ایک ان پڑھ معاشرے کا واویلا….غازی صلاح الدین
ضیاء الحق کے زمانے میں ایک بہت مختصر واقعہ ایسا تھا کہ جب کوئی اخبار آخری وقت میں کسی خبر کو نکالتا تو چھپےہوئے اخبار میں وہ جگہ خالی رہ جاتی۔ یہ سب میرے ذاتی صحافتی تجربے کی باتیں ہیں۔ تو جب کوئی جگہ خالی ہوتی تو پڑھنے والے اسے پڑھنے کی خاص طور پر کوشش کرتے۔ لیکن آج کل کچھ ایسی صوتحال ہے کہ خالی جگہ کو پڑھنے کی کوشش کرنا یا خاموشی کی آواز سننا تو دور کی بات ہے، چھپی ہوئی سرخیوں کو پڑھنا بھی کم لوگوں کو آتا ہے۔ پھران کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا توکسی کے بس میں دکھائی نہیں دیتا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ لاعلمی بلکہ بے خبری ایسے دنوں میں فروغ پا رہی ہے کہ جب ٹیلی ویژن کی خبروں اور ٹاک شوز میں تبصروں اور تجزیوں کا لاوا آگ بن کر ابل رہا ہے۔ ہر مبصر اپنی اس رائے کا اظہار کررہا ہے جو سننے والے ہزار بار سن چکے ہیں اورکئی مبصر ایک ہی شام، کپڑے تبدیل کئے بغیر، دو یا تین چینلز پر اپنا جلوہ دکھا دیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران، تمام مشکلات کے باوجود، معاشرے میں سیاسی سمجھ بوجھ کامعیار بہتر تھا۔ اب کہنے کو تو میڈیاہمارے اعصاب پرسوار ہے لیکن عام لوگوں کی حالات و واقعات کی سچائی تک رسائی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ایک ہیجان اور افراتفری کی سی کیفیت ہے۔ میڈیا کےعلاوہ بھی معاشرے کا
تجزیہ کرنے کے کئی ذرائع موجود ہیں۔ سب سے بڑی مثال اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنی جامعات کی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک یونیورسٹی کے کیمپس پر مشال خان کے بہیمانہ قتل کی پہلی برسی منائی گئی۔ اس واقعہ کے بارے میں تو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور مشال خان کے قتل سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرے کے ایک طبقے میں قاتلوں کی حمایت موجود ہے اور مشال خان کے اپنے خاندان کو حفاظت کی ضرورت ہے اور اس کی بہنیں کالج نہیں جاسکتیں۔ مشال پر جو الزام لگایاگیا وہ جھوٹا تھا اور باقاعدہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی۔ تو یہ سب کچھ ہوسکتا ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں اور ہم اس موضوع پر ٹھیک سے گفتگو بھی نہیں کرسکتے۔
بات میں نے میڈیا کے ذکر سے شروع کی تھی لیکن دراصل میرا موضوع معاشرے کی فکری اور تعلیمی زوال پذیری ہے۔ میڈیا اور خاص طور پر اخبارات اس کا محض ایک اظہار ہیں۔ ہمارے ملک میں اخبارات، رسائل اور کتابیں اتنی کم پڑھی جاتی ہیں کہ تصدیق شدہ اعداد و شمار ہمارا ذہن شاید قبول ہی نہ کرے اور اس خوفناک روش کے نتائج اب واضح ہوتے جارہے ہیں۔ انسانی وسائل کی قلت نے قحط کی سی صورتحال پیدا کردی ہے۔ نوجوان ڈگریاں تھامے نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن کام کرنے والے قابل افراد ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔‘‘ کتنے ہی عہدے دنوں تک خالی پڑے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہم پڑھتے ہیں اس لئے سوچنے کا عمل بھی متاثر ہوتاہے۔ ہمارے معاشرے کے جو بنیادی حقائق ہیں ان کو نہ سمجھنے یا ان سے واقف نہ ہونے کی ایک سزا ہمیں یہ مل رہی ہے کہ ہم اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری جمہوریت کے خدوخال بھی بگڑتے جارہے ہیں۔ اجتماعی طور پر ہماری ذہنی صلاحیتیں کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس ضمن میں ادب کا شعبہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ نوجوان سے جب کسی مکالمہ کا موقع ملتا ہے تو ایک بات میں کہتا ہوں کہ تخیل یا خواب دیکھنےکی صلاحیت علم سے بھی بالاتر ہے اور یہ صلاحیت ہم ادب پڑھ کر ہی حاصل کرسکتے ہیں۔
