منتخب کردہ کالم

اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی’’دلی ابھی دور ہے‘‘ تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی’’دلی ابھی دور ہے‘‘ تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ابھی خورشید شاہ بدستور قائد حزب اختلاف ہیں، یہ بات یقینی نہیں ہے کہ تحریک انصاف انہیں ہٹا پائے گی یا نہیں لیکن لڑائی اس بات پر شروع ہوگئی ہے کہ نیا قائد حزب اختلاف عمران خان کو بنایا جائے یا شاہ محمود قریشی کو، اور یہ لڑائی تحریک انصاف کے اندر جاری ہے، شاہ محمود کا مخالف دھڑا جسے عرف عام میں جہانگیر ترین کا گروپ کہہ سکتے ہیں یہ چاہتا ہے کہ اگر خورشید شاہ کو ہٹا کر کسی دوسرے کو قائد حزب اختلاف بنانا ہے تو وہ عمران خان ہونے چاہیں۔ شاہ محمود قریشی نہیں، حالانکہ بیچارے شاہ محمود خود چل کر اس پارٹی کے پاس گئے تھے جو ابھی تھوڑا عرصے پہلے تک ان کے نشانے پر تھی، دونوں کے درمیان الزام تراشی بھی جاری رہتی تھی یہاں تک کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کی ایک معزز خاتون رہنما زہرہ آپا کے قتل کا الزام بانی مُتحدہ پر لگایا تھا، یاد رہے کہ اس وقت ڈاکٹر فاروق ستار نے بانی متحدہ سے اپنی راہیں جدا نہیں کی تھیں، ویسے بعض لوگ تو اب بھی نہیں مانتے کہ وہ اپنے سابق قائد کو چھوڑ چکے ان کا کہنا ہے کہ یہ وقتی سیاسی چال ہے جب وقت بدلے گا تو محبتیں پھر عود کر آئیں گی، تو خیر دونوں جماعتوں نے چٹے دن ثابت کردیا کہ سیاست میں اصول وصول کچھ نہیں ہوتے بس سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں، ابھی تو یہ صرف قائد حزب اختلاف کا معاملہ ہے، آپ ذرا تصور فرمائیے اگر قائد ایوان کا عہدہ سامنے ہوتا تو کیسی کیسی ’’اصول پسندی‘‘ نہ ہوتی۔ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے تو کل ہی شاہ محمود قریشی کو کہہ دیا تھا کہ ہم بھی قائد حزب اختلاف کو بدلنے کے حق میں ہیں اور آپ ہی بہترین متبادل ہیں لیکن ابھی یہ بات ہوا میں ہی تھی کہ تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین کا گروپ کھل کر سامنے آگیا اور اس کا یہ موقف ہے کہ ہمارا قائد حزب اختلاف تو عمران خان ہیں ہم کسی شاہ محمود کے حق میں نہیں۔ اب قائد حزب اختلاف تبدیل ہوتا ہے یا نہیں۔ اتنی بات تو واضح ہوگئی کہ تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کہاں کھڑے ہیں اور کل کلاں واقعی کسی عہدے پر ان کے تقرر کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو انہیں کس کس کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ذرا اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا تحریک انصاف خورشید شاہ کو ہٹانے میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے بہت سے ارکان ایسے ہیں جن کے بارے میں یقین نہیں ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کے مطابق پارٹی کے نامزد امیدوار کی حمایت کریں گے، وہ مختلف موقف بھی اپنا سکتے ہیں۔
جہاں تک باقی اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے ان سب کی رائے بھی یہی ہے کہ اول تو قائد حزب اختلاف کو بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر ہے بھی تو جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے وہ مناسب نہیں، مسلم لیگ ق کا کہنا ہے کہ فیصلہ پہلے کرلیا گیا ہے، امیدوار کا نام بھی دے دیا گیا ہے، اور ہمارے ساتھ کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی، ایسی صورت میں ہمارے ووٹ کی توقع نہ رکھی جائے، مسلم لیگ ق کو تو یہ شکایت بھی ہے کہ قائد ایوان کے انتخاب کے وقت بھی تحریک انصاف نے ایسی ہی حرکت کی تھی اور کسی مشاورت کے بغیر امید وار کا اعلان کردیا گیا تھا، اب پھر وہی بات کی گئی ہے اس لئے ہم کیوں تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیں، جماعت اسلامی کا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ پارلیمنٹ اپنا آخری سال گذار رہی ہے۔ سات آٹھ ماہ کی مدت باقی ہے ایسے میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کی کیا ضرورت آن پڑی ہے، تاہم جماعت کے سیکرٹری نشر و اشاعت امیر العظیم کا کہنا تھا کہ ابھی تو کوئی ہمارے پاس آیا نہیں، جب آئے گا اور اس مسئلے پر بات کرے گا تو اسی وقت ہی کوئی باقاعدہ موقف سامنے لائیں گے۔ اے این پی تو عمران خان کے نئے الیکشن کے مطالبے پر بھی خوش نہیں اب نیا قائد حزب اختلاف بنانے پر بھی اس نے تحریک انصاف کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا ہے، اے این پی کا موقف ہے کہ خورشید شاہ نے جمہوریت کو بچایا اور استعفے دینے کے بعد سڑکوں پر دھرنے دینے والے تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ کی واپسی انہی کی کوشش سے ہوئی۔ خود خورشید شاہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے ان ارکان کو تنخواہیں بھی دلائیں۔ قومی وطن پارٹی کو تو ابھی حال ہی میں خیبر پی کے کی حکومت سے دوسری مرتبہ نکالا گیا ہے اور الزام یہ لگایا گیا ہے کہ اس پارٹی نے کرپشن کے خلاف جدوجہد میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے جب قومی وطن پارٹی کے وزراء کو کرپشن کا الزام لگا کر نکالا گیا تھا تو ان سے معذرت کرکے پارٹی کو دوبارہ شریکِ حکومت کیا گیا تھا۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس پارٹی کو دوبار مخلوط حکومت سے ذلیل کرکے نکالا گیا ہو وہ کیوں تحریک انصاف کو ووٹ دے گی، اور کون کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیگا۔ اگرچہ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس جانے والے آفتاب شیر پاؤ کے دروازے پر بھی دستک دینے میں حجاب محسوس نہیں کریں گے لیکن ان کی حمایت کا امکان نہیں۔ ایسے میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خورشید شاہ کو ہٹانے میں کامیابی ملنے کا امکان نہیں، پھر دیکھنا ہوگا کہ کیا اس معاملے میں ووٹنگ کا وہی طریقہ اپنایا جائیگا جو قائد ایوان کے انتخاب میں اختیار کیا جاتا ہے، اپوزیشن لیڈر عمومی طور پر اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جس کے پاس اسمبلی میں حکمران جماعت کے بعد سب سے زیادہ نشستیں ہوں جو اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس ہیں ایسے میں خورشید شاہ کو ہٹانا آسان نہیں، اسلئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’دلی ابھی دور بلکہ بہت دور ہے‘‘۔