اڈیالہ میں ملاقات…رؤف طاہر
ان 25 منٹوں کے لیے کوئی مہینہ بھر سے کوشش جاری تھی۔ نیب عدالت سے سزا یافتہ باپ، بیٹی نے وطن واپسی میں تاخیر نہیں کی تھی۔ 6 جولائی کو عدالت نے باپ کو 10 سال اور بیٹی کو 7 سال کی سزا سنائی تھی (کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی سزا ہوئی۔ وہ پاکستان ہی میں موجود تھا اور اس نے 2 دن بعد مانسہرہ سے پنڈی آ کر، بڑے کروفر کے ساتھ خود کو حوالۂ پولیس کر دیا تھا۔) بیگم صاحبہ وینٹی لیٹر پر تھیں اور باپ، بیٹی اپنی عزیز ترین ہستی کی عیادت کے لیے لندن میں تھے کہ فیصلے کی تاریخ طے کر دی گئی۔ فیصلے کے اعلان میں تاخیر پہ تاخیر ہوتی گئی۔ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر ”پوسٹ‘‘ لگا دی، ”جج صاحب سمیت 22 کروڑ عوام کو فیصلے کا انتظار‘‘۔
اب افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ تھا، جو دراز تر ہوتا گیا۔ واپس نہ آنے کا ٹھوس جواز موجود تھا۔ بیگم صاحبہ کا وینٹی لیٹر پر ہونا۔ ڈاکٹروں کی ایڈوائس کہ رفیقِ حیات اور چہیتی صاحبزادی مریضہ کے پاس موجود رہیں… بعض خیر خواہوں کا کہنا تھا کہ خود میاں صاحب کی عمر اور صحت بھی اس قابل نہیں کہ خود کو قید و بند کی صعوبتوں کے سپرد کر دیں۔ 1999ء کی بات اور تھی، تب آتش جوان تو نہیں تھا لیکن 50 سال کی عمر بہت زیادہ نہ تھی۔ صحت کے مسائل بھی ایسے نہ تھے۔ رفیقۂ حیات کے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہونے کا سنگین جذباتی و نفسیاتی دبائو بھی نہ تھا؛ چنانچہ 12 اکتوبر کی شام معزولی کے بعد کال کوٹھڑی میں 40 دن اس عالم میں گزار لئے کہ باہر کی کوئی خیر خبر نہ ہوتی۔ ڈکٹیٹر کا اپنے قریبی دوستوں سے کہنا تھا کہ وہ اپنے دشمن نمبر ایک کو سیاسی و مالی لحاظ سے تباہ حال اور اعصابی و نفسیاتی لحاظ سے مفلوج کر دے گا (معزول وزیر اعظم کے لیے ”دشمن نمبر ایک‘‘ کے الفاظ اس نے مدیرانِ جرائد اور سینئر اخبار نویسوں سے ایک ملاقات میں بھی کہے تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ سکیورٹی رسک نہیں۔ یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ سکیورٹی رسک نہ ہونے کی بات وہ بے نظیر کے متعلق نہیںکہہ سکتا۔ قیدِ تنہائی کی یہ کیفیت کوئی 40 دن جاری رہی حتیٰ کہ کراچی کی خصوصی عدالت میں طیارہ اغوا سازش کیس میں پیشی کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ جہاں انہیں بکتر بند گاڑی میں لایا جاتا، اب لانڈھی جیل تھی۔ کراچی کی خصوصی عدالت سے سزا کے بعد اٹک قلعے کا زنداں خانہ تھا۔ ہیلی کاپٹر کیس (ایک اور مقدمے) کے لیے عدالت قلعے کے اندر ہی لگتی۔ یوں بھی ہوا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہوائی سفر کے دوران ”ملزم کے ہاتھ اور ٹانگیں سیٹ کے ساتھ باندھ دی جاتیں۔ اس خبر پر بابائے جمہوریت نے احتجاج کیا، تو وہاں موجود ایک سینئر صحافی نے اسے سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ضروری قرار دیا، جس پر بزرگ سیاستدان بھڑک اٹھے، ”تو کیا یہ خطرہ ہے کہ وہ کہیں جہاز سے باہر نہ کود جائے‘‘؟
