منتخب کردہ کالم

اگے مینڈا ڈھول لڑدا (آشوبِ آرزو) وقار خان

کچھ سیسہ پلائی دیواریں ایسی بھی ہوتی ہیں ،جنہیں محض ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ امت مسلمہ ایسی دیوار ہر گز نہیں ۔ یہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ولولہ انگیز قیادت میں باہم یکجا اور متحد ایسی سیسہ پلائی دیوار ہے کہ جس کے پار روشنی کی ہلکی سی کرن کا گزرنا بھی محال ہے ۔ اغیار خلائوں کو مسخر کریں یا اہل ایمان کے خلاف سازشوں کے جال بچھائیں مگر امہ کی یہ دیوارکوہ ہمالیہ کی طرح آج بھی پورے قد اور جاہ و جلال کے ساتھ کھڑی ہے ۔ کرئہ ارض پر کون نہیں جانتا کہ امہ ہمیشہ ہی سے اس شعر کی مجسم تشریح رہی ہے کہ۔؎
اخوت اس کو کہتے ہیں ، چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
اس جذبہ اخوت کی ایک ایمان افروز مثال سنئیے ۔ ہمارا ایک عزیز بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم ہے ۔ اس کے کفیل محترم نے اپنے لخت جگر کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے پاکستان کی ایک سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی میں نیا نیا داخل کرایا تھا ۔ ہمارا برخوردار چھٹی پر گھر آیا تواس نے ہمارے جنرل نالج میں اضافے کی خاطر اپنے کفیل اور اس کے دوسرے سعودی دوست کے درمیان ہونے والی عربی گفتگو کا پنجابی ترجمہ کر کے ہمیں سنایا۔ گرمیوں کے آغاز میں شیخ نے بیٹے کو فون کر کے پوچھا کہ تمہارے ہوسٹل کا ایئر کنڈیشنڈ ٹھیک چلتا ہے ناں ؟ پسر نے جواب دیا ” نئیں اوئے ابا، انہاں دے پکھے نیں ، او وی کھلو رہندے نیں‘‘ (نہیں ابا جان ! ان کے پنکھے ہیں ، وہ بھی رک جاتے ہیں) کفیل کے دوست نے حیرت سے کہا ”واللہ
…مساکین ، مساکین ‘‘ کفیل صاحب نے اپنے دوست کے سامنے وطن عزیز کے شہریوں کو حاصل دیگر سہولتوں جیسے گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، غربت، کرپشن ، دھوکہ دہی ، رشوت اور ملاوٹ وغیرہ کی مزید تصویر کشی کی تو اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ۔ ہر جملے کے اختتام پر وہ حیرت سے ”واللہ ، واللہ ‘‘ کا ورد کرتا اور پھر تاسف سے تا دیر دہراتا رہا ”مساکین، مساکین، ہذا کل ُ مساکین‘‘ چند متنازعہ جملوں پر اس اسلامی بھائی نے ہم لوگوں کو ”ہذا کل ُ منافقین ‘‘ اور ” ہذا کل ُ مجنون‘‘ ( سب پاگل ہیں) بھی قرار دیا مگر ہم اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے ۔ ویسے بھی برادرانِ اسلام کی باتوں کا کیا برا منانا کہ ہم سب مشرق و مغرب ، شمال و جنوب ، کالے و گورے اور عرب و عجم کے بے شمار برادران ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے تو ہیں ۔ برادر اسلامی ممالک کے بھائی ہمیں غرباء و مساکین کہیں یا مجنوں ، انتہا پسند کہیں یا فراڈئیے اور نوسرباز۔ وہ ہمیں حقارت سے دیکھیں ، شُرتے حج کے موقع پر یلہ یلہ کرتے ہمارے ساتھ توہین آمیز سلوک کریں ، وہ ہمارے مزدوروں کا معاشی استحصال کریں ، ان کی حق تلفی کریں ،تیس تیس سال وہاں گزار کر بھی انہیں اپنے ملک کی شہریت یا حقوق نہ دیں ، حتیٰ کہ انہیں اپنے نام پر گاڑی یا مکان تک خریدنے کی اجازت نہ دیں …مگر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب بھی کوئی مشکل وقت پڑا تو سارے عالم اسلام بشمول استحصالی برادران ہذا کی امیدوں کا مرکز ہمی عاجز یعنی یہی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہی ٹھہری ہے۔ سبحان تیری قدرت !خوب فرمایا گیا ہے کہ ”کیا ستارہ چمکا ہے ہماری پیشانی پر اور کیا کرنیں اتری ہیں ہمارے بخت پر ‘‘
