اکانومی کی منڈی میں بھارت……نذیر ناجی
مودی نے بھارتی تاریخ میں اپنی جگہ تو بنا لی‘ مگرنئی دہلی کو اس کی معیشت‘ تجارتی مذاکرات‘ غیر ملکی تعلقات میں کئی چیلنجوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی روایات کا اہتمام بھی کرنا ہوگا۔ مودی کی حکومت کو اگلے پانچ سال میں کئی کلیدی مسائل کو حل کرناہو گا۔ بھارت کواس کی زیادہ آبادی اور معیشت کوسنبھالتے ہوئے زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر نا ہو گی۔ زندگی کے معیار کو بڑھانے اور گلوبل مرحلے پر مجموعی طور پرکئی اہم اقدامات کرناہوں گے۔
بھارت کی فنانس کمپنیوں‘ جوبینکوں کے سایہ کے طور پر جانی جاتی ہیں‘ ان کے پوشیدہ انفراسٹرکچر ‘ لیزنگ اور فنانس سروسز (آئی ایل اور ایف ایس ایس) جیسے منصوبوں پر ہمیشہ قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈیفالٹر فکسڈکسٹمر ‘مشترکہ فنڈز اور بینکوں کے درمیان تنازعات آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں بینکوں کو زیادہ پیسہ فراہم کرنے کے لیے اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ بینک اور یہی سرمایہ دار کمپنیاں بھارت کے مالیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں اور کریڈٹ کی پیشکش کرنے کی صلاحیت ‘بھاری سرمایہ کاری اور ان کے حوالے سے معاملات بھارتی کسٹمرز کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ مودی نے نئے شخص ”شکستا داس‘‘ کو حال ہی میں تعینات کیا۔ داس کی زیر قیادت ایک نسخہ پیش کیا گیا کہ بھارتی ریزرو بینک (RBI) کی جانب سے حال ہی میں اعلان کیا گیا کہ 3.6 بلین ڈالر واپس معیشت میں شامل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ آر بی آئی نے ان بینکوںکی طرز پر 717 ملین ڈالر کریڈٹ پیش کرے گی۔
بے روزگاری بھارت کی اقتصادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے ۔ فروری میں‘ مودی انتظامیہ نے مزدوری کی رپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا ‘جس میں اعداد و شماراور افواہوں کے مطابق؛ 45سال سے اوپربے روزگار افراد کی تعداد 6.1 فیصد تھی‘ تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار کا تخمینہ ہے کہ بی جے پی کی پہلی مدت کے دوران ہندوستان کے نجی شعبے کے روزگار میں 1.3 فیصد اضافہ ہوا‘ جبکہ بھارتی نیشنل کانگریس کے پچھلی مدت (2009-2014ئ) کے دوران ملازمت میں 6.5 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔یوں مختصر مدت میں‘ مودی کی حکومت کومختلف فلاح و بہبود کے پروگراموں کے ذریعہ بے روزگاری کو حل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ اس میں فروری میں اعلان کردہ ایک پروگرام پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے 120 ملین سے زائد کسانوں میں84 ڈالر سالانہ اضافی رقم کی پیشکش کی گئی اور مہاتما گاندھی نیشنل دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے‘ جو دیہی گھروں میں مزدوروں کے لیے 100 دن کی مزدوری کی ضمانت سمجھے جانے لگے ‘ لیکن یہ بھارت کے پوشیدہ مزدوری کے سخت قوانین میں مشکلات کو کم کرنے کا عارضی حل ہے۔
مودی حکومت کو مزدوری کے قوانین میں جامع پالیسی بنانے کے لیے نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔بھارت کی 2.6 ٹریلین ڈالرکی معیشت دنیا میں چھٹی سب سے بڑی اکانومی ہے اور اس کا سائز دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ مودی کے گزشتہ پانچ سال کے دوران2016-2017 ء کے مالی سال میں سالانہ اضافہ 8.2 فی صد تک پہنچ گیاتھا‘ تاہم بعض اقدامات کے بعد اب جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق؛ سہ ماہی کے اقتصادی اعداد و شمار میں 7 فی صد کمی واقع ہوئی ‘ بھارت کے تازہ ترین جی ڈی پی کے اعداد و شمار (جو1 مئی کو جاری ہوا) کھپت‘ فکسڈ سرمایہ کاری اور برآمدات میں ڈپس کی طرف اشارہ کیا گیا ‘جوبھارت کے لیے ایک بڑامسئلہ ہے ‘کیونکہ اس کی اکانومی کو فروغ دینے کے لیے ذاتی طور پر کھپت پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کھپت میں سست رفتاری سے بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے‘ مودی کی حکومت کو اپنی ترجیحات میں بھارت میں نجی سیکٹر سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا‘ اس میں غیر مستحکم اثاثوں کو حل کرنے جیسے مسائل پر توجہ دینا ہوگی‘ جس میں بھارت میں ریاستی ملکیت اور نجی بینکوں سے تقریبا 10 فیصد قرضوں کا حساب ہوتا ہے۔
امریکہ ‘بھارت کے اہم دفاعی شراکت داروں میں سے ایک ہے‘ دونوں نے حالیہ مہینوں میں تجارت سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اپریل میں‘ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ اور نئی دہلی کے ٹیرف اور ان سے ملنے والے فوائد کو منسوخ کر دیا تھا‘ جو 1970ء میں بنایا گیا‘جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے ساتھ واشنگٹن کی تجارت کو فروغ دینا تھا۔ جوابی کارروائی میں‘ نئی دہلی نے بار بارامریکہ کے خلاف 235 ملین ڈالر کے ٹیرف کو لاگو کرنے کی دھمکی دی۔ دوسری جانب بھارت کی نئی حکومت کے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر ای سی پی) میں‘ بھارت کے جنوب مشرقی اقوام متحدہ کے ایسوسی ایشن اور 6 تجارتی شراکت داروں(بھارت‘ چین‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی کوریا‘ آسٹریلیا اور جاپان) کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے طوالت کا شکار ہیں‘ جن میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی‘جسے بھارت کی بہت بڑی شکست بھی کہا جا رہاہے۔
چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات خاصے اچھے نہیں‘ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی تاریخ موجود ہے ‘دوکلام(سرحدی وادی) میں 2017 ء کے بعد نسبتاً پرسکون رہی‘ 2017ء میں ہی ہزاروں چینی اور بھارتی فوجی بھوٹان اور چین کے درمیان متنازع علاقہ میں آمنے سامنے آ گئے تھے ۔ بھارت چین کو اپنے اہم سٹریٹجک حریف کے طور پر دیکھتا ہے‘جبکہ اسے معلوم ہے کہ چین اس سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھتا ہے۔بھارت کو چینی منصوبے ” ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پر بھی تشویش ہے‘جس میںپاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور نیپال شامل ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو فروغ دینے کے ساتھ فوجی تعلقات کو بڑھانے‘پاکستان اور چین کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات پر غور کرنے کے ساتھ انہیں حل کرنے کی کوشش بھی کرنا ہوگی ۔