اب نیب عدالت سے سزا کے وقت عام انتخابات میں صرف اڑھائی ہفتے باقی تھے۔ ہر آنے والا دن انتخابی درجۂ حرارت کو اوپر کی طرف لے جا رہا تھا۔ سزا یافتہ لیڈرکی اپنی کریڈیبلٹی کے علاوہ پارٹی کی ساکھ اور وقار بھی دائو پر تھے۔ ایک خبر کے مطابق (جس کی تردید نہ ہوئی) اسے یہ ”پیغام‘‘ بھی پہنچایا گیا کہ وہ (اور اس کی صاحبزادی) ابھی واپس نہ آئیں‘ لیکن وہ کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ ایسے مواقع پر وہ عقل کی بجائے دل کی سنتا ہے۔ ”عقل مندوں‘‘ کی نہ سننے کے نتیجے میں ہی، وہ ہر بار اچھی بھلی حکومت گنوا بیٹھا۔
13 جولائی کی شب، باپ بیٹی لاہور پہنچ گئے۔ اب اڈیالہ جیل ان کا ٹھکانہ تھا۔ یہاں قیدیوں کی فہرست میں باپ کا نمبر 3421 اور بیٹی کا نمبر 3422 تھا۔ ملاقاتیوں کے لیے جمعرات کا دن طے پایا۔ ایک خوش گمانی تھی کہ شاید عید سے پہلے ضمانت ہو جائے۔ عدالتی تعطیلات کے باعث معاملہ مؤخر ہوا تو ہم نے ایک بار پھر ملاقات کے لیے کوشش شروع کی۔ بدھ (29 اگست کی شام) جیل خانہ جات کے ایک اعلیٰ افسر نے، اگلے روز کی ملاقات کنفرم کر دی۔ اس کے ساتھ یہ یاد دہانی بھی کہ اس روز نیب کورٹ میں پیشی ہے؛ چنانچہ کورٹ سے واپسی پر ہی ملاقات ممکن ہو گی (گویا اس روز ملاقاتوں کا وقت آدھا رہ گیا تھا) اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر5 پر ہجوم تھا۔ دور تک گاڑیوں کی قطار الگ تھی۔ جیل کے چار، پانچ افسر ہاتھوں میں ملاقاتیوں کی فہرستیں لئے ڈیوٹی پر تھے۔ ہمیں کوئی پون گھنٹہ یہاں لگ گیا۔ اندر داخلے کے بعد چیکنگ کا ایک اور سلسلہ در سلسلہ تھا۔ ایک جگہ موبائل فون جمع کرایا، اس سے آگے شناختی کارڈ کی چیکنگ اور اندراج، اس سے آگے جسمانی تلاشی، پھر انتظار گاہ میں کوئی پندرہ منٹ، یہاں درجن بھر کرسیاں تھیں… آٹھ، آٹھ، دس، دس کا گروپ ملاقات کے لیے جاتا۔ اپنی باری میں ہم بھی ”میٹنگ روم‘‘ میں پہنچے… میاں صاحب اور مریم ساتھ ساتھ بیٹھے تھے… نیلے آسمانی رنگ کی شلوار قمیص میں، میاں صاحب خوب جچ رہے تھے… باپ، بیٹی نے وزن کم کیا ہے۔ چہروں پر آسودگی اور لہجے میں وہی اعتماد۔ عطاء الرحمن نے کہا، میاں صاحب آپ (اور آپ کی صاحبزادی) نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کی روایتی حسِ مزاح پھڑکی، ”ہمیں تو یوں لگتا ہے جیسے تاریخ ہمیں رقم کر رہی ہے‘‘۔ تاریخ رقم کرنے والی بات عطا صاحب نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے خط سے لی تھی… اپنی صاحبزادی اندرا کے نام جیل سے لکھے یہ خطوط کتابی صورت میں محفوظ ہیں۔ مریم کو کتاب کا نام بھی معلوم تھا، ”Glimpses of History‘‘۔ میاں صاحب بتا رہے تھے کہ ہفتے میں ایک دن 20 منٹ کے لیے جیل کے پی سی او سے اپنے احباب کو ٹیلی فون کرنے کی سہولت دیگر قیدیوں کی طرح انہیں بھی حاصل ہے؛ چنانچہ لندن میں بیگم صاحبہ سے بات ہو جاتی ہے… جیل سے باہر تھے تو روزانہ کم از کم دو بار ویڈیو کال پر بات ہوتی تھی (ظاہر ہے، یہاں ”ویڈیو‘‘ تو نہیں) بیگم صاحبہ ہوش میں آ گئی ہیں‘ لیکن انہیں سزا اور قید کا نہیں بتایا گیا۔ وہ پوچھتی ہیں کہ اب ویڈیو کال کیوں نہیں ہوتی؟ مریم بات کیوں نہیں کرتی؟ عیادت کے لیے میاں صاحب اور مریم کب آئیں گے؟ حسین نواز مختلف حیلوں بہانوں سے ماں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میاں صاحب کو 2 اردو کے اور 2 انگریزی کے اخبار ملتے ہیں۔ ٹی وی پر صرف سرکاری چینل کی سہولت ہے۔ فرصت کے لمحات (اور ظاہر ہے، یہاں فرصت ہی فرصت ہے) مریم تاریخ اور سیاست پر کتب کے مطالعہ میں گزارتی ہیں۔ کیا وہ خود بھی زنداں کے روز و شب کے احوال قلم بند کرنے کا سوچیں گی؟
یہاں حنیف عباسی بھی تھا۔ اس نے بھی خاصا ”لوز‘‘ کیا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ ہمیں تو وہ اس سمارٹنس میں زیادہ اچھا لگا۔ اس کا عزم بھی اسی طرح جواں ہے۔ کوئی پریشانی یا پشیمانی نہیں۔ ملاقاتیوں میں زبیر عمر بھی تھے۔ یحییٰ دور کے جنرل عمر کا ایک بیٹا (اسد) پی ٹی آئی میں ہے۔ دوسرے بیٹے زبیر نے چھ سال قبل نواز شریف کی قیادت میں سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا‘ اور آج تک عہدِ وفا پر قائم و دائم ہے۔ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد مسلم لیگی گورنروں میں، وہ پہلا تھا جس نے سندھ کی گورنری سے استعفیٰ دینے میں تاخیر نہ کی۔ یاد آیا، میاں صاحب کی پہلی وزارتِ عظمیٰ میں، میاں اظہر پنجاب کے گورنر تھے۔ اس دوران ایک شب بھی گورنر ہائوس میں بسیرا نہ کیا۔ صبح دفتر آتے اور شام کو گھر کا رخ کرتے… کبھی کبھار گاڑی بھی خود چلاتے پائے گئے… 18 اپریل 1993ء کی شب صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو 58/2/B کا نشانہ بنایا اور اگلی صبح میاں اظہر نے گورنری سے استعفیٰ ایوان صدر فیکس کر دیا۔ میاں صاحب کی دوسری حکومت میں برسوں کے یہ یارانے کیوں ٹوٹے، مشرف سے راہ و رسم کیسے استوار ہوئی، پھر قاف لیگ کا بانی صدر اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات میں دونوں سیٹیں کیسے ہارا‘ اور پارٹی کی صدارت سے کیسے فارغ کیا گیا۔ اس سب کچھ میں اپنے ہی ”دوستوں‘‘ کا کتنا ہاتھ تھا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ گجرات کے بڑے چودھری صاحب اپنا ”سچ‘‘ منظر عام پر لے آئے ہیں۔ میاں اظہر بھی اپنا ”سچ‘‘ منظر عام پر لے آئیں تو یہ سیاسی خود نوشتوں میں ایک اہم اضافہ ہو گا۔