ایم ایم کی طرف سے نواز شریف کی تائید؟….رئوف طاہر
لیاقت بلوچ کا بیان، کیا متحدہ مجلس عمل کی آئندہ انتخابی حکمت عملی کا اشارہ ہے؟ عمران خان کا 29 اپریل کا (لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں) جلسہ ہو چکا ،تو مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا، ہم بھی اسی جگہ جلسہ کریں گے اور بتائیں گے کہ جلسہ کیا ہوتا ہے۔ مولانا اس دعوے میں پورے اترے۔ گیارہ مئی کو ایم ایم اے کا جلسہ بلا مبالغہ ایک بڑا جلسہ تھا۔ ایک بات دونوں میں مشترک تھی۔ پی ٹی آئی کا جلسہ بھی سارے ملک کا جلسہ تھا ،جس میں خیبرپختونخوا کا رنگ البتہ غالب تھا۔ اسی طرح ایم ایم اے کے جلسے میں دوسرے صوبوں سے بھی لوگ آئے تھے۔ زیادہ تعداد خیبر خیبرپختونخوا سے تھی۔ البتہ لاہور کا رنگ بھی چوکھا تھا۔ ظاہر ہے، اس میں زیادہ حصہ صوبائی دارالحکومت کے دینی مدارس اور مساجد کا تھا۔ مولانا عبدالغفور حیدری کا تبصرہ بھی دلچسپ تھا۔ ہم نے راگ رنگ اور رقص و سرود کے بغیر ان سے بڑا جلسہ کر لیا۔
اس حوالے سے ایک اہم سوال ایم ایم اے کی آئندہ انتخابی حکمت عملی کے حوالے سے بھی ہے۔ کیا یہ ملک گیر سطح پر کسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد کرے گی یا معاملہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ہو گا؟ اس کے علاوہ بھی (انگریزی محاورے کے مطابق) کپ اور ہونٹوں کے درمیان ابھی لغزش کے کئی امکانات ہیں۔ ایم ایم اے کو اپنا انتخابی منشور دینا ہے۔ اس کا اصل ”پاور بیس‘‘ خیبرپختونخوا ہے اور اس حوالے سے فاٹا کا مسئلہ۔۔۔؟ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا میں اس کے انضمام کی پر زور اور پر جوش حامی جبکہ مولانا شدید مخالف ہیں اور انضمام کو کسی امریکی ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اس مسئلے پر فاٹا میں ریفرنڈم کی تجویز بھی دیتے ہیں کہ کیوں نہ یہاں کے عوام سے براہ راست پوچھ لیا جائے کہ فاٹا کی ”مین سٹریمنگ‘‘ کے لئے خود ان کی رائے کیا ہے؟ (قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں فاٹا کے انضمام کا فیصلہ آئندہ منتخب اسمبلی پر چھوڑ دیا گیا۔)
انتخابی حکمت عملی کے حوالے سے گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے ایک رہنما جناب فرید پراچہ سے بات ہوئی۔ سید مودودیؒ کے صاحبزادے حسین فاروق کی امریکہ سے آمد پر ان کے برادر نسبتی ڈاکٹر عارف ریاض قدیر کا عشائیہ پرانے ”احباب‘‘ کی گیٹ ٹو گیدر تھی۔ ایم ایم اے کے کسی جماعت سے انتخابی اتحاد (یا تعاون) کے حوالے سے ایک سوال پر فرید پراچہ کا کہنا تھا، ابھی بہت سی چیزیں طے ہونا ہیں۔ ایک معاملہ کوٹے کا بھی ہو گا کہ کس جماعت کے حصے میں کتنی سیٹیں آتی ہیں۔ ان کا حسنِ ظن تھا کہ اس حوالے سے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔ ایک فارمولا یہ ہو سکتا ہے کہ 2013ء میں جہاں جس جماعت کی جو پوزیشن تھی، اسی کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے اور ملک گیر سطح پر کسی انتخابی اتحاد (یا تعاون) کی بجائے، سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی راہ اختیار کی جائے۔ یہ فیصلہ اس سیٹ پر الیکشن لڑنے والی جماعت پر چھوڑ دیا جائے کہ مقامی حالات کے مطابق اسے کیا سوٹ کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے ایک حلقے میں ایم ایم اے کی کسی جماعت کا امیدوار پی ٹی آئی سے ایڈجسٹمنٹ کر لے اور کسی دوسرے حلقے میں مسلم لیگ ن یا کسی اور جماعت سے مفاہمت ہو جائے۔
پی ٹی آئی سے کسی اتحاد، تعاون یا مفاہمت کے حوالے سے ایم ایم اے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا مؤقف نہایت سخت ہے۔ جیسے یہ ان کے لئے ”ایمانیات‘‘ کا مسئلہ ہو۔ گزشتہ دنوں ہی فرمایا تھا: پی ٹی آئی سے اتحاد یا تعاون کے لئے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا۔
