منتخب کردہ کالم

اگر یہ ڈکٹیٹرشپ ہے تو اللہ اسے مزید طاقت بخشے!….ایاز امیر

اگر یہ ڈکٹیٹرشپ ہے تو اللہ اسے مزید طاقت بخشے!….ایاز امیر

چیف جسٹس آف پاکستان جو کر رہے ہیں اُس سے چند لوگوں کو تکلیف تو ضرور ہو گی‘ لیکن یہ کیا کم ہے کہ جاتی امرا سے شاہی پروٹوکول اور حفاظت ہٹوا لی گئی ہے۔ یہ بات کیا نواز شریف کو اچھی لگی ہو گی؟ اُن سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے، انہیں پیشیاں بھگتنی پڑ رہی ہیں، سرکاری وسائل کے بل بوتے پہ عیاشیوں کا ایک لمبا سلسلہ ختم ہو رہا ہے۔ جناب نواز شریف کے سامنے تو یہ ڈکٹیٹرشپ کی علامتیں ہیں۔ وہ جو مرضی کریں اور اُن سے کوئی نہ پوچھے، وہ اُن کے نزدیک جمہوریت ہے۔
چیف جسٹس جو کر رہے ہیں وہ تو حکومتوں کو کرنا چاہیے۔ جتنی تندہی وہ دکھا رہے ہیں کاش ہر حکمران ایسا کرکے دکھائے۔ اگر یہ کام کا معیار قائم ہو جائے تو پاکستان کی شکل بدل جائے۔ کام خود نون لیگی حکومتوں سے ہوا نہیں۔ پیسے برباد کیے یا اپنی ذات پہ خرچے۔ وقت کا ضیاع ہوا۔ حکومتی بندوبست کو تباہ کیا اور اب جو چیف جسٹس صاحب اُن کا اصلی چہرہ بے نقاب کر رہے ہیں تو اُن کی چیخ و پکار سننے کے قابل ہے۔
پاکستان کو ایسی حکومت چاہیے جو کام بالکل ایسی ہی ہنگامی بنیادوں پہ کرے جس طرح چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ معاملات کو سُن رہے ہیں اور فیصلے صادر کر رہے ہیں اور یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ فیصلوں پہ عملدرآمد ہو۔ اتوار کے روز بھی اُن کی کچہری لگتی ہے۔ ظاہر ہے جو افسران اور سیاستدان طلب ہوتے ہیں‘ اُنہیں بہت تکلیف ہوتی ہو گی۔ جنہوں نے کسی قاعدے قانون کی پروا نہیں کی اُن سے جب پوچھا جائے کہ جاتی امرا کے سامنے سے گزرتی ہوئی سڑک کی چوڑائی ڈسٹرکٹ کونسل لاہور کے پیسوں سے کیسے ہوئی اور آپ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ ڈسٹرکٹ کونسل کے فنڈ اپنے زیر استعمال لائیں۔ اُنہوں نے تو یہی کہنا ہے کہ یہ مارشل لاؤں سے بدتر ڈکٹیٹرشپ ہے۔ یہ دن بھی آنا تھا کہ پاکستان کے بدترین مارشل لاء کی سب سے چہیتی اور نمایاں پیداوار آج قوم کو ڈکٹیٹرشپ اور جمہوریت کا درس دے رہی ہے۔
نواز شریف کے سامنے پسندیدہ تصورِ جمہوریت وہ ہے کہ جب چاہیں قومی ایئرلائن کا جہاز پکڑیں اور لندن کی طرف روانہ ہو جائیں۔ دورانِ سفر اُن کی خدمت میں سپیشل کچن لگے اور انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جائیں۔ جب لندن سے واپس آئیں تو پی آئی اے کا ایک پورا بوئنگ اُن کے اور اُن کے خاندان کے لئے کھڑا ہو۔ ایئر لائن کی باقی پروازیں جو متاثر ہوتی ہیں‘ بھاڑ میں جائیں۔ شریف برانڈ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ جو جی میں آئے وہ کر گزریں اور کوئی سوال نہ اُٹھے اور کچھ نہ پوچھا جائے۔ تین سال میں ستر سے زائد غیر ملکی دورے کیے اور جہاں بھی جاتے‘ ضرورت اس امر کی ٹھہرتی کہ بیچ میں پڑاؤ اُنہی لندن کے فلیٹوں میں ہو جو اُن کا اب دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔
پنجاب میں شہباز شریف ایک ڈھنگ کا کام نہ کر سکے۔ سرکاری سکولوں کی حالت خراب، سرکاری یونیورسٹیوں کا نظام برباد اور چاپلوس قسم کے اشخاص اُن کے قائم مقام سربراہ بنائے گئے تاکہ جو کام بھی اُن سے کروانا ہو وہ کریں۔ صحت کا نظام تباہ، سرکاری ہسپتالوں کی حالت ابتر لیکن جو پیسے تھے تین شہروں میں تین میٹرو بسوں پر برباد کر دئیے گئے۔ سرکاری وسائل سے چلنے والی اشتہاری مہمات کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ ہے نمونہ گڈ گورننس کا۔ یہ بھی رام کہانی ہے کہ لاہور پہ پیسے خرچ کیے گئے۔ وہاں پیسے خرچ ہوئے تو چند مخصوص مقامات کے ارد گرد۔ حساب لگایا جائے تو زیادہ پیسے جاتی امرا کی سڑکوں پہ لگائے گئے تاکہ اس خاندان کیلئے آرام پیدا کیا جا سکے۔
جتنے پولیس اہلکار شریف خاندان کی سکیورٹی پہ مامور تھے اور جن کی بیشتر تعداد اب چیف جسٹس کے حکم سے واپس بلا لی گئی ہے‘ اتنے لوگ تو سٹالن اور چیئرمین ماؤ کی سکیورٹی پہ مامور نہ تھے۔ سینکڑوں افراد سکیورٹی پہ لگے ہوں، پورے شہر میں رُوٹ لگ جائے جب آپ سفر پہ نکلیں، یہ عیاشی تو امریکہ کا صدر بھی نہیں کر سکتا۔ وہاں سکیورٹی کا ایک نظامِ کار ہے۔ پولیس والوں کو بھیڑ بکریاں نہیں سمجھا جاتا۔ پولیس وہاں کسی کیلئے گھنٹوں سڑک پہ کھڑی نہیں رہتی۔ ایسی حرکتیں صرف مملکتِ خداداد میں جائز سمجھی جاتی ہیں۔ یہ عیاشیاں چیف جسٹس کے حکم پہ ختم ہو رہی ہیں تو نواز شریف کو ڈکٹیٹرشپ نظر آنی لگی ہے۔
یہ خیال دل سے نکال دیا جائے کہ چیف جسٹس صاحب کے اقدامات کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں۔ گیلپ پاکستان سے سروے نہ کرائیں کیونکہ وہ گھر کی لونڈی ہے اور من پسند نتائج وہاں سے نکلتے ہیں۔ کسی آزاد ادارے سے صحیح معنوں میں سروے کروا لیں تو پتا چل جائے کہ عوام کی بھرپور اکثریت چیف جسٹس کے اقدامات کی نہ صرف تائید کرتی ہے بلکہ دلوں میں یہ آرزو بھی رکھتی ہے کہ ایسے اقدامات وَقتی ہونے کی بجائے دیرپا بنیادوں پہ ہوں۔ سروے چھوڑیں ریفرنڈم کروا لیں۔ پاکستان کے نوے فیصد سے زائد لوگ کہیں گے کہ چیف جسٹس جو کر رہے ہیں نہ صرف ٹھیک ہے بلکہ اُنہیں اور سختی برتنی چاہیے تاکہ موٹی گردنوں والوں کا اس ملک میں کوئی حساب تو لے۔
یہاں تو کوئی خادمِ قوم یا خادمِ اعلیٰ آتا ہے تو قومی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کے نئے طریقے ایجاد کرتا ہے۔ اُس کے گرد ایک احد چیمہ نہیں بلکہ احد چیموں کی پوری ایک کھیپ پیدا کی جاتی ہے۔ ایسے منظورِ نظر افسران اُن عہدوں پہ لگائے جاتے ہیں جہاں پیسے اور بڑے ٹھیکے ہوں اور پھر ان سے اپنی پسند کی کارروائیاں کروائی جاتی ہیں۔ احد چیموں کی بھی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں اور خادمانِ قوم بھی فائدے میں ہوتے ہیں۔ یہ تو پاکستان کی مٹی کی سخت جانی سمجھیے کہ اِن لوٹ مار کے سلسلوں کے باوجود دھرتی قائم ہے اور جیسا بھی ہو اِس کا کاروبار چل رہا ہے۔ اگر مٹی کمزور ہوتی تو ان ڈکیتیوں اور عیاشیوں تلے دَب کے رہ جاتی۔ ہاں، چیف جسٹس ضرور قصوروار ہیں اور اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے منصب کو سنجیدہ لیتے ہوئے جن گردنوں میں سریا اور سیمنٹ بھرا ہوا ہے اُن کی جوابدہی کا تھوڑا سا اہتمام کر رہے ہیں۔ موٹے چمڑے اور موٹی توندوں والوں کو تکلیف تو ضرور ہو گی۔ 1997ء والے حالات ہوتے تو کب کا چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت پہ حملہ ہو گیا ہوتا۔ لیکن حالات وہ نہیں رہے اور جو اُس زمانے کے سپریم کورٹ پہ حملہ کرنے والے ماہر ٹھہرے تھے‘ وہ اس موسم میں دَبک کے رہ گئے ہیں‘ کیونکہ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اب ایسی جسارت کے بارے میں سوچا بھی تو لینے کے بہت سارے دینے پڑ جائیں گے۔
پاکستان کا مسئلہ شریفوں سے بڑا ہے۔ شریفوں نے جو کیا‘ اُس کا بھُگت رہے ہیں۔ کسی ڈکٹیٹرشپ نے لندن فلیٹوں کی کہانی نہیں گھڑی۔ وہ فلیٹ حقیقت میں موجود ہیں اور جن خفیہ پیسوں سے حاصل کئے گئے شریف خاندان اُن پیسوں کا کوئی خاطر خواہ یا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔ پاکستان کا مسئلہ صحیح قیادت ہے۔ ایسی حکمرانی کی تلاش ہے جو پسے ہوئے عوام کی دَاد رسی اور بدعنوانیوں کا سدِّ باب کر سکے۔ ایسی طرزِ حکمرانی کا نمونہ ہمارے سیاستدان پیش نہیں کر سکے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا مقابلہ صرف یہ تھا کہ اِن میں سے کون زیادہ کرپٹ اور بدعنوان ہے۔ موجودہ حالات چیف جسٹس ثاقب نثار نے پیدا نہیں کئے۔ وہ اور وجوہات کی بناء پہ پیدا ہو گئے ہیں‘ اور اِس ہنگام میں چیف جسٹس ایک خاص کردار ادا کر رہے ہیں۔ گویا اُن کا یہ کردار موجودہ مخصوص حالات کی پیداوار ہے۔ جو چیلنج موجود ہے اُس سے چیف جسٹس پیچھے ہٹنے کی بجائے اس پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی اُن کا قصور ہے اور یہی وجۂ تکلیف اُن کے ناقدین کی ہے۔