپڑے پہنتے ہوں اور شباب‘ شراب‘ کباب ان کے دروازے پر ہر وقت دستک دیتا رہتا ہو‘ ان کی رہائش گاہ کے اردگرد امن بھی ہو‘ امان بھی ہو‘ سکون بھی ہو اور اطمینان بھی ہو ‘یہ لوگ اپنی اس دنیاوی جنت کے لیے کام کرتے ہیں‘ یہ لوگ اپنی اس جنت کے لیے مثبت راستے چنتے ہیں۔
یہ اپنے ہاتھوں‘ اپنے علم‘ اپنی صلاحیت اور اپنی محنت سے اپنی خواہشوں کی جنت کھودتے ہیں اور جس دن انھیں اپنی جنت کا کنارہ مل جاتا ہے یہ اپنا شناختی کارڈ اور اپنا پتہ تبدیل کر لیتے ہیںجب کہ دوسری قسم کے لوگ بھی ایک ایسی ہی جنت کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ اس جنت کے لیے منفی راستے تلاش کر تے ہیں‘ یہ جرائم اور سیاست کو اس جنت تک پہنچنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور جس دن ان کا گول بھی اچیو ہو جاتا ہے یہ بھی اپنا پتہ بدل لیتے ہیں‘ یہ بھی دبئی‘ لندن‘ نیویارک‘ اوسلو یا روم میں شفٹ ہو جاتے ہیں اور باقی زندگی عیش اور آرام میں گزار دیتے ہیں‘‘۔
دانشور نے ایک لمبا سانس لیا‘ ہماری کھڑکی پر اس وقت شام کے رنگ اتر رہے تھے‘ ہم نے شام کی سرخی کوشیشوں میں مچلتے دیکھا اور دوبارہ دانشور کی طرف متوجہ ہوگئے‘ وہ بولا ’’دوسری قسم کے لوگوں کے ذہن میں بھی جنت کا ایک نقشہ ہوتا ہے‘ یہ بھی آٹھ دس ایکڑ کے ایسے فارم ہاؤس میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں جس کا ایک کنارہ سمندر کے نیلے پانیوں میں ہلکورے لیتاہو اور دوسرا کونا چیڑھ کے سر بلند درختوں میں ’’ لوکن میٹی‘‘ کھیل رہا ہو‘ یہ بھی اپنے بچوں کو دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی اپنے لیے دنیا بھر کی ہیلتھ کیئر اور آسائشیں چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ روپیہ پیسہ کمانے‘ کامیابی حاصل کرنے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں‘‘ دانشور ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔
نوجوان وزیر نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور نرم آواز میں بولا ’’جناب اگر دونوں کی خواہشیں ایک جیسی ہیں تو پھر اپروچ کہاں ہے؟ اپروچ کا فرق کہاں ہے‘‘ دانشور نے سوال سنا تو وہ مسکرایا اور بولا ’’دونوں کی اپروچ میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ دوسری قسم کے لوگ موسمی پرندے ہیں‘ یہ موسم بدلنے کے ساتھ ہی گرم ساحلوں سے سرد ساحلوں اور سرد ساحلوں سے گرم ساحلوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں جب کہ پہلی قسم کے لوگ اپنے ساحل کا موسم بدل دیتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ اپنی کامیابی‘ اپنی خوشحالی سمیٹ کر کسی محفوظ‘ کسی اچھی اور پرسکون جگہ‘ کسی جدید ملک یا کسی خوشحال اور پرامن معاشرے میں جا بستے ہیں اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی کو جنت بنا لیتے ہیں جب کہ پہلی قسم کے لوگ برے معاشرے‘ بے امن ملک‘ غربت کی شکار قوم اور بیماریوں‘ پریشانیوں‘ حادثوں اور بحرانوں میں مبتلا سرزمین کا نقشہ بدل دیتے ہیں‘ یہ کٹے پھٹے ملکوں کو ایسا فارم بنا دیتے ہیں جس کا ایک کنارہ سمندر میں ہلکورے لے رہا ہو اور دوسرا چیڑھ کے درختوں میں خوشی سے قہقہے لگا رہا ہو اور جس کا ہر شہری دن ہو یا رات ہو ایک سرحد سے دوسری سرحد تک امن‘ سکون اور آشتی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہو۔
پہلی قسم کے یہ لوگ اپنے معاشرے کی ہیئت بدل دیتے ہیں‘ یہ نیلسن منڈیلا‘ ماؤزے تنگ‘ مہاتما گاندھی اور قائداعظم محمد علی جناح جیسے لوگ ہوتے ہیں‘ ان لوگوں کے پاس بھی سرے میں محل بنانے یا دبئی میں پرسکون زندگی گزارنے یا وارماؤنٹ میں گھوڑے کے اصطبل خریدنے کا آپشن موجودہوتا ہے لیکن یہ لوگ اس آپشن کے بجائے پاکستان‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ کو چھ‘ سات یا پندرہ لاکھ کلو میٹر کا فارم ہاؤس بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں‘ یہ لوگ کروڑوں لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لے آتے ہیں‘‘۔
دانشور رکا‘ اس نے سانس لیا اور نوجوان وزیر سے مخاطب ہوا ’’لیکن آپ دوسری قسم کے شخص ہیں‘ آپ کی ساری محنت آپ کی اپنی ذات کے گرد گھومتی ہے لیکن آپ ساتھ ہی چاہتے ہیں لوگ آپ کو ماؤزے تنگ جیسی عزت بھی دیں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ جس دن اپنے ملک کو اپنے ذہن کی جنت بنانے کی کوشش کریں گے آپ کو اس دن اپنی محنت کے ایک ایک لمحے کا نتیجہ نکلتا ہوا نظر آئے گا۔
آپ کو اطمینان بھی نصیب ہو گا اور کامیابی بھی‘‘ دانشور رکا اور اس نے آخر میں کہا ’’عزت صرف پہلی قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے‘ سوکھی ہوئی جھیل کو اپنے آنسوؤں سے تر کرنے والی بطخ کی آہیں موسمی پرندوں کے لاکھوں نغموں سے قیمتی ہوتی ہیں اور تم بطخ کی عزت اور موسمی پرندوں جیسی محفوظ زندگی دونوں اکٹھی چاہتے ہو‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ تم بطخ بنو یاموسمی پرندہ‘ کسی ایک راستے کا انتخاب کر لو‘ نیکی کے دو کو نیکی کے دو میں ملا لو یہ چار ہزار ہو جائے گا‘ لوگوں کا مقدر بدل جائے گا اور تم یادگار ہو جاؤ گے‘‘۔
…..
اگلا کالم
….