منتخب کردہ کالم

اپنی وفات پر ایک تحریر…عطا ء الحق قاسمی

عمران خان کی چوتھی شادی!...عطا ء الحق قاسمی

اپنی وفات پر ایک تحریر…عطا ء الحق قاسمی
(قند مکرر)
میں نے اپنے ایک دانشور دوست کو فون کیا اور کہا ’’یار میں نے تمہیں اطلاع دینا تھی کہ تھوڑی دیر پہلے میرا انتقال ہوگیا ہے تمہاری بھابھی اور بھتیجوں کا رو رو کر برا حال ہے تو ذرا میرے گھر آکر انہیں تسلی دو‘‘ دوست بولا ’’یہ تو بہت برا ہوا تم تو ٹھیک ٹھاک تھے، اچانک کیا ہوگیا؟‘‘ میں نے کہا ’’پتا نہیں روزہ کھولا ہے، نماز پڑھی ہے، کمر سیدھی کرنے کے لئے چارپائی پر لیٹا ہوں، دیکھا کہ عزرائیل چلے آرہے ہیں، میں نے گھبرا کر پوچھا کیسے آنا ہوا، بولے تمہاری جان لینے آیا ہوں، میں نے کہا مجھے کچھ ضروری کام ہیں، آپ دوچار سال بعد تشریف لے آئیں اتنے عرصے میں، میں اپنے کام نمٹا لوں گا۔ عزرائیل نے کہا میں جہاں بھی جاتا ہوں، ہر شخص یہی کہتا ہے کہ پھر کبھی آ جائیں۔ ابھی دنیا میں بہت سے کام کرنے ہیں حالانکہ بعد میں ان کے بغیر بھی سارے کام ہو جاتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے اپنے بیٹے کو آواز دینا چاہی کہ مہمان کے لئے چائے پانی کا انتظام کرو۔ میرا مقصد یہ تھا کہ عزرائیل کو مصروف کر کے خود ادھر ادھر ہو جائوں گا مگر اس کے ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ میرا جسم ساکت ہوگیا ہے۔ میری بیوی نے آکر میری آنکھیں بندکیں اور رونا پیٹنا شروع کر دیا کسی نے میرے کانوں میں اور ناک میں روئی بھی ٹھونس دی ہے جس سے مجھے بہت الجھن ہو رہی ہے۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو تم بتائو کہ کتنی دیر میں میرے گھر پہنچ رہے ہو، مجھ سے اہل خانہ کا رونا پیٹنا برداشت نہیں ہو رہا!
اس پر میرے عزیز دوست نے کہا ’’میں نے ابھی تراویح پڑھنی ہیں پھر وظیفہ کرنا ہے، اس کے بعد مجھے سونا ہے تاکہ سحری کے وقت اٹھنے میں تکلیف نہ ہو تم اور تمہارے بچے مجھے بہت عزیز ہیں لیکن اس کے لئے عبادت تو نہیں چھوڑی جا سکتی!‘‘ مجھے اپنے دوست کی بات کا بہت دکھ ہوا، مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں تم صبح جنازے میں شریک ہو جانا، گیارہ بجے جنازے کا ٹائم ہے‘‘ دوست نے کہا ’’یار یہ جنازے کا ٹائم کچھ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا، میں ابھی بھابھی سےفون پر بات کرتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا گیارہ بجے تمہاری کوئی مصروفیت ہے؟‘‘ دوست نےکہا ’’کمشنر صاحب کی پھوپھی صاحبہ انتقال کر گئیں ہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی گیارہ بجے ہے مگر تم فکر نہ کرو، میں بھابھی سے بات کر کے ٹائم ایڈجسٹ کر لوں گا‘‘۔ مجھے دوست کی یہ بات سن کر ایک دفعہ پھر دکھ ہوا میں نے کہا ’’ٹائم تبدیل نہیں ہو سکتا، دوسرے شہروں میں مقیم رشتے داروں کو اطلاع دی جا چکی ہے اخباروں کو خبریں بھی بھیجی جا چکی ہیں چلو کوئی بات نہیں تم قلوں میں آجانا‘‘۔
دوست نے پوچھا ’’قل کب ہیں؟‘‘ میں نے بتایا ’’پرسوں چار بجے سہ پہر ہیں‘‘ دوست نے کہا ’’ایک منٹ، میں ذرا اپنی ڈائری دیکھ لوں‘‘۔ ڈائری دیکھ کر اس نے کہا ’’سوری یار، پرسوں چار بجے میری ٹی وی ریکارڈنگ ہے تم مجھے بھابھی سے بات کرنے دو، ٹائم کچھ آگے پیچھے کر لیں گے، مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری مگر میں نے کہا ’’ٹھیک ہے تم بات کرکے دیکھ لو‘‘ بولا ’’جب تم نے اپنے انتقال کی خبر سنائی، میں نے اسی وقت ٹیلی فون ڈائری سے تمہارا ٹیلی فون نمبر کاٹ دیا تھا، وہ نمبر مجھے اب یاد بھی نہیں رہا، کیا نمبر ہے؟‘‘ میں نے غصے میں فون بند کر دیا! جب میں نے دوست کو فون کیا میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں اسے اپنے بچوں کا خیال رکھنے کے لئے کہوں گا اور اسے بتائوں گا کہ ساری عمر رزق حلال پر انحصار کرنے کی وجہ سے میری بچت کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر میرے بچوں پر کوئی مشکل وقت آئے تو ان کا خیال رکھنا مگر اس کی بے رخی اور دنیاداری دیکھ کر میں نے اس سلسلے میں اس سے کوئی بات نہیں کی۔ میرے انتقال کے کچھ عرصے بعد ہم دونوں کا ایک مشترکہ دوست بھی انتقال کر گیا اسے جنت کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر چند روز کے لئے دوزخ میں بھیجا گیا تھا۔ یہ دوست مجھے دوزخ میں دیکھ کر بہت حیران ہوا، میں نے کہا ’’اس میں حیرانی کی کون سی بات ہے میرے گناہ میری نیکیوں سے زیادہ نکلے اب میں اپنے گناہوں کی فصل کاٹ رہا ہوں‘‘۔ جنت سے ’’پیرول‘‘ پر دوزخ میں آئے ہوئے میرے دوست نے بتایا کہ ’’تمہارا جگری دوست نیچے دنیا میں تمہاری یاد میں منعقد ہونے والے تعزیتی جلسوں کی صدارتیں کرتا ہے، اور تمہارا ذکر کرتے وقت اس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ وہ تمہارے بچوں کی مدد کے نام پر اب تک لاکھوں روپے بھی بٹور چکا ہے۔ میرے اس عارضی دوزخی دوست نے اپنی جیب میں سے اخبار کے ایک کالم کا تراشا بھی نکالا جس پر تصویر میرے دنیادار دوست کی تھی اور یہ میری وفات پر لکھا گیا کالم تھا۔ اس نے میری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے تھے اور لکھا تھا کہ اپنے دوست کی وفات سے وہ دنیا میں تنہا رہ گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے دوست کے جنازے اور قلوں میں شدت غم کی وجہ سے شریک نہ ہو سکا اور اس میں ہلنے جلنے کی سکت ہی نہیں رہی تھی۔
میں نے اس تراشے پر ایک نظر ڈالی اور پھر اسے پرزےپرزے کر کے دوزخ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کردیا۔ (جاری ہے)