موجودہ ایم ایم اے، 2002 ء والی ایم ایم اے نہیں، تب مولانا شاہ احمد نورانی والی جمعیت علمائے پاکستان اس کا حصہ تھی، اب جے یو پی دو حصوں میں بٹ چکی اور ایم ایم اے میں نورانی صاحب کی جگہ ہمارے پیر اعجاز ہاشمی صاحب ہیں۔ علامہ ساجد نقوی کبھی تحریک فقہ جعفریہ کی سربراہی فرماتے تھے۔ مشرف دور میں خلافِ قانون قرار پانے کے بعد ”تحریک اسلامی‘‘ ہو گئی، لیکن ہمارا اپنا احساس یہ ہے کہ (ہو سکتاہے، غلط ہو) کہ ساجد نقوی صاحب کے مکتبۂ فکر کے نوجوانوں کی اکثریت اب وحدت المسلمین کے ساتھ ہے۔ ساجد میر صاحب کی جمعیت اہل حدیث کو حافظ سعید صاحب کی ملی مسلم لیگ کتنا Dent ڈالتی ہے‘ یہ بھی سوچنے والی بات ہے۔ مولانا سمیع الحق کی جمعیت علما اسلام (س) 2002ء والی ایم ایم اے کا اہم حصہ تھی۔ وہ اگرچہ کوئی بڑی انتخابی قوت نہیں، لیکن مدرسہ حقانیہ اپنا ایک اثر و رسوخ تو رکھتا ہے۔ اب وہ ایم ایم اے کے مقابل دینی قوتوں کا ایک اور اتحاد بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ والے مولانا محمد احمد لدھیانوی کی جماعت اہلسنت اور حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ بھی اس کا حصہ ہوں گی۔
مولانا فضل الرحمن والی ایم ایم اے پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بیشتر کی ہمدردیاں نواز شریف والی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر برسوں سے ان کے اتحادی ہیں۔ ”اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر بھی میاں صاحب سے مختلف نہیں ہوتا۔ جمعیت اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل حافظ عبدالکریم ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ پہلے وہ مرحوم سردار فاروق لغاری کے مد مقابل ہوتے تھے۔ 2013 ء میں مرحوم سردار کے صاحبزادے سے مقابلے میں حافظ صاحب سرخرو رہے، پھر لغاری برادران مسلم لیگ (ن) کے ہو گئے۔ جلال لغاری پنجاب اسمبلی کے رکن اور اویس لغاری توانائی کے وفاقی وزیر ہیں۔ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لئے پیدا کردہ مشکل حالات کے باوجود دونوں بھائی نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے حافظ عبدالکریم کو سینیٹر بنوا دیا تو خیال تھا کہ اب اس حلقے میں لغاری برادران کو عام انتخابات کیلئے ٹکٹ دینے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی، لیکن سنا ہے حافظ صاحب قومی اسمبلی کی اپنی سیٹ پر اپنے صاحبزادے کو الیکشن لڑانے پر مُصر ہیں۔
انتخابی اتحاد کے لئے جماعت اسلامی کی ”نوجوان قیادت‘‘ کی ترجیح عموماً مسلم لیگ (ن) ہی رہی ہے۔ اب بھی لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ اس کے ساتھ اتحاد، تعاون یا مفاہمت چاہیں گے۔ سراج الحق صاحب کا معاملہ دلچسپ رہا ہے۔ وہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے اتحادی تھے، لیکن کئی مراحل پر ان کی ہمدردیاں مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی رہیں۔ 2014ء کے دھرنوں میں سسٹم کو بچانے کے لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ”جرگہ‘‘ تشکیل دیا۔ قومی اسمبلی میں ان کے ارکان بھی ”سسٹم‘‘ کی حمایت کرتے رہے۔ سراج الحق صاحب کو اپنے سینئر پارٹنر عمران خان کی طرف سے سرزنش کا سامنا بھی رہا ”وکٹ کے دونوں طرف مت کھیلو ‘‘۔
”ڈان‘‘ سے حالیہ انٹرویو کے حوالے سے نواز شریف سخت ترین تنقید کی زد میں ہیں۔ گزشتہ روز بونیر کے جلسہ عام میں انہوں نے قومی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی جو یہ فیصلہ کرے کہ اپنے اقتدار کے لئے کس کس نے اپنے قومی مفادات کا سودا کیا اور غداری کا مرتکب ہوا۔ پشاور کی پریس کانفرنس میں لیاقت بلوچ نے نواز شریف کے اس بیان کی حمایت کی۔ یہ معزول وزیراعظم کے لئے یقینا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا۔ عام انتخابات کے بروقت اور شفاف انعقاد کی بھی ایم ایم اے کے سیکرٹری جنرل نے بھرپور تائید کی۔ نواز شریف ”خلائی مخلوق‘‘ کی بات کر رہے ہیں۔ لیاقت بلوچ کا کہنا ہے ، یہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، ایک اوپن سیکرٹ ہے ،جو سیاسی جماعتوں کے اختلافات کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ بعض گم نام نمبروں سے فون کالز کی شکایات بھی پڑھنے سننے میں آئی ہیں۔ گزشتہ دنوں لیاقت بلوچ نے بھی دوستوںکی بے تکلف ملاقات میں جماعت کے ارکان اسمبلی کے لئے ان کالز کی بات کہہ دی، جسے حفیظ اللہ نیازی لے اڑے اور اسے میڈیا پر لیاقت صاحب کے حوالے سے نشر کر دیا۔
لیاقت بلوچ کی پشاور والی پریس کانفرنس سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انتخابی اتحاد (یا تعاون) کے لئے ایم ایم اے کی ترجیح اول مسلم لیگ (ن) ہو گی؟۔