منتخب کردہ کالم

ایک اور ’’سرپرائز‘‘ ….رئوف طاہر

ایک اور ’’سرپرائز‘‘ ….رئوف طاہر
مرحوم نوابزادہ صاحب کہا کرتے تھے ”سیاست اعصاب کی جنگ ہے۔ جس کے اعصاب جواب دے گئے‘ وہ ہار گیا‘‘۔ فوجی معرکوں کی طرح سیاسی معرکوں میں بھی ”سرپرائز‘‘ ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔ کوئی اچانک اقدام‘ حیران کر دینے والا کوئی فیصلہ‘ فریق مخالف کو جس کی توقع نہ ہو۔ شطرنج کی بازی کی طرح…اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ چال اُلٹ اور بازی پلٹ جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے ایک مثال‘ بھٹو صاحب کے پے در پے آمرانہ حملوں کے نتیجے میں اپوزیشن نیم جان بھی تھی اور منتشر بھی۔ رائو رشید آئی جی پولیس کی حیثیت سے آمریت کی شاندار خدمات کے بعد اب انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تھے اور ان کی رپورٹ کے مطابق یہ شاندار موقع تھا کہ بھٹو صاحب نئے انتخابات کے ذریعے مزید پانچ سال کا مینڈیٹ حاصل کر لیں۔ بھٹو صاحب سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت کے طور پر برسر اقتدار آئے لیکن ماہرینِ آئین ان کی پانچ سالہ مدت کا آغاز اگست 1973ء سے کرتے‘ جب نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ ان کی وزارت عظمیٰ کا آغاز ہوا۔ لیکن بھٹو صاحب نے قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے 7 مارچ 1977ء کی تاریخ طے پائی۔ بھٹو صاحب کے اس اچانک اقدام کا جواب اپوزیشن کے اتحاد کی صورت میں سامنے آیا۔ نیم جان اور منتشر اپوزیشن پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے متحد ہو کر میدان میں آ گئی۔ 9 جماعتوں کا 9 ستاروں والا ایک پرچم اور ایک انتخابی نشان ”ہل‘‘۔ بی این اے نے بھی بھٹو مخالف عوام میں مایوسی اور ناامیدی کی جگہ حوصلے اور اُمید کی نئی روح پھونک دی۔ بھٹو صاحب کے اچانک انتخابات کے سرپرائز پر اپوزیشن کے جوابی سرپرائز نے موصوف کو اس قدر حواس باختہ کردیا کہ انہوں نے لاڑکانہ کی آبائی نشست پر بلامقابلہ منتخب ہونے کے لیے اپنے مدمقابل پی این اے کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل ہی اغواء کروا دیا۔ شامی صاحب کے ہفت روزہ کے سرورق پر دو تصاویر تھیں اور کیپشن تھا ”بھٹو صاحب‘ بلامقابلہ جیت گئے‘‘ …مولانا عباسی‘ بلامقابلہ ہار گئے‘‘…صوبوں میں یہی کارروائی وزرائے اعلیٰ نے اپنے حریف امیدواروں کے ساتھ کی۔ ”بلامقابلہ‘‘ جیتنے والوں میں پنجاب کے سینئر وزیر بھی تھے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ بھٹو صاحب دھاندلی کے بغیر بھی سادہ اکثریت تو آسانی سے حاصل کر لیتے‘ لیکن دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش اور دوسری طرف اعصاب باختہ کر دینے والی پی این اے کی انتخابی مہم‘ بڑے بڑے جلوس جن کی خود پی این اے کو توقع نہ تھی‘ کراچی میں ایئرپورٹ سے مزار قائد تک ایئر مارشل اصغر خاں کا جلوس نو‘ دس گھنٹے لے گیا تھا‘ اور پھر الیکشن کے روز جو کچھ ہوا‘ وہ انتخابات کی تاریخ کا شرمناک باب تھا۔ لاہور میں اندرون شہر کے حلقے سے ملک اختر امیدوار تھے‘ بھٹو صاحب کے وزیر قانون۔ امریکی جریدے ٹائم میں ایک تصویر شائع ہوئی۔ ایک پولنگ سٹیشن کی تصویر‘ ملک صاحب کے ایک ہاتھ میں سٹین گن تھی اور دوسرے میں بیلٹ بکس‘ اور سوالیہ نشان کے ساتھ کیپشن تھا :
The Law minister?
