اکبر معصوم‘ ریکارڈ کی درستی اور شمس الرحمن فاروقی…ظفر اقبال
خبر یہ ہے کہ صاحب ِطرز جدید شاعر اکبر معصومؔ کا دوسرا مجموعہ غزل ”بے ساختہ‘‘ کے نام سے رنگ ِ ادب‘ کراچی نے شائع کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ”اور کہاں تک جانا ہے‘‘ اپنے پہلے مجموعے کی داد اہل ِادب سے جی بھر کے وصول کر چکے ہیں۔ ضخامت160 صفحات اور قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کا دیباچہ جسے آپ شاعر کا خاکہ بھی کہہ سکتے ہیں‘ شفیق سہروردی نے لکھا ہے۔ انتساب والدہ محترمہ کے نام ہے۔ کتاب موصول ہونے پر ذرا تفصیل سے بات ہو گی۔
دوسرا معاملہ یوں ہے کہ کل پھر ہمارے بھائی ہارون الرشید نے ایک مصرع کو باقاعدہ بے وزن کر کے لکھ دیا ہے۔ ہم اسے نظر انداز بھی کر دیتے ‘لیکن صاحب ِ موصوف نے اسے اپنے کالم کا عنوان بھی بنایا ہے‘ جو ظاہر ہے کہ جلی حروف میں ہوتا ہے‘ اس لیے زیادہ توجہ طلب بھی۔ مذکورہ مصرع یہ ہے ع
تو اپنی خود نوشت کو خود اپنے قلم سے لکھ
جملے کی حد تک تو یہ بالکل درست اور مکمل ہے‘ لیکن لفظ ”کو‘‘ نے اسے خارج از وزن کر دیا ہے‘ یعنی اس کی صحیح صورت یہ ہوتی ع
تو اپنی خود نوشت خود اپنے قلم سے لکھ
فرق تو نازک سا ہے‘ لیکن شاعری نزاکتوں اور نفاستوں ہی کا تو نام ہے۔ فرض کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اگر آپ اپنی تحریر کو سجانے یا زور دار بنانے کے لیے شعر یا مصرعے سے استفادہ کریں ‘تو وہ صحیح صورت میں ہونا چاہئے۔وما علینا الا البلاغ۔
ایک عزیز فیض عالم بابر نے میری ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لفظ ”بچارہ‘‘پر اعتراض لگایا تھا کہ یہ پنجابی لفظ ہے اور اردو میں مستعمل نہیں ہے۔ میں نے انہیںسمجھانے کی کوشش تو کی تھی کہ پنجابی اور اُردو کے کئی الفاظ آپس میں ملتے جلتے ہی ہیں‘ لیکن ان کا اصرار تھا کہ اہل ِزبان اس طرح نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں میں نے مجی شمس الرحمن فاروقی کے شعری کلیات پر رائے زنی کی ‘تو دیکھا کہ ”بچارہ‘‘ کا لفظ انہوں نے بھی استعمال کر رکھا ہے۔ ان کی نظم ”بارِ گراں‘‘ کے مذکورہ مصرعے اس طرح سے ہیں۔
ننھے کیچوے جیسے
بچاروں کو مسل کر پیستی ہیں
اس عزیز کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ کہاں‘ یہاں‘ وہاں وغیرہ کے بعد پہ یا پر نہیں لگا سکتے کہ اساتذہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ اس ضمن میں ‘میں فاروقی صاحب ہی سے چند مثالیں پیش کروں گا۔ صفحہ 85 پر درج غزل کے یہ اشعار ؎
کہا یہ سنگ سے کس نے یہاں پہ بارش ہو
وہیں سے شعلہ اُگے گا جہاں پہ بارش ہو
نہ کوئی بزرگ بچا ہے نہ حرفِ سبزہ کہیں
نہ کوئی کھیت نہ صحرا کہاں پہ بارش ہو
مطلب یہ کہ زبان کے ہر طرف سے کابلے کسنے کی بجائے اسے کھل کھیلنے دیا جائے کہ یہی اس کی صحیح خدمت بھی ہے ‘نہ کہ اسے محدود سے محدود تر کرتے رہنا۔ اور اب آخر میں جو ایک دو غزلہ ہو گیا ہے‘ پیش خدمت ہے۔
یہ مجبوری کے مارے کر رہے ہیں
غلط جو چپکے چپکے کر رہے ہیں
کبھی تو بیٹھ کر کرتے تھے سب کچھ
مگر اب آتے جاتے کر رہے ہیں
یہاں آنکھیں لڑا رکھی ہیں سب نے
تو سارا کام اندھے کر رہے ہیں
ہمیں کرنے نہیں دیتے ہو‘ لیکن
یہ سب تو اچھے اچھے کر رہے ہیں
نہیں کرنا تو اس کو ٹال کر ہم
جو کرنا ہے ابھی سے کر رہے ہیں
ابھی پانی نہیں آئے گا جلدی
ابھی اپنے کنارے کر رہے ہیں
سمجھ کر ہی نہیں دیتا ہے کوئی
کئی دن سے اشارے کر رہے ہیں
وہ ہٹتے جا رہے ہیں پیچھے پیچھے
ہم ان کے آگے آگے کر رہے ہیں
ظفرؔ کرتے تھے جو رو دھو کے پہلے
وہی اب ہنستے ہنستے کر رہے ہیں
یہ جو کچھ ایسے ویسے کر رہے ہیں
سمجھتے بھی ہو کیسے کر رہے ہیں؟
جو کام آخر میں کرنا چاہیے تھا
وہی ہم سب سے پہلے کر رہے ہیں
سبھی کہتے ہیں کچھ کرتے نہیں ہم
وگرنہ اچھے خاصے کر رہے ہیں
کریں گے کام اپنے بھی کبھی ہم
ابھی تک تو تمہارے کر رہے ہیں
ابھی نیچے سے اوپر کر رہے تھے
ابھی اوپر سے نیچے کر رہے ہیں
ہماری جو سمجھ میں ہی نہ آیا
ہمارے بال بچے کر رہے ہیں
برے ہیں دونوں‘ چوری ہو کہ یاری
سو وہ بھی ڈرتے ڈرتے کر رہے ہیں
یونہی پالے نہیں لفظوں کے بندر
مداری ہیں تماشے کر رہے ہیں
ظفرؔ ہم کیا‘ ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں