منتخب کردہ کالم

’’اکّھیاں دی لالی دَسدی اے‘‘… کالم رئوف طاہر

ڈھاکا… عظیم ڈھاکا… ہر راہ میں مساجد‘ ہر موڑ گھر خدا کا… ڈھاکا عظیم ڈھاکا۔
1971ء میں جب مشرقی پاکستان کا سیاسی بحران‘ ہندوستان کی جارحیت پر منتج ہوا‘ یہ ترانہ مغربی پاکستان کے کونے کونے میں گونج رہا تھا۔ جنوری1998ء میں سہ ملکی سربراہ کانفرنس کی کوریج کے لیے ڈھاکہ جانا ہوا تو یہ ترانہ ایک بار پھر یادوں کے افق پر ابھرا اور دیر تک عجیب سی کیفیت رہی۔ تب حسینہ واجد وزیر اعظم تھیں۔ پاکستان سے نواز شریف اور ہندوستان سے اندر کمار گجرال اس کانفرنس میں شریک ہو رہے تھے۔
ڈھاکا کے ضیا انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترے تو نعیم صدیقی یاد آئے ؎
یہیں لُٹا تھا کہیں قافلہ تمنا کا
نظر اِدھر سے اُدھر بار بار پھرتی ہے
1974ء میں ڈھاکا سے واپسی پر فیض صاحب نے کہا تھا ؎
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا‘ کتنی ملاقاتوں کے بعد
لیکن رفتہ رفتہ حالات بدلنے اور اُدھر بھی آشنائی کے ماہ و سال یاد آنے لگے‘ اجنبیت کی جگہ اپنائیت کا جذبہ انگڑائی لینے لگا۔
ہم کانفرنس کے آغاز سے دو دن قبل ڈھاکا چلے آئے تھے۔ یہ ”زمینی حقائق‘‘ کو جاننے‘ لوگوں کی آنکھوں میں تیرتے جذبوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کے دلوں میں جھانکنے کا اچھا موقع تھا۔ ڈھاکا ایئر پورٹ پر اترتے ہی اپنائیت کے خوشگوار تجربات کا آغاز ہو گیا تھا۔ پاکستان کا سبز پاسپورٹ ہمیں غیر سرکار طور پر وی آئی پی سٹیٹس دلانے کا باعث بن گیا تھا۔
میرے پاس کچھ پاکستانی کرنسی بھی تھی۔ ڈالروں کو بنگلہ دیشی ٹکا میں تبدیل کرانے کے لیے پرس کھولا تو پاکستانی نوٹوں پر نظر پڑتے ہی بنگالی دوست نے کہا‘ یہاں صدر گھاٹ میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستانی نوٹوں کو یوں آنکھوں سے لگاتے ہیں جیسے یہ کوئی مقدس صحیفہ ہوں۔”یہ بہاری ہوں گے‘‘؟۔”نہیں‘ وہ تو کیمپوں میں پڑے ہیں۔ میں تو صدر گھاٹ کی بات کر رہا ہوں‘ جہاں اب بھی متحدہ پاکستان کے دنوں کی نسل موجود ہے‘‘…”وہ اپنی نئی نسل کو بھی…‘‘؟…”نہیں‘اس کے لیے ہندوستان کا اور مقامی ہندوئوں کا استحصالی رویّہ کافی ہے‘ جس سے بنگالی مسلمانوں کی نئی نسل کی آنکھیں کھل رہی ہیں بلکہ کھل گئی ہیں‘‘۔
اور یہ کیفیت افلاس کے شکار عام بنگالیوں ہی میں نہیں‘ ہم نے تو فائیو سٹار ہوٹل‘‘سونار گائوں‘‘ کی لابیوں میں بھی دیکھی‘ جہاں پاکستانی کرکٹر بنگالی لڑکوں اور لڑکیوں میں گھرے ہوئے تھے‘ جو اِن سے آٹو گراف لینے اور ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کو بے تاب تھے۔ ان دنوں یہاں پاکستان اور ہندوستان کے ون ڈے میچ چل رہے تھے۔ بازاروں میں ٹی وی کے سامنے لوگوں کا ہجوم اور پاکستان کے لیے ان کا جوش و خروش دیکھ کر لگتا تھا جیسے ہم لاہور میں ہوں۔ سونار گائوں کی وسیع و عریض لابیوں میں بھی یہی کیفیت تھی۔ ملازمین‘ افسروں اور مہمانوں میں بھی”تقسیم‘‘ بہت واضح تھی۔ پاکستان کے چوکے‘ چھکے یا پاکستانی بائولروں کے وکٹ لینے پر چہرے کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ مسلمان ہے یا بنگالی ہندو۔ دوسرے فائنل میں پاکستان کی شاندار فتح پر ڈھاکا کے مسلمانوں میں بھی سرشاری کی کیفیت پاکستانیوں سے مختلف نہ تھی۔ اتوار کو ہماری واپسی کی فلائٹ ساڑھے بارہ بجے تھی۔ تب پاکستانی بیٹسمین رنز کے ڈھیر لگا رہے تھے اور بنگالی مسلمان خوشی سے دیوانے ہوئے جا رہے تھے۔ اس روز ان کی اس سے بڑی خواہش اور کوئی نہ تھی کہ یہ کپ پاکستان ہندوستان سے چھین کر لے جائے۔