یہاں میں اسی صفحے پر منگل کو شائع ہونے والے محترم مسعود اشعر کے کالم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ اس بہانے مجھے اپنی ایک بات کہنی ہے۔ کالم کا عنوان تھا ’’ہم نئے خیالات سے بدکتے کیوں ہیں؟‘‘ لیکن بنیادی نکتہ یہ تھاکہ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ادب روبہ زوال ہے تو وہ یہ نہیں جانتے کہ کتنا اچھا ادب آج بھی لکھا جارہا ہے۔ کالم میں چار ناولوں کا ذکر ہے اور مسعود اشعر صاحب نے یہ سوال پوچھا ہے، ’’اب جو اصحاب اردو ادب کے زوال کی بات کرتے ہیں ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا انہوں نے ان میں سے ایک بھی ناول پڑھا ہے؟‘‘ میری نظر میں تشویش کی بات یہ نہیں ہے کہ اچھا ادب لکھا نہیں جارہا۔ زوال کی سچی علامت تو یہ ہے کہ ادب پڑھا نہیں جارہا۔ اور اگر ادب پڑھا جارہا ہو تو پھر چار نہیں بلکہ شاید چالیس ناولوں کی فہرست ہمارے سامنے ہو۔ اب مشکل یہ ہے کہ آپ اچھی کتابوں کی نشاندہی کردیں تو ضروری نہیں کہ کوئی انہیں حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جائے۔ ایک مشق میرے ذہن میں آئی لیکن میں کرنہ سکا۔ وہ یہ کہ یہ اخبار اس ملک کا سب سے بڑا یعنی سب سے زیادہ شائع ہونے والا اخبار ہے۔ اس کے ایک ’’کالم‘‘ میں اگر چار اچھے ناولوں کا تعارف ہو تو اسی دن ناولوں کی فروخت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اب پتہ نہیں منگل کے دن، انٹرنیٹ کے ذریعے یا کتابوں کی دکانوں پر ان ناولوں کی کتنی جلدیں خریدی گئیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اوپرا ونفری اپنے ٹیلی ویژن کے پروگرام میں کسی کتاب کا انتخاب کرتی تھی تو اگلے چند گھنٹوں میں وہ کتاب ’’بیسٹ سیلر‘‘ بن جاتی تھی۔ ایک اور مثال مجھے زیادہ معنی خیز لگتی ہے۔ روسی انقلاب کے بعد سالوں تک سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ایک سرد جنگ جاری رہی۔ عالمی اجتماعات میں ان دونوں ملکوں کے نمائندے اپنے اپنے نظام کے گن گایا کرتے تھے۔ سوویت ادیب ایلیا اہرن برگ ثقافت کے محاذ پر اپنے ملک کا پرچم سنبھالتے تھے۔ ایک کانفرنس میں ان سے کسی نے کہا کہ یہ جو آپ کا انقلاب ہے تو اس نے کوئی عظیم ادیب تو پیدا نہیں کیا۔ کوئی نیا چیخوف۔ کوئی نیا ٹالسٹائی۔ ایلیا اہرن برگ نے جواب دیا کہ ہاں، انقلاب کے بعد کوئی نیا ٹالسٹائی تو پیدا نہیں ہوا لیکن آپ یہ دیکھئے کہ پہلے اگر چند ہزار ٹالسٹائی کو پڑھتے تھے تو اب ٹالسٹائی کو پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ کتنی گہری بات ہے۔ اب اگر لاکھوں نئے پڑھنے والے غالب کو پڑھنے لگیں تو شاید یہ کہا جاسکے کہ کئی نئے غالب پیدا ہوگئے ہیں۔ اور ایسے ذہنی طور پر بالغ، پڑھے لکھے معاشرے میں نئے خیالات اورنئی تخلیات کی افزائش کو کوئی کیسے روکے گا۔ گویا اصل معاملہ معاشرے کے زوال کا ہے۔ اور میرا دکھ یہ ہے کہ مطالعے کے شوق اور عادت میں کمی کے خطرات سے ہماری حکومت اور ہمارے حکمراں پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔
یوں تو انٹرنیٹ کی دنیا میں کاغذ پر لکھی جانے والی تحریروں کا زور کسی حد تک ٹوٹا ہے لیکن پڑھنے کے عمل میں کمی نہیں آئی۔ انڈیا اورچین جیسے ملکوں میں تو اخبارات کی اشاعت میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ اپنی بات اس میں کیسے کروں۔ یہ جو دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف جو جنگ ہم لڑتے رہے ہیں اس میں ایک موثر ہتھیار تو ہم نے استعمال ہی نہیں کیا۔ اور آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