اہلِ دین کی آفات…مفتی منیب الرحمٰن
ہم اخلاق اوراقدارو روایات کے عہدِ تنزُّل میں جی رہے ہیں ،جدید الیکٹرانک وسوشل میڈیا نے اخلاقی زوال کے سفر کو تیز تر کردیا ہے ، یہ اخلاقی اور نفسیاتی بیماری معاشرے کے تمام طبقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،سوائے اُن خوش نصیب افراد کے جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور دینی تربیت نے ان آفات سے بچارکھا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں لوگ علماء سے معاشرے کے اَوسَط معیارِ اخلاق سے بہتر کی توقع رکھتے ہیں اور یہ بجا ہے،لیکن اب یہ بھی تیزی سے زوال پذیر ہے ۔
انسانی خوبیوںمیں اُس کے خاندانی پسِ منظر ، ماحول ،ذاتی محاسن کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ،حدیثِ پاک میں ہے: ”لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے ،جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ،اُن میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں بہتر تھے ،وہ اسلام سے مشرف ہونے کے بعد بھی دین کی سمجھ حاصل کر کے بہتر ثابت ہوئے ، (صحیح مسلم: 2638)‘‘۔ اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ ماحول ، پس منظر ،نسبی اور شخصی فضیلت انسان کے جوہرِ قابل کو مزید نکھارتی ہے ،صحابۂ کرام اس کی روشن مثال ہیں ۔
اس کی مثال میں تحدیثِ نعمت کے طور پراپنی ذات سے دیتا ہوں، میرے والد صاحب کے چار بھائی تھے ،گائوں سے ہٹ کر اپنی آبائی زمین میں سب بھائی طویل عرصے تک مشترکہ خاندان کے طور پر رہتے رہے، پھر جب اولاد بڑی ہوگئی ،سب تعلیم وروزگار کے سلسلے میں منتشر ہوگئے ،تو سب بھائی الگ ہوگئے ۔ہم سب آپس میں چچا زاد اور بعض خالہ زاد بھی تھے ،دوسری چچیاں بھی کسی نہ کسی خاندانی رشتے سے جڑی ہوئی تھیں ۔ہم بچپن اور لڑکپن میں آپس میں کھیلتے بھی رہے ،اسکول میں بھی ایک ساتھ تعلیم پائی، لیکن گالی کا کوئی تصور ہمارے خاندان میں نہیں تھا ،کیونکہ ہر گالی یاتہذیب سے گرے ہوئے لفظ کا نشانہ دوسرے سے پہلے خود بنتے ۔ بعد میں مدرسے میں بطورِ استاذ یا کالج یونیورسٹی میں بحیثیتِ پروفیسر پڑھاتے ہوئے غصے میں زیادہ سے زیادہ زبان پر اُلّو یا گدھے کا لفظ آتا تھا اور وہ بھی بہت نادر ،نالائق یا بدتمیز کے الفاظ بھی ہمارے غصے کے اظہار کے لیے کافی تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اَشرافیہ کے لیے خاص ملک کے اعلیٰ اداروں میں تعلیم پاتے ہیں ، پھر اُن میں سے بعض آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ ہیں ، ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اُن کی زبانوں پر تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ کیسے آجاتے ہیں ،لازماً پسِ منظر میں کہیں نہ کہیں کوئی تربیتی اور تہذیبی نقص موجود ہے ،اسی کو جینیاتی ورثہ یا مینوفیکچرنگ فالٹ کہتے ہیں۔
یہ عنوان میں نے اس لیے قائم کیا کہ آج کل سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کی توہین ، تمسخر واستہزاء ، طعن وتشنیع ، عیب جوئی، غیبت، بدگمانی ،بہتان تراشی اور کردار کُشی رائج الوقت فیشن بن گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور لوگوں کے دلوں سے نکل گیا ہے، مخالفین کی صورتیں بھیانک حد تک بگاڑی جاتی ہیں ،یہ ساری باتیں شریعت میں ممنوع ہیں ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب مذہبی تنظیموں سے وابستہ بعض جذباتی لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں اور اپنی دانست میں وہ اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ خدمتِ دین پر انسان اللہ تعالیٰ سے اجر کا امیدوار ہوتا ہے اور حرام پر اجر کی امید رکھنا بھی حرام ہے ۔
