ایک آخری بات…ہارون الرشید
اور ایک آخری بات یہ کہ زندگی میں معجزے ‘فقط ایک استثنائی صورت میں برپا ہوتے ہیں۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ایک بلند مقصد کیلئے پیہم ایثار اور پیہم جدوجہد۔
کس کس کو اس کا یارا ہے؟ کون کون اس کا مدعی ہے؟
کپتان کے بعض حامی‘ اس قدر ہیجان کا شکار ہیں کہ ہمہ وقت برہم۔ کل ایک پیغام سوشل میڈیا پر چھوڑا ”عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب سمیت‘ ذمہ داروں کے انتخاب میں غلطی کی‘ تو قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے‘ میرٹ‘ میرٹ اور صرف میرٹ‘‘۔
تائیدی تبصرے بھی بہت تھے‘ مگر دو تین بہت جلے کڑھے بھی۔ ”تمہیں بنا دیں؟ ‘‘۔”تمہیں دے دیں کوئی عہدہ؟‘‘۔ ”جب بھی ایسا موقعہ آتا ہے‘ تم تنقید کرنے لگتے ہو…‘‘ ۔”کیا عمران خان نے تمہیں نظرانداز کردیا ہے کہ ایسی باتیں کرتے ہو‘‘۔
یوں تو ہر آدمی کی جنت اس کے قلب میں آباد ہوتی ہے۔دل میں ہے تصویر یار/ جب کبھی گردن جھکائی دیکھ لی‘ اخبار نویس تو بڑا ہی بدقسمت ہوتاہے‘ خلقِ خدا کی بجائے جو دربار کی طرف دیکھتا ہے۔ چین کے فلسفی نے کہا تھا: لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بادشاہ بنے یا بھکاری۔ بادشاہت نہ سہی‘ خود داری بجائے خود ایک عظیم نعمت ہے‘خزانوں سے لبریز ایک کان۔
ایک بار پھر اس واقعہ کو دہرانا چاہیے۔
ہشام بن عبدالمالک دمشق سے حرم پاک پہنچا۔ شہزادوں نے دیکھا کہ خانۂِ کعبہ کے رکن یمانی کے پاس سجدہ ریز ایک حبشی کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا رہا۔ کچھ اور لوگ بھی منتظر تھے۔ استفہامیہ نظروں سے‘ امیرالمومنین سمیت ‘اس نے ان سب کو دیکھا۔ دوسروں کی طرح‘ ہشام نے بھی کچھ سوالات کیے۔ دھیرج‘ وقار اور یقین کے ساتھ‘ ان سوالوں کے جوابات بوڑھے حبشی نے دیئے۔ پھر وہ چلے تو ایک اعلان کرنے والے کو شہزادوں نے اعلان کرتے سنا۔ عطاء بن ابی رباحؒ کے سوا مکّہ کی حدود میں کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں۔ آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے جلیل القدر حکمران سے فرزندوں نے پوچھا: یہ کون آدمی ہے‘ جسے آپ کی کوئی پروا نہ تھی۔ ”اس لیے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے اور اسے کسی کی ضرورت نہیں۔علم حاصل کرو میرے بچو ‘ علم گمنام کو نامور ‘کمزور کو طاقتور اور مفلس کو غنی کرتا ہے‘‘۔
یہی عطاء بن ابی رباحؒ تھے‘ ایک آزاد کردہ غلام۔ ختم المرسلینؐ کے اصحاب میں نمایاں اور بلند‘عالی مرتبت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تھا: عطاء بن ابی رباحؒ‘ جس شہر میں موجود ہو‘ وہاں کسی اور سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔ خود سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک کا خلاصہ یہ ہے: اللہ اسے تروتازہ رکھے‘ جو ہماری بات سن کر دوسروں کو پہنچائے کہ بعض سننے والے بتانے والوں سے بڑھ کر یاد رکھتے ہیں۔
عطاء بازار سے خریدے گئے ۔ مکّہ کی ایک رئیس خاتون کے خادم۔ اپنا وقت تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔مالکن کی خدمت‘ عبادت اور حرم پاک میں‘ رسول اکرمؐ کے اصحاب سے حصولِ علم۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آقا اپنے غلام سے مرعوب اور مسحور ہوگئے۔ مالکن نے ایک دن فیصلہ کیا کہ گھریلو خدمت‘ اس صاحبِ عظمت کو زیبا نہیں۔ عہدِ رسالتِ مآب کا نور ابھی فضا میں جگمگاتا تھا۔ دل گداز تھے‘ علم کی عظمت ان پہ آشکار تھی۔ وہ زمانے ابھی طلوع نہ ہوئے تھے‘ جب عرفان و ادراک کو رخصت ہو جانا تھا اور جو بچ رہے‘ اسے اہلِ عجم کا ورثہ بننا تھا۔ آپؐ نے ارشاد کیا تھا: خدا کی قسم‘ علم اگر کسی ستارے پر بھی ہوگا‘تو کوئی عجمی اسے اتار لائے گا۔
ایک دن غلام کو آزاد کردیا گیا۔ اب اس کا تمام وقت حرم میں بیتنے لگا۔ اصحابِ رسولؐ کے قدموں میں۔ کہا جاتا ہے کہ انتہائی ضرورت کے سوا سترہ برس تک عطائؒ‘ حرم سے باہر نہ نکلے۔ حصولِ علم نہیں‘ تو محو ِعبادت؛ حتیٰ کہ عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگی۔ایک زمانہ بیت گیا ‘تو ایک دن دمشق کے تاجدار نے پوچھا: کوفہ کا فقیہہ کون ہے۔ معلوم ہوا کہ عجمی۔ دوسرے کچھ شہروں کے بعد‘ بغداد کے بارے میں سوال کیا گیا‘ تو وہ مطلع ہوا کہ نعمان بن ثابتؒ‘ ابوحنیفہؒ‘ تمام آئندہ زمانوں میں‘ جنہیں امام اعظم کے لقب سے یاد رکھا جانا تھا۔ پوچھا کہ عرب ہیں یا عجمی۔ عجمی ہونے کی تصدیق ہو چکی‘ تو اس نے کہا ”خدا کی قسم‘ علم تو عجمی لے گئے‘‘۔
