منتخب کردہ کالم

اکثریت کوئی بھی قانون منظور کرا سکتی ہے: قدرت اللہ چودھری

اکثریت کوئی بھی قانون منظور کرا سکتی ہے: قدرت اللہ چودھری

قومی اسمبلی میں بل کی منظوری بھی متوقع تھی اور شور شرابہ بھی، اب ظاہر ہے جن لوگوں کو ایک ایسا بل منظور ہوتا ہوا نظر آرہا تھا جس کی ایک شق سے وہ اتفاق نہیں کرتے تھے، اب اس پر شور شرابہ بھی نہ ہوتا تو بڑی زیادتی تھی کیونکہ ہماری کیا دنیا بھر کی اسمبلیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، برادر ملک ترکی میں ہم نے ارکان اسمبلی کو باہم گتھم گتھا دیکھا، ایک دوسرے کی ٹائیاں کھینچنے کے مناظر بھی نظر آئے حالانکہ دنیا بھر میں کسی کی ٹائی کھینچنا جرم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ اس انداز میں باندھی جاتی ہے کہ آدمی کا گلا بھی گھونٹا جاسکتا ہے لیکن قانون ساز اس قانون کا احترام نہیں کرتے، اسمبلی میں کسی قانون کی منظوری خالصتاً نمبر گیم کا معاملہ ہوتا ہے، قومی اسمبلی میں حکومت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر کوئی بھی قانون منظور کرا سکتی ہے اور یہ کام آج سے شروع نہیں ہوا ہر حکومت میں ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ اگر ضرورت پڑے تو مشکل قانون سازی کے وقت حزب اختلاف کے لیڈروں کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے زبردستی باہر بھی نکال دیا جاتا ہے اور اگر کوئی معزز رکن پھر بھی باہر نہ جائے تو سارجنٹ ایٹ آرمز ’’ڈنڈا ڈولی‘‘ کا انتظام بھی کر دیتے ہیں۔ ماضی میں بہت سی نامور سیاسی شخصیات کے ساتھ یہ صورتحال پیش آچکی، بہت سے نام ذہن میں آتے ہیں۔ مفتی محمود مرحوم بھی اسی سلوک کے مستحق گردانے گئے، قومی اسمبلی چونکہ جمہوری ادوار ہی میں کام کرتی ہے اس لئے آپ کو اگر یہ صورتحال غیر معمولی لگتی ہے تو بھی آپ کے اطمینان قلب کیلئے بتایا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی ایک جمہوری دور میں ہی ہوا تھا، اس لئے جن لوگوں کو آج اسمبلی میں ہونے والے واقعات سے جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے تو انہیں مطمئن رہنا چاہئے کہ جمہوریت کو خطرہ کوئی پہلی دفعہ لاحق نہیں ہوا، اگر قانون کی ایک ’’ناپسندیدہ‘‘ شق منظور ہوگئی ہے تو یہ بھی کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا، بلکہ آپ تسلی رکھیں یہ کوئی آخری بار بھی نہیں ہورہا۔ جمہوریت کو اللہ سلامت رکھے آپ کو ایسے مناظر آئندہ بھی دیکھنے کو ملتے رہیں گے، یہ معاملہ کوئی موجودہ اسمبلی کے ساتھ بھی مخصوص نہیں ہے، جو بھی اسمبلی آئے گی اس میں ایک جانب حکومت بیٹھی ہوگی اور دوسری جانب حزب اختلاف، ان دونوں کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے ایک سپیکر بھی ہمیشہ ہوگا اور اس کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہی ہوگا کیونکہ سپیکر کے انتخاب کے وقت ہی پتہ چلتا ہے کہ کون سی جماعت کو ایوان میں کتنی اکثریت حاصل ہے۔ جو جماعت اپنا سپیکر منتخب نہ کراسکے وہ اپنا قائد ایوان بھی منتخب نہیں کراسکتی۔ آج اگر سپیکر کا کردار کسی کو پسند نہیں تو کل جب اس کرسی پر کوئی نیا چہرہ سجا ہوگا تو وہ بھی بہت سوں کو پسند نہیں ہوگا۔ یہ پسند ناپسند بھی ہر دور میں رہی ہے، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا چودھری امیر حسین قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، ان کے دور میں مخدوم جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں ایک خط لہرا دیا تھا جس کے مندرجات اس وقت کے فوجی صدر کو پسند نہ آئے اور انہوں نے جاوید ہاشمی کو جیل میں ڈال دیا، اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے پورا زور لگالیا کہ کسی طرح سپیکر چودھری امیر حسین مخدوم جاوید ہاشمی کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیں اور انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی جائے۔ امیر حسین چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے لیکن وہ دل کے امیر نہیں تھے اس لئے قواعد و ضوابط ان کی راہ میں حائل ہوگئے اور جب بھی اسمبلی میں یہ مطالبہ اٹھا انہوں نے اسے رد کردیا۔ سپیکر سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو، لیکن جہاں کسی کے ماتھے پر شکن آنے کا خوف ہو وہاں غیر جانبداری کی حدود سکڑ بھی جاتی ہیں سو امیر حسین کے پورے دور میں قومی اسمبلی کا ایوان جاوید ہاشمی کی تقریر کو ترستا رہا۔ بات ذرا دور نکل گئی عرض یہ کیا جارہا تھا کہ قومی اسمبلی کا ایوان کوئی بھی ہو، اس کی بعض خصوصیات ہر دور میں یکساں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں سکہ اکثریت کا چلتا ہے اور اقلیت شور شرابہ کرتی، واک آؤٹ کرتی، مائیک توڑتی، مسودات کی کاپیاں پھاڑتی اور اگر ممکن ہو تو کرسیاں اٹھا کر ایک دوسرے پر پھینک دیتی ہے، غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال بھی ہو جاتا ہے ایسے الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں جن پر احتجاج بھی ہوتا ہے بلکہ عدالتوں میں مقدمات بھی ہو جاتے ہیں حالانکہ اسمبلی میں کہے گئے الفاظ پر کوئی مقدمہ نہیں چل سکتا لیکن اس دور میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایوان میں کہے گئے حذف شدہ الفاظ پر بھی متاثرہ رکن عدالت چلے گئے۔
قومی اسمبلی نے انتخابی اصلاحات کا جو بل 2 اکتوبر کو منظور کیا شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد نے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قانون سازی قومی اسمبلی کا حق ہے البتہ یہ آئین کی بنیادی شقوں اور روح کے خلاف نہیں ہونی چاہئے۔ اگرعدالت اس معاملے کو جانچ پرکھ کر یہ فیصلہ کردے یہ قانون خلاف آئین منظور ہوا ہے تو قانون ختم ہو جائے گا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد تو کئی دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بل کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ جب ایسا ہوگا اس وقت اس پر بات ہوگی۔ قومی اسمبلی میں تو حکومت کی واضح اکثریت ہے اس لئے اس بل کی منظوری میں تو کوئی دشواری حائل نہ تھی۔ حکومت نے تو ’’کیمرہ ٹرک‘‘ کے ذریعے یہ بل ایک ووٹ کی اکثریت سے سینیٹ سے بھی منظور کرا لیا تھا اور اس میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کی ترمیم مسترد ہوگئی تھی۔ سینیٹ میں اس بل کی منظوری کم از کم تین جماعتوں کے ارکان کی پوشیدہ کرامات کی وجہ سے ممکن ہوئی جن پر ابھی پردہ پڑا ہوا ہے البتہ پارٹی قیادتیں اپنے اپنے ارکان کو شوکاز نوٹس ضرور جاری کر رہی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا، کیونکہ یہ ارکان بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے، اس لئے اے قارئین محترم، انتخابی اصلاحات کا جو بل منظور ہوا ہے اس کی جس شق پر آج اعتراض کیا جا رہا ہے آج اگرچہ وہ ’’ایک شخص‘‘ کو فائدہ پہنچانے کا باعث بن رہی ہے لیکن بعید نہیں کل کلاں یہ کسی اور لیڈر کی مدد کو بھی آپہنچے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