بھوک وننگ ، لاقانونیت ،منافقت، سطحیت اور کشکول گردی اپنی جگہ مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے بڑے بھائی اور سرپرست کی حیثیت سے کبھی بھی عالم اسلام کو مایوس نہیں کیا۔ یاسر عرفات کی قیادت میں جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں پر قابو پانے کے لیے اردن کی مدد کرنی ہو، کشمیریوں کی جنگ ہو ، افغان جہاد ہو ، نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو ، امریکہ اور سعودی عرب کی عراق کے خلاف خلیجی جنگ ہو یا مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے ہمیں پکارا گیا ہو،جذبہ جہاد سے سرشار ہم سرفروشوں نے کبھی بھی وہاں اپنے جہادی اور فوجی دستے بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لیا، چاہے اس کے نتیجے میں ہم اپنے دامن میں کتنی ہی چنگاریاں کیوں نہ بھر لیں ۔ ”رہنے کو گھر نہیں ہے ، سارا جہاں ہمارا‘‘…پانامہ کی نہر سے لیکر فجی کے جزیروں تک جہاں بھی اہل ایمان کو کوئی مسئلہ درپیش ہو ہم فی سبیل اللہ اسے اپنے سینگوں پر اٹھانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ اسی جذبہ اخوت سے سرشار ہمارے اسلامی بھائی بھی ہمارے کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈالتے ہی رہتے ہیں ، خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔اپنی مملکت خداداد میں دہشت گردی سے ہزاروں بچے ، عورتیں ،بوڑھے اور جوان مروا چکے ہیں ، لیکن چونکہ یہ امریکی جنگ ہے اس لیے ہمیں اس سے سروکار نہیں ۔ البتہ افغانستان ،شام، عراق اور سعودی عرب وغیرہ میں ہمیشہ ہماری ہی جنگ ہوتی ہے ، سو ہم سر بکف لڑتے آئے ہیں اور لڑتے رہیں گے ، انشاء اللہ ۔
آج ایک مرتبہ پھر جب 39اسلامی ممالک کے فوج اتحاد کو سربراہی کی ضرورت پڑی ہے تو سب کی نظر ہم پر ہی ٹھہری ہے ۔ اللہ کے کر م سے یہ تاج بھی ہم نے ہی پہنا ہے اور جنرل (ر) راحیل شریف اس اتحاد کے سربراہ مقرر ہو گئے ہیں۔ ”دشمن‘‘ کہتے ہیں کہ اس اتحاد کو اپنی ولولہ انگیز قیادت فراہم کرنا ہمیں مہنگا پڑے گا اور اتحاد سے باہر اسلامی ممالک سے دشمنی مول لینے کے مترادف ہو گا۔ نیزیہ فوجی اتحاد عالم اسلام میں انتشار اور اسے مسلکی و نسلی بلاکس میں تقسیم کرنے کا سبب بنے گا۔ ”دشمن‘‘ یہ بھی کہتے ہیں کہ شام پر حالیہ امریکی حملے اور اسلامی فوجی اتحاد کے مقاصد ایک ، طریقہ کار مختلف ہے۔ٹرمپ سرکار کا مقصد شامی حکومت گرا کر اس زمینی رابطے کو ختم کرنا ہے ، جس کے ذریعے ایران کی سپلائی حزب اللہ تک پہنچتی ہے ۔ ایران کو خدشات لاحق ہیں کہ ہمارے اس اتحاد کے مقاصد بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں اور بالآخر اس فوجی اتحاد کو یمنی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا۔ بلاشبہ ایران ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے ، جس نے سب سے پہلے پاکستان کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طو رپر تسلیم کیا۔ تاہم جہاں ”امہ ‘‘ کا مفاد ہوگا َ، وہاں ہم کسی ” دشمن‘‘ یا کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لائیں گے ۔
ہمیں کوئی پروا نہیں کہ ہم نے برادر اسلامی ممالک اور امریکی جنگوں میں کود کود کر اپنی قوم کے لیے کیسی کیسی آگ کمائی ہے ۔ آئندہ بھی ہمیں اسلامی دنیا بلکہ پوری دنیا کی کسی بھی جنگ میں کودنے کی دعوت دی گئی تو ہم پیٹھ نہیں دکھائیں گے ۔ ہمارا جذبہ اور فخر اس محبوب جیسا ہے جس کا پنجابی ڈھول سپاہی دوسری جنگ عظیم میں ترقی کر کے صوبیدار ، شوبیدار بن گیا تو اس نے فخر سے کہا ۔؎
ہَٹی بھری ہوئی میزاں دی
اگے مینڈا ڈھول لڑدا، پِچھے فوج انگریزاں دی