جواں سال ابوحنیفہؒ نے پہلی بار اللہ کے گھر کا قصد کیا۔ طواف کے بعد‘ صفاو مروہ کی پہاڑیوں سے گزرتے‘ حجام کے پاس پہنچے۔ اجرت کا پوچھا تو اس نے کہا: عبادت کی قیمت نہیں لگائی جاتی۔ اپنا سر انہوں نے آگے بڑھایا تو بائیاں پہلو سامنے تھا۔ اس نے کہا: دائیاں حصّہ جناب۔ زائر کو خاموش پا کر‘ حجام نے کہا: کچھ پڑھتے رہیے ‘جناب۔روانہ ہوئے‘ تو اس نے پوچھا: کہاں چلے آپ؟ جواب دیا: اپنے ٹھکانے کو۔ کہا:شکرانے کے دو نفل تو ادا کر لیجئے۔
ٹھٹھک کر آپ رک گئے اور بڑے میاں سے پوچھا کہ درحقیقت وہ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ ایک حجام ہی ہے‘ مگر جوانی میں عطاء بن ابی رباحؒ کی محفل میں بیٹھنے کا شرف اسے حاصل رہا۔
کوئی پھول بن گیا ہے کوئی چاند کوئی تارا
جو چراغ بجھ گئے ہیں‘ تری انجمن میں جل کے
صاحبانِ علم کے سرخیلوں میں سے ایک سرخیل‘ سعید بن المسیّب سے پوچھا گیا:دنیا کے سردار کون ہیں؟ فرمایا: زہّاد۔
پھر وہ دنیا کہیں کھو گئی۔ گزرتی ہوئی صدیوں کی گرد میں گم ہوگئی‘ اہلِ زہد‘ جس کے فرماں رواں تھے۔ ایک ہزار برس کے بعد‘ مشرق کے عالی قدر شاعر کو کہنا پڑا۔
کامل اس فرقۂِ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: جب تم الجھ جائو تو اہلِ علم کے پاس جائو۔ ”راسخون فی العلم‘‘۔ وہ کہ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی علم ہے۔سحر سے شام اورشام سے سحر تک ‘تمام عالم سے بے نیاز!
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں‘ غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے ”علیکم مجالس بالابرار‘‘۔ تم پر لازم ہے کہ نیکو کاروں کی صحبت میں بیٹھا کرو۔
بہت سال پہلے کی بات ہے۔ عارف کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ”خوش قسمتی سے گورنر پنجاب شہر میں ہیں اور آپ کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ کم خوابی کی سحر میں پیدا ہونے والی بیزاری۔ عرض کیا: خوش بختی کی اس میں کیا بات ہے۔ کیا آپ مجھے علامہ اقبال یا قائداعظم سے ملاقات کی دعوت دے رہے ہیں؟اپنے اس چڑچڑے پن پہ وحشت ہوئی ۔ ماندگی کے اس عالم میں بات درویش کو بتائی تو وہ مسکرائے اور کہا: ایک اخبار نویس حاکموں سے ترش روئی کے ساتھ پیش آئے تو اللہ اسے معاف کر دے گا۔ اللہ کے عام بندوں پہ کبھی نہ بگڑنا چاہیے۔ خوش قسمت اخبار نویس وہ ہے‘ جو اقتدار کی طرف پیٹھ اور خلق کی طرف منہ کرکے کھڑا رہے۔
حکایت یہ ہے :حسین بن منصور حلاّج کو زنداں کے تہہ خانے سے نکال کر گورنر کے دربار میں لایا گیا تو وہ مسکرا رہا تھا۔ اسے تعجب ہوا اور برہمی نے آ لیا۔ کرسی کی طرف اشارہ کیا‘ بیٹھ جانے کو کہا۔ حسین نے انکار میں سر ہلایا۔ زچ ہو کر وہ چیخا: ہنس کیوں رہے ہو تم‘ بیٹھتے کیوں نہیں؟ ”عمر بھر میں نے یہ دیکھا ہے‘‘ اس نے کہا ” ایک بار دربار میں جو بیٹھ جائے‘ پھر کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا‘‘۔
عمران خان کو اللہ تعالیٰ‘ ہر وہ کامیابی عطا کرے‘ جس کا وہ آرزومند ہے اور جس کے آرزومند‘ اس کے فدائین ہیں۔ کبھی وہ ایک دوست تھا‘ اب ایک حکمران ہے۔ ملک اور قوم کی سرخروئی‘ اس کی سرخروئی سے جڑی ہے۔ پروردگار اس کی مدد کرے۔ اخبار نویس کی دنیا وہ گلیاں اور بازار ہیں‘ جن میں مصائب کی ماری مخلوق جیتی ہے۔جن کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ اسے ان کے درد کی حکایت لکھنی چاہیے‘ لکھتے رہنا چاہیے۔ اس کی جنت پامال بستیوں کی گرد میں ہے یا دوسروں کی طرح اہلِ علم کے قدموں میں۔
اور ایک آخری بات یہ کہ زندگی میں معجزے ‘فقط ایک استثنائی صورت میں برپا ہوتے ہیں۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ایک بلند مقصد کیلئے پیہم ایثار اور پیہم جدوجہد۔
کس کس کو اس کا یارا ہے؟ کون کون اس کا مدعی ہے؟