ایک انتخاب اور سہی…ایاز امیر
1970ء سے پہلے کا زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل انتخابات کا انعقاد ہے ۔ قومی زندگی میں جو انتخابات نہیں ہوئے، 1970ء تک پاکستان میں عام انتخابات آڈَلٹ فرنچائز (adult franchise) کی بنیاد پہ نہ ہوئے تھے، ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ وہ ہے ۔ پھر 1970ء میں ایک فوجی ڈکٹیٹر نے انتخابات کرائے ، پھر سب مانتے ہیں کہ انتخابات کا عمل شفاف تھا، اور جو حشر برپا ہوا وہ ہم جانتے ہیں۔
اِس ملک میں ہم ایک عجیب بھول میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ سیاسی عمل کا مقصد جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے حالانکہ بذاتِ خود جمہوریت کسی مرض کی دوا نہیں جب تک کہ جمہوریت کے آگے کوئی منزل نہ ہو۔ منزل تو ملکی استحکام اور ترقی ہونی چاہیے۔ جمہوریت کے ثمر کے طور پہ ہمیں چھلانگ لگا کر صفِ اول کے ترقی پذیر ممالک میں شامل ہو جانا چاہیے تھا ۔ باقی اسلامی دنیا کی نسبت پاکستان میں جمہوریت زیادہ ہے ۔ جس طرح یہاں پہ اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے باقی اسلامی دنیا میں شاید ہی نظر آئے ۔ لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اس آزادی اور جمہوریت سے حاصل کیا ہوا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متعدد انتخابات کے انعقاد کے بعد یہ ایک روشن خیال معاشرہ ہوتا ۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ ہماری قومی سوچ ، ہمارا انداز فکر اور ہمارے عمومی معاشرتی رویے ایسے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ یہ بہت ہی پیچھے دیکھنے والا اور فرسُودہ معاشرہ ہے۔
شعبہ تعلیم تباہ ہو کے رہ گیا ہے ۔ جمہوریت کا اِس پہ کچھ تو اَثر پڑتا۔ جمہوری بحثوں میں کم از کم یہ نکتہ تو سامنے آتا کہ اِس ملک میں ایک اچھا نظامِ تعلیم رائج ہونا چاہیے ۔ لیکن ساری جماعتوں کے منشور دیکھ لیں۔ کہیں بھی یہ ذکر ہے کہ ایک نظام تعلیم ہو؟ ہماری جامعات میں جائیں تو تاثر ملتا ہے کہ پتہ نہیں کس صدی کی پرانی درس گاہیں ہیں ۔ جس انداز میں انتخابات ہوتے ہیں ، ہو تو رہے ہیں ‘ لیکن اِس جمہوری عمل کا کوئی بتائے تو سہی کہ اثر کیا ہے؟
ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اَب کی بار حالات مختلف ہوں گے اور تبدیلی کی اُمید روشن ہے ۔ یہ بھی تو کوئی بتلائے کہ اِس تبدیلی کے انقلابی پاسداران کون ہوں گے؟ نون لیگ اور پی ٹی آئی کو لے لیں ۔ دونوں کی انتخابی فہرستیں سامنے رکھیں ۔ نام ایسے درج ہیں کہ پی ٹی آئی کے الیکشن امیدوار نون لیگ کا ٹکٹ حاصل کر لیں اور نون لیگ والے پی ٹی آئی کے اُمیدوار بن جائیں تو کوئی فرق پڑے گا؟ ایک ہی قسم کے لوگ اِدھر بھی ہیں اور اُدھر بھی ۔ وہی نام نہاد ‘الیکٹیبل‘ (electable)۔ پی ٹی آئی والے تو باقاعدہ دَر پردہ کہہ رہے ہیں کہ سلیکشن کا پیمانہ یہ ہے کہ صوبائی الیکشن میں اُمیدوار کم از کم دو کروڑ اور قومی اسمبلی نشست کیلئے چار کروڑ کے لگ بھگ خرچہ کر سکنے کے قابل ہو۔ حالت جب یہ ہو تو تبدیلی آسمان سے آئے گی؟
پانامہ پیپرز سے پیدا ہونے والے بظاہر اور در پردہ عمل کا ایک ہی مقصد لگتا ہے کہ نواز شریف سے جان چھڑائی جائے۔ وہ مقصد تو حاصل ہو گیا۔ نواز شریف وزارت عظمٰی سے گئے اور لگتا ہے جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے نتیجے میں نون لیگ اقتدار میں نہیں آ سکے گی ۔ پنجاب سے البتہ سوالیہ نشان ہے جہاں پہ نون لیگ اَب بھی مضبوط ہے لیکن فرض کیجئے کہ نون لیگ پنجاب میں بھی دوسرے نمبر پہ آتی ہے ۔ پھر کیا ہو گا؟ کون سے کمالات کے تیر تب چلیں گے؟ عمران خان ٹکٹو ں کے مسئلے پہ خاصے ناکام رہے ہیں۔ اگر خوش اسلوبی سے یہ مرحلہ اُن سے نمٹایا نہیں جا سکا تو کس بنیاد پہ تصور کر لیا جائے کہ اگر وہ وزیر اعظم بنے تو باقی معاملات کو خوش اسلوبی سے سنبھال سکیں گے؟ ان سے کوئی یہ تو پوچھے کہ اگر اِس وقت عمرے پہ جانا اتنا ہی ضروری تھا تو کیا پرائیویٹ جیٹ کے علاوہ سفر نہیں ہو سکتا تھا؟ یہ جو آس پاس ان کے لوگ ہوتے ہیں جن کو عُرف عام میں اِن کے ‘اے ٹی ایم‘ کہا جاتا ہے‘ کیا تبدیلی کے امکانات اِن بخاریوں اور خانوں سے وابستہ ہیں؟ کیا پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں یہ بخاری اور ریئل سٹیٹ خان مملکت کو انقلابی سانچے میں ڈھالیں گے؟ چلیے اِسی پہ خوش ہوتے ہیں کہ قوم نے نون لیگ سے جان چھڑا لی ۔ نون لیگ والوں کی باتیں واقعی اُکتاہٹ اور بوریت پیدا کر رہی تھیں ۔ لیکن بدلے میں قوم کو کیا ملا یا کیا ملنے جا رہا ہے ؟
پی ٹی آئی اس زُعم میں بھی نہ رہے کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے اپنی طاقت اور سُوجھ بُوجھ کے بل پہ کر رہی ہے ۔ اندھیروں میں سے جتنے وٹامن کے ٹیکے اُسے لگ سکتے ہیں لگائے جا رہے ہیں ۔ اندھیروں میں سے اِس سے زیادہ مدد بہم پہنچ نہیں سکتی ۔ ایک زمانے میں اندھیرے میاں نواز شریف کے معاون اور مدد گار تھے ۔ وٹامن کے انجکشن اُن کو لگتے تھے‘ اِسی معجزانہ طب کی بدولت اسلامی جمہوری اتحاد بنا اور پھر میاں نواز شریف مسندِ وزیر اعظم پہ پہنچے ۔ اِس طبِ معجزانہ کی خصوصیات کا اِنہیں کون سمجھائے ۔ وہ سب جانتے ہیں کیونکہ اپنے تمام سیاسی سفر میں اُسی طبِ خصوصی سے اُنہوں نے فیض پایا ۔ اَب وہ فیض منتقل ہو چکا ہے ۔ اُس کے فیض یاب عمران خان اوراُس کی پارٹی‘ دونوں ہیں ۔ لہٰذا ہمت اور جواں مردی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ عمران خان کسی وجہ سے بھی اِس بار پھسل گئے یا رہ گئے تو پھر یہ موقع اس سنہری خدوخال کے ساتھ کبھی ہاتھ نہ آئے گا۔ انگریزی میں کیا کہتے ہیں ، Now or never۔
لیکن سوال پھر وہی ۔ اقتدار مکمل یا ادھورا ، ہاتھ میں آ بھی گیا تو اُس کا کیا کریں گے؟ ذہن میں کوئی نقشہ ہے ، کوئی پلاننگ ہے ؟ اگر کسی نے تبدیلی کے امکانات شاہ محمودوں ، علیم خانوں اور جملہ بخاریوں سے وابستہ رکھنے ہیں تو پھر بہتر ہے اِس خواب کو ادھورا ہی رہنے دیا جائے ۔ مسئلہ ایک اور بھی ہے ۔ یہ کوئی قومی راز نہیں کہ اندھیروں میں چلنے والی خفیہ قوتوں کا پاکستانی سیاست پہ گہرا اثر ہے ۔ امور خارجہ سے لے کر قومی سکیورٹی تک اُنہی کی بات چلتی ہے۔ اُس مخصوص دائرے میں جب تک نئی سوچ نہ آئے اور نئے امکانات روشن نہ ہوں پاکستان میں تبدیلی نہیں آ سکتی ۔ ہمارے سیاسی لیڈر بے چارے تو مہرے ہوتے ہیں ۔ اقتدار میں جن سیڑھیوں کی مدد سے آتے ہیں اُن کی وجہ سے وہ پہلے سے ہی حالات کے جبر میں پھنسے ہوتے ہیں ۔ اُن کی سوچ آزاد نہیں رہتی ، اُن کا دائرۂ عمل بہت محدود ہو جاتا ہے ۔ عمران خان جن وٹامن کے ٹیکوں کی وجہ سے اقتدار میں آئیں گے ،یعنی اگر وہ آئے ، تو کیا انجکشن لگانے والے ہاتھوں کے خلاف کچھ کرنے کے قابل ہوں گے؟
عوامی سیاست کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور پھر اقتدار میں آ کے اپنی سیاست کا رُخ اُنہوں نے بدل دیا ۔ پھر وہ کچھ نہ کر سکے اور اُنہی قوتوں کا شکار ہو گئے جن کے خلاف شروعات میں برسر پیکار ہوئے تھے ۔ عمران خان کے پاس موقع تھا کہ ایک نئی عوامی سیاست کی بنیاد رکھتے ۔ لیکن اقتدار کی سیڑھی پہ چڑھنے کی بے تابی میں اُنہوں نے اپنے ہاتھوں اُن امکانات کو ختم کر دیا۔ اَب صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف گئے تو ایک اور سٹیٹس کو (status quo) کا محافظ سیاسی اُفق پہ اُبھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی بظاہر تبدیلی آئے اصل میں بات وہی پرانی رہتی ہے۔