پاناما کی طلسم ہو شربا لیکس جن میں وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا اورحسین نواز شریف کے بقول ان کے ثمرات سے ان کی ہمشیرہ محترمہ بھی مستفید ہو رہی تھیں کے بعد احتساب ایک قومی مطالبہ بن گیا ہے۔ حکمران تو گویا مچل مارے بیٹھے تھے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر سکینڈلز کی طرح ”پاناما گیٹ‘‘ بھی ٹل جائے گا۔ غالباً میاں نواز شریف نے یہ حکمت عملی وضع کی کہ جارحانہ انداز سے ہر الزام کی تردید کی جائے اور ان الزامات کا جواب دینے کے بجائے ان کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے سیاستدانوں بالخصوص عمران خان کی کردار کشی کی جائے۔ اس ضمن میں کینسر کے علاج کے لئے ان کے قائم کردہ شوکت خانم ہسپتال کے مالی معاملات کو ہدف تنقید بنایا گیا لیکن یہ وار خالی گیا۔ میاں نواز شریف نے قوم سے اس حوالے سے اپنے پہلے خطاب میں گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی خرابی صحت کی بنا پر تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کرتے ہوئے رائیونڈ میں اپنی محل نما اقامت گاہ میں گوشہ نشین ہو گئے۔ پھر اچانک یہ خبر آئی کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کے تحت لندن پدھار رہے ہیں اور وہ اپنے 12سیٹر سرکاری طیارے میں براستہ ماسکو برطانیہ پہنچ گئے۔ ان کی سادہ لوحی یا مسائل کی سنگینی کا ادراک نہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لندن پہنچنے پر مے فیئر میں اپنے انہی فلیٹس کے سامنے میڈیا سے خطاب کیا جن کی ملکیت پاناما لیکس کے حوالے سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ بعد ازاں وہ لندن میں ہی رولیکس گھڑیوںکی شاپنگ کرتے اور ‘سیول رو‘ کے مہنگے درزیوں کو سوٹ کے ناپ دیتے ہوئے نظر آئے اوران کی وہاں کی تصویروں کی سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی۔ ان کو اطمینان تھا کہ فوج اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہے گی اور امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے بارے میں عمران خان کی توقعات 2014ء کے دھرنے کی طرح نقش بر آب ثابت ہوںگی۔
لگتا ہے کہ فوجی قیادت بھی میاں صاحب کی وطن واپسی کا انتظار کر رہی تھی، اسی بنا پر گزشتہ منگل کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوہاٹ میں خطاب کرتے ہوئے یہ بیان داغ دیا کہ ملکی سالمیت کے لئے سب کا بلا امتیاز احتساب ضروری ہے اورکرپشن ختم کئے بغیر پائیدار امن قائم نہیں کیا جا سکتا اور دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت بعض وفاقی وزرا نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ بیان اصولی طور پر درست اور روٹین کا معاملہ ہے۔ بات یہیں رک جاتی تو میاں صاحب کی گلو خلاصی ہو جاتی لیکن مالی کرپشن کے الزام میں پاک فوج کے دو جرنیلوں اور چھ دیگر افسروں کی برطرفی کے تاریخی اقدام کے بعد یہ بات سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ فوج کرپشن کے خلاف عملی اقدامات چاہتی ہے۔
وزیر مملکت برائے نجکاری زبیر عمر نے جو خود بھی یحییٰ خان کے دست راست لیفٹیننٹ جنرل عمر کے صاحبزادے ہیں، یہ لایعنی بیان داغ کر کہ فوج میں کرپشن تشویشناک ہے، اپنے سیاسی آقاؤںکی کوئی خدمت نہیں کی۔ جنرل راحیل شریف نے جو میاں نواز شریف کے برعکس اپنے پیغام کو بروقت اور ٹھونک بجا کر پیغام دینے کے عادی ہیں، سیاستدانوں بالخصوص بر سر اقتدار طبقے کو واضح طور پر پیغام دے دیا ہے کہ بھائی! ہم اپنا احتساب کر رہے ہیں، آپ بھی اپنا احتساب کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ”اس سے پہلے کہ آپ نماز پڑھیں قوم آپ کی نماز پڑھنے پر آمادہ ہو جائے‘‘۔ فوج کی طرف سے خود احتسابی کے بارے میں آئی ایس پی آر نے کوئی باقاعدہ پریس ریلیز جاری نہیں کی، یہ بھی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ آرمی چیف کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ماہرانہ معاونت حاصل ہے جو اپنے بر وقت ٹویٹس، پریس ریلیز اور بیانات کے ذریعے پاک فوج کا بیان انتہائی موثر طریقے سے پھیلانے کے ماہر بن چکے ہیں۔ جمعرات کو میاں نواز شریف نے اپنے بعض چہیتے وزرا اور مشیروں کا اجلاس بلایا اور اس میں مشاورت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کو کمیشن کی تشکیل کے لئے خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا اور نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے ان کے لئے کوئی اور چارہ کار بھی نہیں تھا۔ اس مسئلے پر اُسی شام میاں صاحب نے قوم سے ایک اور خطاب کر ڈالا اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھنے کا اعلان فرما دیا۔ ساتھ ہی ایسے گنجلک ٹرمز آف ریفرنس کا اعلان کیا جن پر من و عن عمل کرنا قریباً ناممکن ہے اور اگر کیا بھی جائے تو کمیشن کو 1947ء سے لے کر اب تک تمام سیاستدانوں اور بزنس مینوں کے مالی معاملات کی چھان پھٹک کرنے کے لیے کئی برس درکار ہوںگے۔ قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ میاں صاحب پارلیمنٹ جو اُن کے اختیارات اور طاقت کا منبع ہے سے اتنے الرجک کیوں ہیں؟ قوم سے خطاب کرنے کی بجائے وہ پارلیمنٹ کا رُخ کیوں نہیں کرتے؟ غالباً انھیں اس بات سے چڑ ہے کہ اس ایوان میں تمام ارکان برابر ہوتے ہیں اور حکمرانوں کو برابری کی سطح پر بات کرنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ مخالفانہ نعرے بازی اور باتیں جمہوریت کا حسن ہیں لیکن میاں صاحب تو پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں سے ہی دور رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں کرپشن کے خلاف ایک نئی انگڑائی جنم لے رہی ہے اور کئی حکمران اپنے عوام کے ہاتھوں احتساب کے عمل سے گزر رہے ہیں اور ہر جگہ معاملات پاناما لیکس کے نہیں ہیں۔ برازیل کی خاتون صدر ڈلما روزف پر تو بجٹ میں ہیرا پھیری کا الزام ہے اور ان کے مواخذے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم عوام کے دباؤ کے سامنے بے بس ہو کر مستعفی ہو چکے ہیں اور یوکرائن کے صدر پر بھی مستعفی ہونے کے لئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس طرح سپین کے وزیر اعظم ماریانو راجوئے بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔ اگرچہ
پاکستان میں عوامی سطح پر اب تک پاناما گیٹ کے حوالے سے کوئی بھر پور ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن میڈیا اورخود فوج نے یقیناً یہ پیغام دیا ہے کہ ”بس اب بہت ہو گیا‘‘۔ اب فوج اور سیاستدانوں سمیت کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کوکمشن بنانے سے پہلے ان ججوں کے حوالے سے جن کا نام پاناما لیکس میں آیا ہے کے احتساب کا عمل سامنے لانا ہوگا۔
میاں صاحب کا یہ استدلال کہ ان کا نام تو پاناما لیکس میں کہیں نہیں ہے، محض عذر لنگ ہے، انہیں ذہنی طور پر ہر قسم کی صورت حال کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ایک آپشن تو یہ ہو سکتا تھا کہ وہ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ بلا کر مسلم لیگ (ن) کے کسی سینئر رکن کو وزیر اعظم بنا دیں اور اگر اس کا تعلق شریف خاندان سے ہونا ضروری ہو تو اس منصب کے لئے شہباز شریف سے بہتر کوئی نہیں کیونکہ پاناما گیٹ کے حوالے سے ان کا دامن صاف ہے۔ جہاں تک میاں صاحب کے سمدھی، وزیر خزانہ اور غیر علانیہ وزیر اعظم اسحاق ڈار کا تعلق ہے، وہ اپنی پاک دامنی کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دبئی میں مقیم ان کے بیٹوں کے وسیع و عریض کاروبار کے حوالے سے وہ بھی متنازع بن جائیں گے۔ ولی عہد مریم بی بی بھی پاناما لیکس میں منکشف ہونے والی آف شور کمپنیوں سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہیں۔
دوسری صورت میں میاں صاحب کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے کمیشن کے فیصلے کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہوگا اور اس کے ٹی او آراپوزیشن سے مشاورت کے ساتھ بنانے چاہئیں۔ اس معاملے میں ہٹ دھرمی نہ صرف حکومت بلکہ جمہوریت کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1993ء میں جب وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان محاذ آرائی حد سے بڑھ گئی تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ ان سے ملنے وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے، پہلے تو میاں صاحب سمجھے کہ لو ”کُو‘‘ ہو گیا لیکن جنرل وحید کاکڑ نے میاں صاحب سے مودبانہ عرض کیا کہ بہتر ہے کہ مستعفی ہو کر نئے انتخابات کرا دیئے جائیں۔ میاں صاحب نے فیصلے کے لئے 24 گھنٹے کی مہلت مانگی اور اپنے والد صاحب مرحوم اور دیگر مشیروں سے لاہور جا کر مشاورت کے بعد اس شرط پر استعفیٰ دینے کی حامی بھر لی کہ صدر غلام اسحاق خان بھی استعفیٰ دیں اور ایک عبوری حکومت کے زیر اہتمام انتخابات کرا دیئے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے عبوری وزیر اعظم معین قریشی، سرتاج عزیز کی چوائس تھے لیکن انہوں نے انتخابات میں میاں صاحب سے کوئی رو رعایت نہیں برتی اور محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات جیت کر وزیر اعظم بن گئیں۔ اب بھی میاں صاحب سیاسی طور پر یکہ و تنہا ہو رہے ہیں۔ آصف زرداری ان سے سخت نالاں ہیں کہ انہوں نے 2014ء کے دھرنے کے دوران میاں صاحب کے اقتدار کو سہارا دیا لیکن جب ان پر اور ان کے دست راست ڈاکٹر عاصم پر افتاد پڑی تو میاں صاحب طرح دے گئے۔ اب بھی وقت ہے کر میاں صاحب اپوزیشن کو انگیج کریں اور مذاکرات کے ذریعے جمہوری نظام کو بچائیں، اگر اس کے لئے انہیں اپنے اقتدار کی قربانی بھی دینا پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہو گا۔ ویسے بھی وہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور قریباً 36 سال سے پنجاب ان کی گرفت میں ہے، انہیں مسلم لیگ ن کو اپنے ذاتی مفاد کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