نبی ﷺ نے فرمایا:” جس نے گناہ کے ذریعے مال کمایا اور اُس سے صلۂ رحمی کی یا صدقہ کیا یا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا (تو اس پر ثواب کی توقع تودرکنار)اُسے جہنم میں ڈالا جائے گا،(الترغیب والترہیب:2670)‘‘۔علامہ شامی نے فتاویٰ ظہیریہ کے حوالے سے لکھا: ”ایک شخص نے فقیر کو حرام مال دیا اور اس پر اس نے ثواب کی امید رکھی ،تو کافر ہوجائے گااور اگر فقیر کو بھی اس کی بابت معلوم تھا (کہ یہ مالِ حرام ہے)اور اس نے اُس کے لیے دعا کی اور دینے والے نے آمین کہا ،تو دونوں کافر ہوجائیں گے، (ردالمحتار ،ج:5،ص:529،دمشق)‘‘ ہماری رائے میں یہ تربیت کے فُقدان کا نتیجہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جس انسانی اثاثے سے انسانی تاریخ کافقیدالمثال انقلاب برپا کیا ، اس کے لیے سب سے پہلے افراد تیار کیے ، ان کے نفوس کا تزکیہ کیا ،ان کے قلوب واذہان کو رذائل سے پاک کیا ،اُن میں جوہرِ اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ، انہیں راہِ حق میں مشکلات کو برداشت کرناسکھایا ، پھر وہ آپ ﷺ کی تربیت کے سانچے میں ڈھل کر کندن بن گئے۔ چشمِ فلک نے آج تک اتنا پاکیزہ انسانی معاشرہ نہیں دیکھا ۔ان میں انانیت نام کو بھی نہ تھی ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص ،مساعی اور کارناموں میں برکتیں عطا فرمائیں اور اپنی غیبی نصرت سے نوازا۔
پرجوش نوجوان یقینا دینی تنظیمات اور تحریکات کا سرمایہ ہوتے ہیں ،مگر جوش کو ہوش پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے ،جنون کو خِرد کے تابع ہونا چاہیے اور جذبات کو شریعت کی حدود کا پابند رکھنا چاہیے ۔ایسے لوگ ہوں جن کو دیکھ کر لوگ دین کی طرف مائل ہوں ، لبرل،مادر پدر آزاد،دین بیزاراور دیندار لوگوں کے رویوں میں فرق نمایاں نظر آنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کا نقّال نہیں ،بلکہ اپنے عہد اور مابعد کے ادوار کے لیے آئیڈیل اور رول ماڈل بننا چاہیے ۔اسلام کسی مجرّد حقیقت یا تصوراتی ہیولے کا نام نہیں ہے ،جس طرح انسان کی حقیقت حیوانِ ناطق یا حیوانِ عاقل کسی معیّن انسان کی صورت میں مشکّل ہوکر نظر آتی ہے ،اسی طرح اسلام بھی مسلمان کی شخصیت اور سیرت وکردار کے سانچے میں ڈھل کر نظر آتا ہے ۔آج کل مسئلہ یہی ہے کہ ہم قرآن وسیرت کے مثالی مسلمان کا مقابلہ اپنی معاصر دنیا کے چلتے پھرتے انسانوں سے کرکے اپنی برتری جتاتے ہیں اور دنیا پر غلبہ پانے کا خواب دیکھتے ہیں ،ایسی خوبصورت خواہشات اور حسین خوابوں کی تعبیر پانا مشکل ہے ،اس کے لیے ہمیں اسلامی معاشرے کو رول ماڈل بنانا ہوگا ،تاجدارِ کائنات ﷺکے بطنِ مبارک پر پتھر باندھنے یا حضرت عمر فاروق کے لباس کی بابت مسجد نبوی میں سوال اٹھائے جانے کے واقعات سنانے سے کام نہیں چلے گا،بلکہ خود معاشرے کو مثالی بنانا ہوگا ،ہماری بد نصیبی ہے کہ آج ایسی مثالیں کمیاب بلکہ کافی حد تک نایاب ہیں۔
علم کے فیضان اور روحانی اثرات وبرکات کی راہ میں نفس پرستی ،عُجب اور انانیت حائل ہوجاتی ہے ،جبکہ علم تواضع سکھاتا ہے اور تکبر عَجز وتواضع کی ضد ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ آج کل بعض علماء پر عُجب کا غلبہ ہوگیا ہے اور وہ اپنی انا کے خول میں بند ہیں ۔ ہم نے بچپن میں فارسی کی پہلی کتاب ”کریما‘‘پڑھی ، اُس کی ابتدا میں یہ شعر تھا:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندانِ لعنت گرفتار کرد
