اپنے غازیوں کے ساتھ…مجیب الرحمٰن شامی
عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے، بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران میں ان پر ”سلیکٹ‘‘ (SELECT) کی پھبتی کس کر مبارک باد دی تھی، لیکن خان صاحب نے اس پر غور کئے بغیر ڈیسک بجا دیا کہ اپوزیشن بنچوں کی طرف سے مبارکباد کا آنا (اس دن) کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قائد ایوان کی تقریر خاموشی سے سنی جاتی اور قائد حزب اختلاف (شہباز شریف) کو بھی یہ سہولت میسر آ جاتی، لیکن فریقین نے اس قدر شور مچایا کہ الحفیظ و الامان۔ نہ عمران خان باقاعدہ تقریر کر سکے اور نہ ہی شہباز شریف۔ دونوں کے حامی ہنگامہ اٹھا کر اپنے اپنے بنچوں سے داد پاتے رہے۔ بعد میں شاہ محمود قریشی کو وضاحت کرنا پڑی کہ جناب وزیر اعظم کو اگر موقع ملتا تو وہ کیا کچھ کہہ گزرتے۔ پنجاب میں بھی اپوزیشن عددی اعتبار سے بہت تگڑی ہے، لیکن یہاں چودھری پرویز الٰہی جیسا سپیکر ایوان کو میسر آ گیا اور قائد ایوان اور حزب اختلاف پورے سکون سے تقریر کر گزرے۔ چودھری صاحب نے دونوں سے رابطہ کر کے سمجھایا کہ روایات کی پاسداری میں دونوں کا فائدہ ہے، دونوں اپنی اپنی بات اپنے اپنے حلقے تک پہنچا لیں گے۔ ایک دوسرے کی ناک میں دم کریں گے تو دونوں بے دم ہو جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے تو چند لمحوں میں بات ختم کر دی لیکن حمزہ شہباز نے اپنے مخالفین کے صبر کا خوب امتحان لیا۔ اگر برادرم اسد قیصر کے پاس بھی چودھری پرویز الٰہی کا تجربہ ہوتا تو وہ بھی فریقین کو اپنے اپنے مفاد میں ایک دوسرے کی بات سن لینے پر آمادہ کر لیتے۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا، مستقبل میں قومی اسمبلی کا ماحول خوشگوار رکھنا سب کے مفاد میں ہو گا کہ اگر ایک ہنگامے پر گھر کی رونق موقوف رہی تو پھر وہ عناصر طاقتور ہو جائیں گے جن کا دل جمہوریت سے اچاٹ رہتا ہے۔
سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ عمران خان باقاعدہ وزیر اعظم بن چکے۔ ان کے چند جذباتی مخالف انہیں ‘نامزد کردہ‘ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالنے میں لگے رہتے ہیں‘ لیکن اسی قماش کے لوگ نواز شریف کو بھی مجرم یا نا اہل وزیر اعظم کہہ کہہ کر بھڑاس نکالتے رہے ہیں۔ نہ ان کی اس حرکت سے نواز شریف کا قد کاٹھ متاثر ہوا اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان کی حیثیت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انتخابی بے قاعدگیوں کی شکایات اپنی جگہ، خان صاحب کو خاص و عام اپنا چکے ہیں۔ جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے جاری رہنے والی ان کی بریفنگ نے بھی اچھے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اطمینان کی سانس لی گئی ہے کہ فوجی اور سیاسی قیادت میں کوئی فاصلہ نہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بجا طور پر اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں نہ صرف ایک صفحے پر ہیں، بلکہ ایک ہی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ مزید وضاحت یہ بھی ضروری سمجھی گئی کہ (کتاب آئین کے تحت) فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ فوج کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں اور ہر پاکستانی کی بھی خواہش ہے کہ سیاسی اور فوجی قائدین ایک ہی کتاب کا مطالعہ جاری رکھیں۔ لیکن بار بار یاد دہانی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہر ایک کو پتہ ہے کہ فرمانبردار بیوی شوہر کے تحت گھر چلاتی ہے لیکن اگر شوہر بار بار اسے اس کی ”ثانوی حیثیت‘‘ کا احساس دلائے یا اپنی برتری جتلائے تو گھر تنائو کی نذر ہو جاتا ہے۔ بعض پیغامات خاموش ہوتے ہیں، ان کو زبان دی جائے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ماتحت کو ماتحت کہہ کر پکارنا خوش ذوقی نہیں ہے، اور یہاں تو بازوئے شمشیر زن کا معاملہ ہے، جس کے بغیر جسدِ خاکی مٹی کا ڈھیر ہے۔
