بعض حقیقتیں اس قدر تلخ اور کڑوی ہوتی ہیں کہ لاکھ کوشش کے باوجود انھیں نگلنا ممکن نہیں ہوتا، گلشن اقبال لاہور میں ہونے والا دھماکا (جسے ’’سانحہ لاہور‘‘ کا نام دیا گیا) بھی ایک ایسی ہی اعصاب شکن حقیقت ہے جو اب ایک روایت بنتی جا رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ضرب عضب کے آرمی ایکشن اور داخلی سطح پر برسرعمل امن وامان کی ذمے دار ایجنسیوں نے گزشتہ ایک دو برس میں اس صورت حال کو بدلنے اور اس کی شدت کو کم کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے ۔
جس کی وجہ سے ہمارے شہر اور سرحدی علاقے نسبتاً محفوظ اور پر امن ہوگئے ہیں مگر وقفے وقفے سے ایسے روح فرسا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ سب کچھ ایک ڈرامہ سا لگنے لگتا ہے اور ڈرامہ بھی ایسا جس کے نہ تو کردار پہچانے جاتے ہیں اور نہ ہی جس کا پلاٹ سمجھ میں آتا ہے۔ آج سے تقریباً 21 برس قبل میں نے ’’ایک اوردھماکا ہونے تک‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی حالیہ دھماکے کے تناظر میں اسے پڑھا تو یوں لگا جیسے 21 برس قبل کا گزرا ہوا وہ لمحہ بغیر کسی تبدیلی کے دوبارہ سامنے آن کھڑا ہو۔
اگر کوئی فرق پڑا ہے تو وہ صرف یہ کہ اب اس منظرنامے میں پرائیویٹ میڈیا چینلز بھی شریک ہوگئے ہیں جو اپنی اپنی مصنوعی اور انسان دشمن ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایک ایسی سنسنی پیدا کرتے ہیں جس سے متاثرہ لوگوں اور عوام مزید فرسٹریٹ اور بے حوصلہ ہو جاتے ہیں اور اس طرح کی حرکتیں کرنے والے دہشت گرد، ان کے آقا، سہولت کار اور خودکش بمبار اپنے آپ کو کامیاب اور ہیرو سمجھنے لگ جاتے ہیں جب کہ حکومتی ادارے ایک ایسے گھسے پٹے اور بے روح قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جس پر کسی بزرگ کا ایک قول بار بار یاد آتا ہے کہ جو مُکّہ لڑائی کے بعد یاد آئے اسے خود اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔
سانحۂ پشاور کے بعد ملک بھر کے اسکولوں کی عمارات کو محفوظ بنانے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا گیا اور اب پارکوں اور تفریحی مقامات کے ضمن میں اسی نوع کی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ دیکھا جائے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کتے کو کنوئیں میں سے نہیں نکالا جائے گا نہ کنواں صاف ہوگا اور نہ اس کا پانی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم اور مسلسل نقصان کے باوجود کم از کم ان گزشتہ 21 برسوں میں ہم سب مل کر اسی طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے سانحات کے نام اور مقام تو بدل جاتے ہیں مگر ان کی نوعیت اور اثرات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
اس نظم میں بوجوہ کچھ پنجابی اور انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے۔ مزید کوئی بات کرنے کے بجائے آئیے اسی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مجموعی طور پر ان المناک تجربوں اور حادثوں سے کوئی بھی، کچھ بھی نہیں سیکھ رہا اور یہی اصل لمحہ فکر ہے۔
بس ایک دھماکا ہوتا ہے
اور جیتے جاگتے انسانوں کے جسم ’’گتاوا‘‘ بن جاتے ہیں
ایک ہی پل میں
اپنے اپنے خوابوں کے انبار سے بوجھل کتنی آنکھیں
ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں
ان کے دلوں میں آنے والی ساری صبحیں کٹ جاتی ہیں
ساری شامیں کھو جاتی ہیں
لاشیں ڈھونڈنے والوں کی چیخوں کو سن کر یوں لگتا ہے
انساں کی تقدیر- قیامت!
جس کو اک دن آنا تھا وہ آپہنچی ہے
مرنے والے مر جاتے ہیں
جیون کے ’’اسٹیج‘‘ پر ان کا ’’رول‘‘ مکمل ہوجاتا ہے
لیکن ان کی ’’ایگزٹ‘‘ پر یہ منظر ختم نہیں ہوتا
اک اور ڈرامہ چلتا ہے
اخباروں کے لوگ پھڑکتی ’’لیڈیں‘‘ گھڑنے لگ جاتے ہیں
(جن کے دم سے ان کی روزی چلتی ہے)
اور ٹی وی ٹیمیں کیمرے لے کر آجاتی ہیں
تاکہ ’’وژیول‘‘ سج جائے اور اعلیٰ افسر
اپنی اپنی ’’سیٹ‘‘ سے اٹھ کر ’’رش‘‘ کرتے ہیں
ایسا ناں ہو!
حاکم اعلیٰ، یا کوئی اس سے ملتا جلتا
ان سے پہلے آپہنچے
پھر سب مل کر اس ’’ہونی‘‘ کے پس منظر پر
اپنے اپنے شک کی وضاحت کرتے ہیں اور
حاکم اعلیٰ، یا کوئی اس سے ملتا جلتا
دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرکے
مرنے والوں کی بیواؤں اور بچوں کو
سرکاری امداد کا مژدہ دیتا ہے
اور چلتے چلتے ہاسپٹل میں
زخمی ہونے والوں سے کچھ باتیں کرکے جاتا ہے
حزب مخالف کے لیڈر بھی
اپنے فرمودات کے اندر
’’کرسی والوں‘‘ کی ناکامی، نااہلی اور کم کوشی کا
خوب ہی چرچا کرتے ہیں
گرجا، برسا کرتے ہیں
اگلے دن اور آنے والے چند دنوں تک
یہ سب باتیں خوب اُچھالی جاتی ہیں
پھر دھیرے دھیرے
ان کے بدن پر گرد سی جمنے لگتی ہے
اور سب کچھ دھندلا ہوجاتا ہے
خاموشی سے اک سمجھوتہ ہو جاتا ہے
سب کچھ بھول کے سونے تک
اک اور دھماکا ہونے تک