اگر کیس میں ہی کچھ نہ ہو….رؤف طاہر
نیوز اینکر نے میاں نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کو نیب کورٹ سے ملنے والی سزائوں کی معطلی کے (اسلام آباد ہائی کورٹ کے) فیصلے پر رد عمل جاننا چاہا تو عرض کیا: وہی جو کسی ایسی خوش خبری پر ہوتا ہے جس کا پہلے ہی یقین ہو۔ چنانچہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور ان کے ساتھ ملاقات میں موجود مدیران جرائد پر ہی کیا موقوف، جنہیں میٹنگ کے دوران یہ خبر ملی اور انہوں نے اس پر کسی حیرت کا اظہار کرنے کی بجائے، پہلے سے جاری گفتگو میں کوئی توقف کیا، نہ موضوع بدل کر اس پر تبصرے اور تجزیے کی ضرورت محسوس کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کے حوالے سے کارروائی میں ذرا سی دلچسپی لینے والے کو بھی اندازہ تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا؟ سپیریئر کورٹس کے ریٹائرڈ ججوں سمیت ممتاز ماہرینِ قانون کے لیے بھی اس فیصلے میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں تھی۔ زیادہ صحیح بات تو یہ کہ حیرت تب ہوتی اگر فیصلہ مختلف آتا۔
اور اب بعض احباب کی طرف سے کھمبا نوچنے کا عمل جاری ہے۔ سابق حکمرانوں کے مقرر کئے گئے (آپ چاہیں تو اُن کے چہیتے بھی کہہ لیں) قمر زمان چودھری کی رخصتی کو تو سال بھر سے بھی زائد عرصہ ہو چکا۔ اب ان کی جگہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس جناب جاوید اقبال نیب کے چیئرمین ہیں۔ سات مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں (پہلی) معطلی کے وقت، وہ سپریم کورٹ کے باقی ماندہ ججوں میں سینئر موسٹ تھے۔ ان سے سینئر جناب بھگوان داس بھارت میں اپنے مقدس مقامات کی زیارتوں کے باعث رخصت پر تھے؛ چنانچہ جناب جاوید اقبال قائمقام چیف جسٹس قرار پائے اور اس حیثیت میں افتخار محمد چودھری کے خلاف ریفرنس کی سماعت کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ بھی۔بعد ازاں جسٹس بھگوان داس نے بھارت یاترا مختصر کر کے واپسی کا فیصلہ کیا اور آ کر سپریم کورٹ (اور سپریم جوڈیشل کونسل) کی سربراہی کا منصب سنبھال لیا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ قارئین سے معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی۔
یہ بھی یاد رہے کہ 28 جولائی (2017ئ) کو نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ دینے والے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے، معزول وزیر اعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کے خلاف ریفرنسز کے لیے نیب کو ہدایت دیتے ہوئے، بینچ کے ایک فاضل رکن کو مانیٹرنگ جج کی ذمہ داری بھی سونپ دی تھی۔ نیب چیئرمین بھی، اپنے فرضِ منصبی کے مطابق بھرپور دلچسپی لے رہے تھے (اور یقینا رہنمائی بھی کر رہے ہوں گے) لیکن اگر کیس میں ہی کچھ نہ ہو؟
20 اپریل (2017ئ) کے فیصلے کے مطابق بننے والی جے آئی ٹی نے بھی کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ دو ماہ کی مختصر مدت میں 10 جلدوں کی تیاری کوئی معمولی بات نہ تھی۔ نواز شریف کے حامیوں نے اس پر ”واٹس ایپ جے آئی ٹی‘‘ کی پھبتی کسی، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کے انتخاب میں خود سپریم کورٹ نے از حد احتیاط کا مظاہرہ کیا تھا اور متعلقہ محکموں کی طرف سے تجویز کردہ بعض ناموں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ اسے ”ہیرے‘‘ چاہئیں، جن کی صلاحیت، امانت اور دیانت پر کوئی انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ 21 جولائی (2017ئ) کو سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہوئی۔ (فیصلہ 28 جولائی کو سنایا گیا) اس سے ایک روز قبل (20 جولائی) کے اخبارات نے جے آئی ٹی رپورٹ کے متعلق سپریم کورٹ کے ریمارکس کو ”لیڈ‘‘ اور ”سپر لیڈ‘‘ بنایا تھا۔ ہمارے اپنے اخبار ”دنیا‘‘ کی شہ سرخی تھی: ”جے آئی رپورٹ میں وزیر اعظم پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں، ثبوت نہیں کہ وزیر اعظم کسی پراپرٹی کے مالک ہیں‘‘ دیگر اردو اخبارات کی شہ سرخیاں بھی اس سے ملتی جلتی تھیں۔ ایک بڑے انگریزی اخبار کی ہیڈ لائن تھی:
“No Corruption, Misuse of Authority Charges On PM: SC”
28 جولائی 2017 کا فیصلہ آیا تو جناب ایس ایم ظفر سمیت کتنے ہی سینئر ماہرین قانون نے اسے ”کمزور دلیل پر مبنی فیصلہ‘‘ قرار دیا۔ ایک انٹرویو میں خود عمران خان کو بھی کہنا پڑا کہ ”نواز شریف کے لیے ہمدردی کی لہر تو پیدا ہونا ہی تھی، مسئلہ پاناما کا تھا، سزا اقامہ پر سنائی گئی‘‘۔
اب 6 جولائی (2018ئ) کو نیب کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس میں بھی معزول وزیر اعظم کو کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے بری کر دیا گیا تھا۔ فیصلے کے مطابق:
“The prosecution have not brought evidence in respect of section 9(a)(iv) of national accountability ordinance (NAO) 1999.