ترجمہ:” تکبر نے شیطان کو خوار کردیا اور تاقیامت ملعون قرار پایا‘‘۔نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دین کا علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء پرفخرومباہات کرے یا نادان جاہلوں سے (بے مقصد)بحث کرے یالوگوں کے رخِ عقیدت کو اپنی جانب مائل کرے تو اللہ اُسے جہنم میں داخل فرمائے گا،(سنن ترمذی:2654)‘‘۔
انانیت پر مبنی مناظرہ بازی نے دین کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا ،جتنا دعوت بالحکمت اور موعظۂ حسنہ کے ذریعے پہنچا ہے ،یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جدالِ احسن یعنی مہذّب بحث وتمحیص کو بھی آخری درجے میں رکھا ہے ۔قرآنِ کریم میں بعض انبیائے کرام علیہم السلام کے مناظرے مذکور ہیں ، لیکن وہ تہذیب کے دائرے میں تھے اور کہیں بھی انانیت کا شائبہ نظر نہیں آتا تھا،بلکہ مقصد یہ ہوتا کہ کسی طرح سے حق کا پیغام لوگوں کے دل ودماغ میں جاگزیں ہوجائے ، آج کل کے مناظرے تو فریقِ مخالف کی اہانت اور اپنی تعلّی کا مظہر ہوتے ہیں ، اس لیے فیضان و تاثیر نہ ہونے کے برابر ہے۔
صحابۂ کرام میں بھی مسائل میں اختلاف ہوتا تھا، جب تک رسول اللہ ﷺ اُن کے درمیان موجود تھے ،وہ ہر مسئلے میں آپ سے رجوع کرتے اور آپ کا ارشاد قولِ فیصل ہوتا ،اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے ائمۂ کرام میں بھی مسائل پر بحث ہوتی تھی ، بحث کی نوبت اس وقت آتی ہے جب کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آراء ہوں اور ہر رائے کسی دلیل پرمبنی ہو، جس کی دلیل راجح اور قوی تر ہوتی ،اُسے قبول کرلیتے ۔یہی وجہ ہے کہ ائمۂ کرام کی اپنے اقوال سے رجوع کی مثالیں کتبِ فقہ میں موجود ہیں ،اگر طرفین کی دلیلیں مساوی درجے کی ہوتیں تو بعض صورتوں میں وہ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے، لیکن کوئی کسی پرکم علمی یا انحراف کا فتویٰ نہیں لگاتا تھا ، باہمی احترام برقرار رہتا تھا۔ اسی طرح اہلسنت اور دیگر مکاتب فکر میں قیامِ تعظیمی پر اختلاف ہے ، ہم اپنے راجح دلائل کی روشنی میں جواز کے قائل ہیں، دوسرے عدمِ جواز کے قائل ہیں ، ہر جائز بات پر ہر صورت میں عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا ۔لیکن کسی کا اپنے دل میں خواہش رکھنا کہ لوگ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں، قیام نہ کرنے والوں پر ناراض ہونا ، ہر اجتماع میں دس بیس افراد اپنے جَلو میں لے کر آنا کہ نعرے لگیں ،ہلچل مچ جائے ، اجتماع کی کارروائی موقوف ہوجائے ، تلاوت ، حمد ونعت یا خطاب رک جائے ، لوگ لپک آئیں ، محفل درہم برہم ہوجائے ، یہ شِعارجواز کے باوجود پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتااور اگر دل میں اس کی خواہش مچل رہی ہے ،تو یہی عُجبِ نفس ہے ۔ الحمد للہ! میں ہر جلسے سے اٹھنے سے پہلے تاکید کرتا ہوں کہ کوئی بندہ اپنی جگہ سے نہ ہلے ،محفل کی رونق برقرار رہے ، میری حرمت پر پوری محفل کی حرمت مقدم ہے جو ہم سب کی شان ہے ۔ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں:حد سے زیادہ احساسِ برتری کے پیچھے لاشعور میں کوئی احساسِ کمتری کارفرماہوتا ہے ،بعض بڑوں کو اُن کے غالی عقیدت مند بھی خراب کرتے ہیں، اُن کی نفسیاتی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، حدیثِ پاک میں ہے:”متکبر ین قیامت کے دن (انسانی صورت میں)چیونٹیوں کی مانند اٹھائے جائیں گے، (سنن ترمذی:2492)‘‘۔