منتخب کردہ کالم

اگّے تیرے بھاگ لچھیئے .. کالم ہارون الرشید

اگّے تیرے بھاگ لچھیئے .. کالم ہارون الرشید

انگریزی کا محاورہ یہ ہے Someone Should cry Halt اپنا فرض ہم نے پورا کیا … باقی ان کی مرضی ،اگّے تیرے بھاگ لچھیئے۔
تحریک انصاف کے سامنے دو راستے ہیں ۔ وہ فردوس عاشق اعوانوں اور نذر گوندلوں سے اجتناب کرے یا اسی راہ پر چلتی ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی بن جائے ۔ پھر تبدیلی کی اس سے امید ہی کیوں رکھی جائے ۔ لوگ اس کے لئے جان کیوں لڑائیں ؟
مقصود محض میاں محمد نوازشریف سے نجات ہے ،یاایک ایسا سیاسی پلیٹ فارم تخلیق کرناہے ،جس میں اجتماعی دانش، پورے خلوص کے ساتھ بروئے کار آئے ۔نذر گوندلوں اور فردوس عاشق اعوانوں کے ساتھ یہ نا ممکن ہے۔
عمران خان نے بالکل غلط کہا کہ دیر پا تبدیلی فقط ایک لیڈر لے کر آتا ہے ۔ جیسا کہ کل عرض کیا تھا ، بلکہ ایک تربیت یافتہ کیڈر ۔ کپتان کی یہ بات جزوی طور پر ہی درست ہے کہ رسول اکرم ؐ نئے اور پرانے لوگوںمیں امتیاز نہ کرتے تھے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عالی جناب ؐ کی زندگی اور بعد کے برسوں میں اہم اور بنیادی ذمہ داریاں کن کو سونپی گئیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ، سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ ، سیدنا عثمان غنی ؓ اور سیدنا علیؓ ابن ابی طالب میں سے نیا کون تھا ؟
مراد اگر جناب خالد بن ولید ؓ سے ہے تو فتح مکہ سے بہت پہلے وہ مدینہ منورہ پہنچے تھے ۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے ۔ خاندان ، جائیداد ، عزیز رشتہ دار ،سبھی کچھ۔
کن نئے لوگوں کو مناصب سونپے گئے ؟ قرآنِ کریم اور حدیثِ رسول ؐ تو الگ ، مسلمان تاریخ کا مطالعہ بھی ترک کرچکے ۔
جناب ابو سفیان ؓ کا انہوں نے ذکر کیا۔ فتح مکہ کے روز ، ان کے گھر کو پناہ گاہ قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ سیدنا عباس ؓبن عبد المطلب کا ایک مشورہ تھا، سرکار ؐ نے جو قبول فرمایا ۔ آپؓ نے کہا تھا ‘ ابو سفیان ؓ ایک وجاہت پسند آدمی ہیں۔ سرکار ؐ کو اس پر کیا اعتراض ہوتا ؟ تربیت کا تو ابھی آغاز ہونا تھا۔
دس ہزار قدوسی ، مکہ کی پہاڑیوں پر الائوسلگا چکے تو سیدنا عباس ؓبن عبد المطلب کی تحریک پر ، جناب ابو سفیانؓ ان کے ساتھ ، سرکار ؐ سے ملنے گئے۔ مرعوب اور حیرت زدہ ، انہوں نے کہا : ابن عبدالمطلب ، تمہارا بھتیجا تو بڑا بادشاہ ہوگیا۔ اہل ِایمان میں ایک حمیت ہوتی ہے ۔ ترازو میں وہ پورا تولتے ہیں ۔ تجزیے میں وہ ڈنڈی نہیں مارتے ۔ فرمایا : ابو سفیان ،نبوت ہے یہ نبوت ۔ ایمان لانے میں ابھی وہ تامل کا شکار تھے ۔ عمر ابن خطابؓ ان کی راہ روکنے پر تلے تھے ، مگر جناب عباس ؓ کی عنایت سے وہ جا پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔ ان کے گھر کو عافیت کدہ قرار دینا ایک عنایت ضرور تھی۔ اعلان تو یہ بھی تھا کہ اپنے گھروں میں جو مقیم رہیں گے ان سے تعارض نہ کیا جائے گا۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ قریش کے اس عالی قدر سردار کو،عشروں سے جو اپنی قوم کی قیادت کرتا آیا تھا، کیا کبھی کوئی بڑا منصب سونپا گیا، سرکار ؐ کے عہد میں؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں ؟
رحمت کا دریا بہہ رہا تھا ۔تعصب نام کی کوئی چیز پیمبر میں نہیں ہوتی۔ رحمت العالمین کا تو ذکر ہی کیا، اللہ کے کسی بھی پیغام بر میں ۔خانہ کعبہ کی چھت پر ، اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے سیدنا بلالؓ کی جس جواں سال نے نقل اتاری ، اسے حرم کا مؤذن بنا دیا گیا اور ایک دوسرے آدمی کو مکہ کا گورنر !
وادی ٔمکہ میں ،جو پیالے کی مانند ہے، بلال کی آواز گونج رہی تھی۔
اللہ بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں
آئو نماز کی طرف ، آئو نماز کی طرف
آئو نجات کی سمت ، آئو نجات کی سمت
اللہ بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
ایک فیصلہ کن موڑ تاریخ مڑ گئی تھی ۔ اُمیہّ کے سابق غلام کی آواز ابھری تو ایک نے کہا : کیا اب ہمیں ان گدھوں کی آوازیں سننا ہوں گی؟ رحمت کا دریا بہہ رہا تھا۔ اذان تمام ہونے سے پہلے ، اس کا دل بدل چکا تھا۔ سرکار ؐ کے سامنے جا کر رکا اور کہا : ‘ میرے لئے سب سے زیادہ نا پسندیدہ آپ تھے، مگر اب ہر ایک سے زیادہ محبوب۔ اسی کو مکہ کی گورنری سونپی گئی۔ نذر گوندل کا دل بھی کیا بدل گیا ہے ؟ کیا سچائی پر وہ ایمان لے آئے ہیں ؟ کیا اپنی غلطیوں کا انہوں نے اعتراف کیا ہے ؟۔
عہد اوّل کے اہلِ ایمان سے آ ج کے مسلمان کو تشبیہ دینا ہی غلط ہے ۔ شرک سے وہ ایمان کی طرف آئے ۔ کفر اور شرک نہیں، ہم فسق کا شکار ہیں ۔ نذر گوندل اور فردوس عاشق اعوان ، اپنی غلطیاں مان لیں۔ ناجائز روپیہ واپس کر دیں۔ ہم سب ان کے وکیل ہوں گے۔ زرداری صاحب لوٹ مار کرتے رہے، کیا ان میں سے کبھی کسی کو رتی ّ برابر اعتراض بھی ہوا؟ برائے وزن بیت بھی ؟
تحریک انصاف کے کارکن لائق تحسین ہیں کہ احتجاج کو اٹھے ہیں ۔ایک پورا معاشرہ اخلاقی بالیدگی کو بڑھتا ہے یا پستی کی طرف ۔ یہ نکتہ ایک بہت بڑے صاحب ِعلم نے عمران خان کے لئے بیان کیا تھا۔ ابھی پچھلے دنوں ، خان نے اس کا ذکر کیا اور اس آدمی کو بہت دیر تک داد دیتے رہے۔
یہ 2001 ء کا قصہ ہے ۔ جنرل پرویز مشرف سے ابھی امید انہیں وابستہ تھی۔ دلائل دے چکے تو درویش نے کہا : اخلاقی اعتبار سے حکمران معاشرے کو بالاکر سکتا ہے۔ جیسے محمد علی جناحؒ نے کیا تھا۔ دوسرا وہ ہوتا ہے جو معاشرے کے رنگ میں رنگا جائے ۔ جنرل پرویز مشرف دوسری طرح کے آدمی ہیں ۔
2002 ء میں اس کی آنکھ تب کھلی ، جب جنرل کا باطن واشگاف ہوگیا ۔ تب سے یہ قصہ وہ دہرایا کرتا ہے ۔ افسوس کہ اب وہ خود معاشرے کے رنگ میں رنگا جا رہا ہے ۔ رکا نہیں تو اس قدر پچھتائے گا کہ کبھی نہ پچھتایا ہوگا۔
الہام فقط پیغمبر کو ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد مگر یہ ہے کہ ذہن الجھے تو اہل علم سے رجوع کیا جائے ۔ خود سرکار کا ارشاد یہ ہے ، علیکم بالمجالس الابرار، تم پر لازم ہے کہ اہل تقویٰ کے پاس بیٹھا کرو۔ چند گھنٹے قبل اسی صاحب ِعلم کی خدمت میں یہ تاجر موجود تھا۔ جو کچھ ارشاد کیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی عمر پوری ہو چکی۔
پیپلز پارٹی مر رہی ہے ۔ زرداری صاحب دس کروڑ روپے فی امیدوار کا نسخہ لے کر پنجاب میں اترے تھے۔ آج ان کا لشکر تترّ بترّ ہے ۔ جے آئی ٹی نہیں،نون لیگ نے عد الت پہ یلغار کر رکھی ہے ۔ زبان ِحال سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انصاف کسی صورت قابل قبول نہیں۔
صاحب ِمعاملہ جج نہیں ہوتا۔ فرض کر لیجئے جے آئی ٹی قصور وار ہے ۔فیصلہ مگر کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ ہی۔ کوئی دن جاتا ہے کہ شریف خاندان عدلیہ پر یلغار کرے گا۔ پچھلی بار کی طرح حملہ نہیں بلکہ کچھ اور ۔بہت سے ڈرامے ابھی برپاہوں گے ۔عدالت ِعظمیٰ پسپا نہیں ہوسکتی۔
عمران خان اگر انتظار کریں ۔ مبالغہ آرائی ، چیخ و پکار اور پیپلز پارٹی کے چلے ہوئے کارتوس سمیٹنے کے بجائے ، پارٹی کی تنظیم کریں ، قومی مسائل پہ لائحہ عمل پیش کریں ۔ موزوں تر افراد کو پارٹی میں لائیں اور کرپشن کے خلاف جنگ جاری رکھیں۔
فردوس عاشق اعوانوں اور نذر گوندلوں کے ساتھ یہ جنگ نہیں لڑی جاسکتی۔ اندازہ یہ ہے کہ آسانی سے انہیں وہ ٹکٹ بھی نہ دے سکیں گے۔ دیئے تو پنجابی محاورے کے مطابق ‘ ‘سر پہ ہاتھ رکھ کے روئیں گے ‘‘ ۔
انگریزی کا محاورہ یہ ہے Someone Should cry Halt اپنا فرض ہم نے پورا کیا … باقی ان کی مرضی ،اگّے تیرے بھاگ لچھیئے۔