جمعہ کو عزیزان اجمل جامی، عمر شامی اور عثمان شامی کے ساتھ آئی ایس پی آر جانے کا موقع ملا تو میجر جنرل آصف غفور سے تفصیلی تبادلۂ خیال ممکن ہوا۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تو نہیں تھی لیکن نئے پاکستان کے حوالے سے آپ اس میں نیا پن ڈھونڈ سکتے ہیں۔ جمعہ کی نماز جی ایچ کیو کی مسجد میں ادا کی تو جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ ان کی بے تکلفی اور اپنائیت مخاطب کو اسیر بنا لیتی ہے۔ ان کے چند جملوں میں معانی کا جہان آباد تھا، لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر بھی روایتی گرم جوشی سے ملے۔ مصافحوں اور معانقوں کا مزید تبادلہ بھی ہوا اور ایک بار پھر اپنی مسلح افواج پر فخر کے احساس نے سر اونچا کر دیا۔ چھ ستمبر کی آمد آمد ہے اور اس سال اسے میجر جنرل آصف غفور کی تکنیکی ذہانت کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اسے یوم دفاع و شہدا قرار دیا گیا ہے کہ شہیدوں کا تذکرہ بطور خاص ہو گا اور ان کے خاندانوںکو سلام پیش کرنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا۔ فوج نے پولیس کے شہدا کو بھی یاد رکھا ہے اور دوسرے سویلین شہدا کو بھی کہ خون کا رنگ یکساں ہے۔ ہماری بہادر افواج نے جہاں سرحد پر حملہ آور دشمن کے دانت کھٹے کئے، وہاں دہشت گردی کے عفریت کو بھی شکست دی ہے۔ ہر محاذ پر قربانیوں اور فتوحات کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ اے کاش ہمارا سول ڈھانچہ بھی اس امتیاز کو حاصل کر لے۔ ہماری جمہوریت بھی فرض شناسی اور ذمہ داری کی مثال بن جائے۔ ہمارے سب ادارے مستحکم ہوں، خود مختار ہوں اور قانون کی کسی بھی خلاف ورزی پر خود بخود حرکت میں آئیں۔ کوئی حکومت کا مخالف ہو یا موافق، قانون اس کے ساتھ یکساں سلوک کر سکے۔ احتساب اقتدار کے تحت ہو، نہ اس کی مرضی سے ہو۔ جی ایچ کیو سے واپسی ہوئی تو دل اس خوشی سے بھرا ہوا تھا کہ اداروں کو خود مختار بنانے کا جذبہ یہاں بھی فراواں ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے لئے نئے رویے اپنانا ہوں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھے تین مہینے دے دیئے جائیں، حکومت کی سمت سیدھی کر کے دکھا دوں گا۔ سو تین مہینے انتظار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
وزیر اعظم نے اینکروں کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ اپوزیشن کمزور ہے، اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ان کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں (مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) اپنی اپنی سیاست کر رہی ہیں۔ مشترکہ صدارتی امیدوار کھڑا کرنے میں ان کی ناکامی نے حکومت کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ برادرم سہیل وڑائچ نے اعتزاز احسن کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیئے ہیں کہ ان سے بہتر امیدوار ڈھونڈا نہیں جا سکتا۔ وہ مولانا فضل الرحمن کی امیدواری کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جناب زرداری نے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار کھڑا کرنے کا حق مسلم لیگ (ن) کو دے کر بھی شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد یک طرفہ طور پر اعتزاز احسن کو میدان میں لا کھڑا کیا اور یوں انہیں مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے محروم کرنے کا انتظام کر دیا۔ گویا اپوزیشن نے حکومتی جماعتوں کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کی جیت کو یقینی بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک مستقل مزاج سیاسی کارکن ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی ارکان میں سے ایک۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ دندان سازی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر الٰہی علوی مرحوم کو آج بھی اہل کراچی احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی کے حریف اپنے دانت آپ ہی کھٹے کر چکے تھے کہ ان کے کھانے اور دکھانے کے دانت الگ الگ تھے۔ سو، ان کو منصب صدارت مبارک۔ اس سے قطع نظر عمران خان کی اصل مشکل ان کے بے لگام حامی ہیں۔ وہ ان کی جماعت میں بھی موجود ہیں، اور میڈیا کے اندر بھی۔ ان کی حالت اس نو عمر دولہا کی سی ہے جس کی شادی تو ہو گئی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ شب عروسی کیسے گزارنی ہے… اللہ تعالیٰ ‘ عُروس اقتدار‘ کو حفظ و امان میں رکھے