پاناما کیس پر عدالتی کارروائی‘ پانچ فاضل ججوں پر مشتمل بنچ کے 2 ججوں کا 20 اپریل والا فیصلہ‘ پھر جے آئی ٹی کا قیام اور اس کے روبرو سارے خاندان کی پیشیاں اور آخر میں 28 جولائی کو تاحیات نااہلی کے ساتھ‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مبنی ریفرنسز دائر کرنے کے لیے نیب کو ہدایت…
اور اس کے بعد دوسری اننگز کا آغاز تھا‘ جسے نوازشریف کو کھیلنا تھا۔ موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور آنے کا فیصلہ اور اس چار روزہ سفر میں عوام کی طرف سے معزول وزیراعظم کے ساتھ بے پایاں وابستگی اور پرجوش یکجہتی کا اظہار شاید پہلا ”سرپرائز‘‘ تھا۔ خیال تھا‘ نوازشریف کی نااہلی کے ساتھ ہی پارٹی میں بھگڈر مچ جائے گی‘ اس کے برعکس وہاں اتحاد کا مظاہرہ تھا‘ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ان ارکان اسمبلی کا اظہار وفاداری کہیں بڑھ چڑھ کر تھا‘ چار سال کے عرصے میں جنہیں وزیراعظم کی بے اعتنائی کی مسلسل شکایت رہی تھی۔ معزول وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اپنے Nominee کو باآسانی اپنا جانشین منتخب کرا لیا تھا‘ اور آنے والا‘ جانے والے کو اپنا وزیراعظم قرار دے رہا تھا۔ ”سرپرائز‘‘ کا سلسلہ جاری تھا۔ معزول وزیراعظم کی نشست پر نہایت ”ناسازگار‘‘ حالات کے باوجود‘ ان کی علیل بیگم صاحبہ کی فتح نے ”سرپرائز‘‘ کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ معزول وزیراعظم‘ بیگم صاحبہ کی تیمارداری کے لیے لندن میں تھے‘ جو ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری سرجری کے مراحل سے گزریں‘ یہ تیسری سرجری زیادہ بڑی تھی۔ ادھر نیب اپنی کارروائی کا آغاز کر چکا تھا۔ ریفرنس احتساب عدالت کو بھجوائے جا چکے تھے اور اس کی طرف سے پیشی کے سمن جاری ہو چکے تھے۔ ادھر افواہوں کا بازار گرم تھا۔ معزول وزیراعظم واپس نہیں آئے گا‘ لندن سے امریکہ کے ویزے بھی لگوا لئے ہیں‘ جہاں لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی جا چکی ہیں۔ بے نظیر صاحبہ کی طرح اب وہ بھی برسوں پاکستان نہیں آئیں گے‘ اڑسٹھ‘ انہتر سالہ معزول وزیراعظم کو آٹھ‘ دس سال بیرون ملک قیام کرنا پڑا تو وہ اسّی (80) سال کے لگ بھگ ہو جائیں گے۔ ان کی سیاسی جانشین مریم بھی ریفرنسز کی زد میں ہیں۔ گویا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نوازشریف فیملی کا باب اختتام کو پہنچ جائے گا۔ اِدھر نوازشریف کے ہمدم دیرینہ چکری والے چوہدری نثار نیا کھیل شروع کر چکے۔ چھوٹے بھائی شہبازشریف نے “Behave” نہ کیا تو ان کے (اور ان کے خاندان کے لیے) ”حدیبیہ‘‘ موجود ہے۔
ادھر نومنتخب وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی معزول وزیراعظم سے وفاداری میں رتی بھر فرق نہ آیا تھا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یو این جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے امریکہ جاتے ہوئے لندن میں رکے اور واپسی پر بھی معزول وزیراعظم کو ”رپورٹ‘‘ پیش کی۔
جمعہ 22 ستمبر کو سینیٹ میں الیکشن بل 2017ء کی اس صورت میں منظوری کہ سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہلی کے بعد بھی وہ پارٹی کی صدارت کے لیے قانوناً اہل ہو گئے‘ حیرتوں کے سلسلے میں نیا اضافہ تھا۔
اور اب تک کا سب سے بڑا سرپرائز‘ سوموار 25 ستمبر کو معزول وزیراعظم کی وطن واپسی۔ بعض تجزیہ نگاروں نے اِسے جناب شہبازشریف اور چوہدری نثار علی خاں کی ”کاوشوں‘‘ کا ثمر قرار دیا‘ ایک ایسا کریڈٹ جس سے خود شہبازشریف کو انکار ہے‘ وہ اِسے میاں صاحب کا اپنا فیصلہ قرار دیتے ہیں‘ اور یہ فیصلہ وہ چھوٹے بھائی کی لندن آمد سے پہلے ہی کر چکے تھے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے‘ کھیل کا دوسرا حصہ۔ بڑے چوہدری صاحب کا کہنا ہے‘ انہیں 2018ء میں عام انتخابات نظر نہیں آئے۔ اور چھوٹے چوہدری کا کہنا ہے ”پرانا سکرپٹ نہیں‘ جو ہو گا‘ نیا ہو گا‘ جو پہلے کبھی نہیں ہوا‘‘۔
بھٹو صاحب کے اچانک انتخابات کے سرپرائز پر اپوزیشن کے جوابی سرپرائز نے موصوف کو اس قدر حواس باختہ کردیا کہ انہوں نے لاڑکانہ کی آبائی نشست پر بلامقابلہ منتخب ہونے کے لیے اپنے مدمقابل پی این اے کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل ہی اغواء کروا دیا۔