ڈھاکا میں قیام کے پہلے ہی روز ہم انگلش ڈیلی”سٹار‘‘ کے ایڈیٹر جناب محفوظ انعام کے افطار ڈنر پر مدعو تھے۔ لاہور جم خانہ کی طرح ڈھاکا کلب کے بھی اپنے تکلفات ہیں۔ ہم چھ‘ سات ساتھیوں میں سے ایک شلوار قمیص اور دوسرا جینز جوگر پہنے ہوئے تھا۔ ڈھاکا فارن آفس میں وزیر مملکت ابوالاحسن چودھری سے گفتگو کے بعد ڈھاکا کلب جانے سے پہلے ہوٹل جانا ضروری تھا کہ ہمارے یہ ساتھی ڈریس کوڈ کے مطابق لباس پہن سکیں۔ لیکن ہم بدترین ٹریفک جام میں پھنس گئے تھے۔ ڈرائیور نے آدھ پون گھنٹے کی تگ و دو کے بعد جیسے تیسے گاڑی نکالی اور ہم نے ہوٹل کی بجائے سیدھے ڈھاکا کلب جانے کا فیصلہ کیا جہاں دروازے پر میزبان مہمانوں کے خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔ اِن میں سے ایک کو شلوار قمیص اور دوسرے کو جینز جوگر پہنے دیکھ کر وہ ٹھٹکے۔لیکن یہاں بھی ہمارا پاکستانی ہونا کام آیا‘ شلوار قمیص اور جینز جوگر کو بھی داخلے کی اجازت مل گئی۔ ہمیں بتایا گیا‘ چند روز پہلے ایک سفیرِ محترم کو ”پراپر ڈریس‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے داخلے سے روک دیا گیا تھا۔
پُر تکلف ڈنر میں ماحول بہت بے تکلفانہ تھے۔ ڈھاکہ سے شائع ہونے والے تمام بنگلہ اور انگلش اخبارات کے ایڈیٹر اور ڈھاکا پریس کلب کے عہدیداروں سمیت سینئر جرنلسٹوں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔ یوں لگتا تھا : ع
آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں عدالتی بحران (جو صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے استعفے پر منتج ہوا) کے دوران یہاں کے پریس میں اس حوالے سے مفصل خبریں اور تجزیے شائع ہوتے رہے۔ اداریوں میں بھی منتخب وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی حمایت کی جا رہی تھی۔ بنگالی دانشوروں میں غالب رائے یہ تھی کہ سید سجاد علی شاہ کو اس حد تک نہیں جانا چاہیے تھا کہ وہ چیف جسٹس کی بجائے ایک ضدی اپوزیشن لیڈر نظر آنے لگیں اور وزیر اعظم کے خلاف ایوانِ صدر کی سازش کا حصہ بن جائیں۔ وہ اس پر بھی خوش تھے کہ ارکانِ پارلیمنٹ اپنی جماعت اور لیڈر کے وفادار رہے۔ آرمی چیف جنرل جہانگیرکرامت نے بھی طالع آزمائی کی بجائے خود کو آئین کا پابند رکھا اور منتخب وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی۔
”کاش!یہ روایت ”اُن دنوں‘‘ قائم ہو جاتی تو…‘‘
ایک سینئر بنگالی ایڈیٹر نے جو متحدہ پاکستان کے دنوں سے صحافت سے منسلک تھے‘ گہرے دُکھ کے ساتھ کہا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔ لیکن اس ادھوری بات کا مفہوم مکمل اور واضح تھا۔
نمازِ جمعہ کے لیے بھاگم بھاگ بیت المکرم پہنچے تو پہلی رکعت جاری تھی۔ سات منزلہ بیت المکرم کے لان اور باہر سڑک اور فٹ پاتھوں پر بھی نمازی قطار اندر قطار موجود تھے۔ وزیر اعظم پاکستان ڈھاکا میں تھے اور یہ خیال عام تھا کہ وہ نمازِ جمعہ بیت المکرم میں ادا کریں گے۔ نمازکے اختتام پر ہزاروں آنکھیں دروازوں پر لگ گئیں۔ سرتاج عزیز‘ اسحاق ڈار‘ پیر صابر شاہ‘ ہمایوں اختر اور پاکستانی وفد کے دیگر ارکان کی روانگی کے بعد وزیر اعظم پاکستان کے دیدار کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں مایوسی نظر آنے لگی۔ ان میں سے بیشتر اپنے علاقوں کی مساجد کی بجائے محض وزیر اعظم پاکستان کے لیے بیت المکرم آئے تھے۔ ایک صاحب کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہے تھے‘ ”اب تک گیارہ‘ بارہ مسلمان ملکوں کے سربراہ یہاں نمازِ جمعہ پڑھ چکے ہیں۔ ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی نے تو یہاں لیکچر بھی دیا تھا۔‘‘ ہمارے لیے انہیں یہ سمجھانا مشکل ہو رہا تھا کہ خود آپ کی حکومت نے وزیر اعظم پاکستان سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ (سکیورٹی وجوہ کی بنا پر) وہ نماز جمعہ ایئرفورس کی جامع مسجد میں ادا کریں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے لیے دیے گئے عشائیے میں بھی کئی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ اپنے خطاب میں ایک مرحلے پر انہوں نے استاد دامن کی پنجابی نظم کا شعر بھی پڑھا ؎
اکھیاں دی لالی دسدی اے
روئے تسیں وی او‘ روئے اسیں وی آں
اور پھر اس کا ترجمہ بھی‘ آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ روئے تم بھی ہو‘ روئے ہم بھی ہیں… تب استقبالیہ تقریب میں سناٹا تھا۔ میزبانوں کی کیفیت بھی مہمانوں سے مختلف نہ تھی۔