نواز شریف کو سزا معلوم وسائل سے زیادہ مالیت کے اثاثوں کی ملکیت پر سنائی گئی۔ اس میں نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت تھا، نہ اس امر کی تفصیل کہ ملزم کے وسائل کیا ہیں اور ان اثاثوں کی مالیت کیا ہے (جس سے یہ ظاہر ہو کہ اثاثوں کی مالیت، اس کے وسائل سے زیادہ ہے)۔ 28 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری خاموش رہے تھے۔ اب نیب کورٹ کے فیصلے پر وہ بھی یہ کہے بغیر نہ رہے کہ یہ ایک کمزور فیصلہ ہے، جو اپیل میں مسترد ہو جائے گا۔
نیب کورٹ کی سزا کو کالعدم قرار دینے کی اپیل پر فیصلہ ابھی آنا ہے۔ اس کی معطلی کا فیصلہ عارضی ریلیف سہی، لیکن شریف فیملی، مسلم لیگ (ن) اور ملک بھر میں اس کے ورکروں اور ووٹروں کے لیے، تپتے صحرا میں یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ لوگ عیدالاضحی سے قبل فیصلے کی توقع کئے ہوئے تھے، خود شہباز صاحب نے خوش خبری سنائی تھی کہ میاں صاحب (مریم اور صفدر) عید کی خوشیاں اپنے عوام کے ساتھ منائیں گے‘ لیکن عدالت کے اپنے معاملات ہوتے ہیں اور تقدیر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ فیصلہ عید سے پہلے آ جاتا تو میاں صاحب اور مریم، اس دوران لندن بھی ہو آتے۔ بیگم صاحبہ کی طبیعت قدرے سنبھل گئی تھی۔ (چراغِ آخرِ شب کا بجھنے سے پہلے، آخری شعلہ)، آخری دنوں میں ہفتے میں ایک بار پندرہ، بیس منٹ کے لیے جیل کے ٹیلی فون سے بات ہو جاتی۔ لندن میں ہوتے تو باپ، بیٹی، اپنی عزیز ترین متاعِ حیات کے ساتھ آخری ایام شیئر کر لیتے۔
مصطفیٰ زیدی کی ”آخری بار ملو‘‘ یاد آئی۔ اس کے دو بند:
اُس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں،
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا، نہ شکایات کا وقت
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دمِ رخصت، در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، نہ انکار ملو
آخری بار ملو
بیگم صاحبہ کو اگلے جہان روانہ کر کے، وہ ایک بار پھر پسِ دیوارِ زنداں تھے کہ اذنِ رہائی مل گیا۔ جیل کے باہر متوالوں کا ہجوم تھا۔ لاہور ایئر پورٹ پر بھی جذبوں کا سیلاب تھا۔ جاتی امرا میں بھی یہی کیفیت تھی۔ ایک رائے یہ تھی کہ میاں صاحب (مریم بی بی اور کیپٹن صفدر) اڈیالہ سے جی ٹی روڈ کا رخ کریں، وہی گزشتہ سال اگست والا جی ٹی روڈ مارچ، لیکن اب اس کا موقع تھا، نہ محل۔ عاشورہ کے آخری دن تھے، اِدھر بیگم صاحبہ کا غم بھی تازہ تھا، محاورے کی زبان میں ان کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا، ایسے میں یہ جشنِ مسرت اچھا نہ لگتا۔ باقی رہا ”طاقت کا مظاہرہ‘‘ تو وہ بیگم صاحبہ کے جنازے پر کیا کم تھا؟